جنوبی ایشیا میں سارک کی افادیت تحقیقی مطالعہ

جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (SAARC) جنوبی ایشیا کے 8 ممالک کی ایک اقتصادی اور سیاسی تنظیم ہے جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہے۔ 80 کی دہائی کے اواخر میں بنگلہ دیش کے صدر ضیاء الرحمٰن نے جنوبی ایشیائی ممالک پر مشتمل ایک تجارتی بلاک کا خیال پیش کیا، جس نے عملی صورت دسمبر 1985ء میں اختیار کی۔ اس کے بانی اراکین میں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، مالدیپ اور بھوٹان شامل ہیں۔ جب کہ 3 اپریل 2007ء کو نئی دہلی میں ہونے والے تنظیم کے 14 ویں اجلاس میں افغانستان کو آٹھویں رکن کی حیثیت سے تنظیم میں شامل کیا گیا۔8 مستقل رکن ممالک کے علاوہ 9 مبصر ممالک (آسٹریلیا، چین، یورپی یونین، ایران، جاپان، موریشس، میانمر، شمالی کوریا اور امریکہ) بھی اس تنظیم میں شامل ہیں۔
سارک تنظیم کے بنیادی مقاصد میں سارک ممالک میں معاشی استحکام کے پیش نظر منظم سماجی زندگی کو فروغ دینا، رکن ممالک کے درمیان ثقافتی تعلقات کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا اور رکن ممالک کے درمیان ٹھوس اور مضبوط بنیادوں پر معاشرتی تعلقات کا ازسرِنو جائزہ لینا شامل ہے۔

پیش نظر کتاب ”جنوبی ایشیا میں سارک کی افادیت“ ڈاکٹر فرحانہ کوثر کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جس پر وفاقی اردو یونیورسٹی فنون و سائنس و ٹیکنالوجی (کراچی) نے انھیں پی ایچ۔ ڈی کی سند عطا کی ہے۔ فاضل مقالہ نگار کا کہنا ہے کہ:

”سارک کے تخیل سے لے کر اس کی عملی تشکیل تک متعدد واقعات رونما ہوئے۔ کہیں جغرافیہ بدلا، کہیں تاریخ تبدیل ہوئی، کبھی سرحدوں پر کشیدگی بڑھی، کبھی باہمی تعاون کی فضا پروان چڑھی۔ سارک کے اولین اجلاس (منعقدہ ڈھاکہ) میں گرم جوشی کے جذبات سے لے کر اس کے انیسویں اجلاس (منعقدہ اسلام آباد) کے بائیکاٹ تک تلخ حقائق کا ایک سلسلہ ہے جو یہ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ کیا کھویا کیا پایا؟ یہی وہ سوال ہے جو پیش نظر تحقیقی مطالعے کی بنیاد بنا۔“

فاضل مقالہ نگار کے مطابق اس کتاب کی اشاعت کا بنیادی مقصد سارک کے جملہ ممالک کے درمیان معاشی، اقتصادی، ثقافتی، سماجی، سائنسی اور معاشرتی علوم کے دیگر مسائل پر کماحقہ بحث و مباحثے کے بعد اِن مسائل کے حل کے لیے مؤثر تجاویز دینا ہے تاکہ مستقبل میں سارک ممالک اپنے تعلقات کو بہتر سطح پر لاسکیں۔ سارک تنظیم خطے کے تمام ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور باہمی رواداری کو فروغ دینے میں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے سربراہی اجلاس باقاعدگی کے ساتھ ہوتے رہیں، اس کے چارٹر سے تجاوز یا انحراف نہ کیا جائے، اور باہمی تنازعات کا کوئی دانش مندانہ حل تلاش کیا جائے۔

اس کتاب میں سارک ممالک کا مختصر تعارف، سارک کے قیام کا پس منظر، اس کے مقاصد اور حاصلاتِ تحقیق کو بڑی عرق ریزی سے پیش کیا گیا ہے اور تنظیم کو فعال اور مؤثر بنانے کے لیے قابلِ عمل سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں، جس کے لیے فاضل مقالہ نگار لائقِ تحسین ہیں۔