قرض دینے کی اہمیت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
” جو شخص لوگوں کا مال اس نیت سے لے کہ اس کو ادا کرے گا تو اللہ اس کی طرف سے ادا کرے گا اور جو اس کو تباہ کرنا چاہے تو اللہ تعالیٰ اس کو تباہ کردے گا“۔
(بخاری، جلد اول کتاب الاستقراض حدیث نمبر :2228)

انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک اہم اور ضروری چیز مال ہے، جس کے پاس مال ہے اسے امیر اور جس کے پاس مال نہیں اسے غریب کہا جاتا ہے۔ امیری وغریبی کی یہ تقسیم نظامِ قدرت کے کمال کی خصوصیت ہے۔ اگر سب کے سب امیر ہی ہوتے تو پھر کوئی بھی محکوم نظر نہ آتا۔ جس کے پاس ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے مال نہ ہو اسے قرض کی ضرورت پڑتی۔ ایسے ہی ضرورت مند اور حاجت مندوں کا خیال رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ، صدقہ اور قرض جیسی چیزوں کومشروع کیااور زکوٰۃ وصدقہ کی طرح قرض کوبھی باعث ثواب قرار دیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کسی مسلمان کی تکلیف کودُور کرے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی تکالیف کو دور کرے گا۔ اس حدیث سے پتا چلا کہ قرض دینا بھی ایک مستحسن عمل ہے۔

بعض موقعوں پرمحتاج اورتنگ دست حضرات بلاسودی قرض نہ ملنے کی وجہ سے سودی قرض لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ تجربہ شاہد ہے کہ ایک طرف بینکنگ کے نظام نے سودی قرضہ سے لوگوں کے خون کو اس طرح چوسنا شروع کیا کہ لوگ یاتو خود کشی کرنے پر مجبور ہوگئے یا اپنے اہل وعیال کو فروخت کرنے کے لیے تیار ہوگئے،تو دوسری طرف بعض لوگوں نے اپنے آپ کو بنک بنا کرخود سے سود پر قرضہ دینا شروع کیا۔ حالانکہ ایک زمانے تک نہ بینک کا نام ونشان تھااور نہ اس طرح کا کوئی کاروبار۔ اس کے باوجود محتاجوں کو برابر قرض مل رہا تھااور لوگ اللہ کی رضا کے لیے غریبوں کو بغیر سود کے قرض دیتے آرہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے اندر سے قرض دینے کا مستحسن عمل کیوں متروک ہورہاہے؟ اس کا جواب واضح ہے کہ قرض لینے والوں نے باوجود قرض کی ادائی پر قدرت کے بروقت قرض ادا کرنے میں کوتاہی اور تساہل سے کام لینا شروع کیا۔ حالانکہ قرض لینا مباح اور جائز کام ہے،اس میں کوئی شرمندگی نہیں ، اللہ کے رسولؐ نے بھی قرض لیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ نے ایک یہودی کے پاس سے ۳۰صاع جَو قرض لیے تھے اور اس کے بدلے آپؐ نے اپنی زرہ رہن میں رکھی تھی (سنن ابن ماجہ: ۲۴۳۹﴾)۔ اس لیے کہ قرض کی ادائی واجب اور ضروری ہے اور عدم ادائی باعث گناہ ہے۔

قرض ادا نہ کرنے والے کے سلسلے میں حدیث میں وعید آئی ہے۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَۃٌ بِدَیْـنِہٖ حَتّٰی یُقْضٰی عَنْہُ (سنن ابن ماجہ: ۲۴۱۳﴾)۔ علامہ عراقی نے اس حدیث کا یہ مطلب نقل کیا ہے کہ مقروض میت کے بارے میں نہ نجات کا فیصلہ ہوگا اور نہ ہلاکت کا یہاں تک کہ یہ دیکھا جائے گا کہ اس کی طرف سے قرض ادا کیا گیا یا نہیں(تحفۃ الاحوذی، ج۴،ص۱۶۴﴾)۔ علامہ خطیب شربینی ؒ نے اس حدیث کامطلب اس طرح بیان کیا کہ جب کوئی شخص مقروض ہونے کی حالت میں مرتا ہے تواس کی روح قبر میں محبوس ہوتی ہے اور عالم برزخ میں دیگر روحوں کے ساتھ اسے کشادگی حاصل نہیں ہوتی،اور اسے جنت کی سیر سے محروم رکھا جاتاہے۔ یہاں تک کہ اس کی طرف سے قرض ادا کیا جائے(مغنی المحتاج: ج۳،ص ۹۰﴾)۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص اس حالت میں مرجائے کہ اس پر ایک دینار یادرہم قرض باقی ہو، تو اس وقت جب درہم و دینار کام نہیں آئے گا،اس کی نیکیوں کے ذریعے قرض ادا کیا جائے گا(سنن ابن ماجہ: ۲۴۱۴﴾)۔ ایک حدیث میں بغیر قرض کے مرنے والے کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت سنائی۔آپؐ نے فرمایاکہ جس شخص کی روح اس کے جسم سے اس حال میں جدا ہو کہ اس پر کسی کا قرض نہ ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا(سنن ابن ماجہ:۲۴۱۲﴾)۔ ایک موقع پر آپؐ نے قرض ادا نہ کرنے والوں کو اس فعل سے بچنے اور اس فعل کے سخت گناہ ہونے کو بتلانے کے لیے ایک مقروض پر نماز جنازہ نہیں پڑھی بلکہ صحابہ کویہ حکم دیا کہ تم پڑھ لو۔(شرح مسلم،ج۴، ص۵۴﴾)

