کامیاب زندگی۔ 4 تعلقات کو نکھاریئے

’’کامیاب زندگی‘‘ کی جلد چہارم منظرعام پر آئی ہے۔ اس سے قبل اس کے تین حصے شائع ہوکر مقبولیت حاصل کرچکے ہیں جن کے متعلق مختلف اکابرین نے اپنی آراء دی ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم رقم طراز ہیں: ’’یہ کتاب گلستان بوستان، مثنوی اور بہارستان کی قدیم روایت کی تازہ ترین امین اور مظہر قرار دی جاسکتی ہے‘‘۔

پروفیسر خورشید احمد سابق نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان نے اس طرح تبصرہ فرمایا: ’’یہ بہ ظاہر ہلکا پھلکا لوازمہ ہے لیکن دعوت و تعلیم دونوں کے لیے بڑا مؤثر نسخہ ہے، جسے انسانوں کو راہ نمائی فراہم کرنے والی کہکشاں کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا‘‘۔

شفا انٹرنیشنل اسپتال اسلام آباد کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر منظورالحق قاضی لکھتے ہیں: ’’یوں تو ’’کامیاب زندگی‘‘ جلد چہارم کی ساری تحریریں پُراثر ہیں مگر ان میں چند ایسی ہیں کہ انہیں بار بار پڑھنے کے باوجود ہر مرتبہ وہی کپکپی یا سرسراہٹ اپنے جسم میں محسوس ہوتی ہے جو اسے پہلی دفعہ پڑھتے ہوئے محسوس ہوئی تھی۔ ‘‘

’’کامیاب زندگی‘‘سیریز کی پہلی تین کتب کی طرح اس چوتھی جلد میں شامل تمام تحریریں بھی سچے واقعات پر مبنی ہیں۔ اردگرد ہونے والے یا خود پر گزرے واقعات پر مبنی ان تحریروں سے بنیادی طور پر کامیاب طرزعمل کے حامل لوگوں کے سوچنے کا انداز اور زاویۂ نظر سمجھ میں آتا ہے۔

دوسری جانب انسانی تعلقات کے حوالے سے کتاب میں شامل دنیا بھر سے سامنے آنے والے مثبت اور منفی تجربات و مشاہدات اس حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں کہ انسان کہیں بھی ہوں اپنی افتادِ طبع کے اعتبار سے مختلف نہیں ہیں۔ اچھے یا برے کردار ہر جگہ ملتے ہیں۔ وہاں بھی، جہاں زندگی پسماندہ سمجھی جاتی ہے، اور وہاں بھی جہاں اس کی چمک دمک سے آنکھیں خیرہ ہورہی ہوتی ہیں۔

اس سیریز کی بقیہ کتب کی طرح ’’کامیاب زندگی‘‘ جلد چہارم میں شامل ہر تحریر کو اپنی جگہ ایک مضمون کی حیثیت حاصل ہے۔

یقیناً یہ کتاب اِس دنیا میں لوگوں کو باہمی محبت و تعاون، عزم و ہمت کو سنوارنے اور نکھارنے کا درس دیتی ہے۔ یہ کتاب خاندانی رشتوں، تعلقات، کاروباری زندگی سے تعلق، کائنات اور اس کے خالق کے ساتھ تعلق کے مختلف پہلوئوں پر مبنی واقعات کا احاطہ کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ انسانی زندگی میں کامیابی کی کیا اہمیت ہے اور کامیابی کے لیے کیا طرزعمل اختیار کرنا چاہیے۔