شریعت اسلامیہ میں کئی مقامات پر قرض کی ادائی کا وقت ہونے پرقرض ادا نہ کرنے والے کے حق میں سختی کا معاملہ کیا گیا ہے۔ مِن جملہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ قرض کی ادائی کا وقت ہونے کے بعد دائن (قرض دینے والے) کو اس بات کا مکمل اختیار ہے کہ وہ مقروض کو سفر کرنے سے روکے ، یہاں تک کہ وہ قرض ادا کرے پھر سفر کرے(الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج۵، ص ۴۵۹﴾)۔ اسی طرح باوجود دین کی ادائی پر قدرت کے جو دین ادا نہ کرے یا ٹال مٹول کرے تو اسے قاضی کے حکم سے قید کیا جائے (الفقہ الاسلامی وادلتہ ،ج۵،ص۴۶۲﴾ )۔اسلام میں چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے لیکن جب مقروض قرض ادا نہ کرے جس کی بنا پر قرض دینے والا مقروض کا مال اپنے قرض کے بقدر چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹا نہیں جائے گا۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج۶، ص۱۱۸﴾)

اسلام میں جہاد جیسے اہم وعظیم کام کی فضیلت واہمیت سے کسی کو انکار نہیں ،لیکن قرض کی ادائی کو جہاد پر مقدم کیا گیا ہے۔چنانچہ امام نووی ؒ فرماتے ہیں: وَالدَّیْنُ الْحَالُّ یُحَرِّمُ سَفَرَ جِھَادٍ وَغَیْرِہٖ اِلَّا بِـاِذْنِ غَرِیْــمِہٖ’’ کہ قرض کی ادائی کا وقت ہونے کے بعد قرض دینے والے کی اجازت کے بغیر جہاد کی غرض سے سفر کرنا حرام ہے (منھاج الطالبین، ج۳ ،ص ۲۶۱﴾)۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الْقَتْلُ فِی سَبِیْلِ اللہِ یُکَفِّرُ کُلَّ شَیْ ءٍ اِلَّا الدَّیْنَ ’’ کہ اللہ کے راستے میں شہید ہونے والے کا ہر گناہ معاف ہوجاتا ہے، سوائے قرض کے(مسلم :۴۸۸۴﴾)۔ لہٰذا قرض کی ادائی اس پر لازم ہونے کے بعد جہاد جیسے کام کے لیے ادائے قرض کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔

مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قرض ادانہ کرنے کا گناہ کتنا سخت ہے اور اسلام میں قرض ادا نہ کرنے والے کے ساتھ کس طرح سخت ر ویہ اختیار کیا گیا ہے۔ لہذا قرض لینے والوں کو چاہیے کہ وعدے کے مطابق قرض کو ادا کرنے کوشش کریں، تا کہ قرض دینے والے آیندہ بخوشی قرض دے سکیں۔ آج اگر سارے قرض لینے والے پوری ایمان داری ودیانت داری کے ساتھ قرض ادا کرنے لگیں تو مال داروں کو بھی قرض دینے میں کوئی پریشانی نہ ہوگی، اور سود جیسے بڑے گناہ سے حفاظت بھی ہوگی۔البتہ قرض دینے والوں کو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مقروض اگر حقیقت میں قرض کی ادائی پر قادر نہیں ہے تو اسے کچھ دنوں تک مہلت دیں۔اس لیے کہ اللہ کا ارشاد ہے:’’تمھارا قرض دار تنگدست ہو، تو ہاتھ کھلنے تک اُسے مہلت دو‘‘(البقرہ۲: ۲۸۰﴾) ۔