میوزک اکیڈمی میں تبدیل کرنے پر اہلِ علم و ادب کا احتجاج
کسی بھی معاشرے کو مہذب بنانے میں تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ کھیل کے میدان، ادبی و علمی ادارے، کتب خانے اور لائبریریاں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ کراچی شہر کے تمام اسکولوں، کالجوں اور جامعات (خواہ نجی ہوں یا سرکاری) میں لائبریری اور کھیل کے میدان لازمی موجود ہوتے تھے، مگر پھر گزرتے وقت کے ساتھ تعلیمی اداروں میں یہ سہولت کم یا پھر ناپید ہوتی چلی گئی۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ کراچی شہر کی اپنی دیرینہ علمی اور ثقافتی روایات ہیں، ہمیشہ سے یہ شہر علم و ادب کی سرپرستی کرنے اور ان کی سرگرمیوں میں اضافہ کرنے کے لیے کوشاں رہا ہے۔ اس شہر نے مشتاق احمد یوسفی، پروفیسر پیرزادہ قاسم، پروفیسر سحر انصاری، رضوان صدیقی، انور مقصود، فاطمہ ثریا بجیا، زہرہ نگاہ (نام گنتے جائیں، ختم نہ ہوں گے) جیسی قدآور شخصیات پیدا کی ہیں۔ ہر مہذب معاشرے کی تشکیل میں عوامی یا کسی بھی قسم کی لائبریریاں یا کتب خانے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انتہائی اشد ضرورت اس بات کی تھی کہ کراچی شہر میں بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے ان لائبریریوں اور ان میں موجود سہولیات میں اضافہ کیا جاتا، لیکن پہلے سے موجود انتہائی محدود لائبریریوں اور ان کی سہولیات میں مزید کمی کردی گئی۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ 40 سال سے قائم تیموریہ لائبریری نارتھ ناظم اباد میں جہاں آج کے ان گرے پڑے حالات میں بھی روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں افراد اس لائبریری کی موجودہ محدود سہولیات سے استفادہ کرنے آتے ہیں بلکہ یہاں پر روزانہ کئی طلبہ اپنے امتحانات کی تیاری کرنے آتے ہیں، اور ایک اچھا خاصا بڑا گروپ تو اس وقت وہاں مقابلے کے امتحان کی تیاری کے لیے آتا ہے، اب اسی لائبریری کی حدود میں موسیقی کی تربیت دینے کے لیے ایک میوزک اکیڈمی یا کنسرٹ ہال بنایا جارہا ہے جو لائبریری کے اصل تشخص کو تبدیل کردے گا اور علمی ماحول کے تقدس کو پامال کرنے کے ساتھ یقیناً لائبریری کی پُرسکون اور علمی فضا کے لیے سم قاتل ثابت ہوگا۔ یہاں میں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ہم کسی بھی قسم کی ثقافتی اکیڈمیوں یا موسیقی کی تربیت کے خلاف نہیں ہیں لیکن اربابِ اقتدار و اختیار کی توجہ اس امر کی طرف دلانا چاہتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہر کو علمی غذا فراہم کرنے والی شخصیات جو ہر معاشرے میںکم ہوتی ہیں لیکن انتہائی اہم اور ضروری وہی ہوتی ہیں،کی زیادہ سے زیادہ سرپرستی کریں اور پاپولر کلچر جو ویسے ہی عوام کی پسند ہے وہ خودبخود بڑھتا رہتا ہے اس کی بھی سرپرستی کریں لیکن لائبریری کے اصل تشخص کو پامال کرنے کی قیمت پر ہرگز نہیں۔ اس میوزک اکیڈمی کے قیام کے دن سے ہی ان طلبہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے جو گزشتہ بہت عرصے سے اپنے ہی علاقے میں لائبریری کی سہولت سے استفادہ کررہے تھے۔
اس سلسلے میں اہلِ علم اور ادب شناس حضرات سے رائے لی گئی جو انہوں نے اپنی تنظیموں اور انجمنوں کی جانب سے منعقد کیے گئے مختلف پروگراموں میں پیش کی جو قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
ان حضرات میں پروفیسر پیرزادہ قاسم، پروفیسر فراست علی رضوی، تاجدار عادل اور دیگر قابلِ ذکر شخصیات شامل ہیں:
یہ ارباب اختیار و اقتدار کی ذمہ داری ہے کہ وہ سنجیدہ علمی کوششوں کی زیادہ سرپرستی کریں چہ جائے کہ وہ پاپولر کلچر کے فروغ کے لیے ان کی سہولیات میں اور کمی کردیں۔ ریاستی اداروں کی یہ ذمہ داری ہونی چاہیے کہ اس طرح کی لائبریریوں میں کم ہوتی یا ختم ہوچکی سہولیات کو دوبارہ سے فعال اور بہتر کریں بلکہ ان میں اضافہ بھی کریں۔ مثلاً جدید ترقی یافتہ ممالک کی طرح تمام کتب خانوں کو ڈیجیٹلائز کیا جائے۔ لائبریریوں میں مزید نئی کتب و رسائل، مجلے اور جرائد کا مستقل سلسلہ شروع کیا جائے۔ ڈیجیٹل سیکشن، آڈیو ویڈیو سیکشن، انٹرنیٹ کنکشن کی مفت سہولت فراہم کی جائے۔ خاص طور پہ ایسے کمروں کا اضافہ کیا جائے جہاں پر مختلف ادبی و علمی تنظیمیں اپنے پروگرام مشاعرے، مکالمے، سیمینارز اور دیگر ادبی نشستیں منعقد کرسکیں جن کا اس وقت کراچی شہر میں فقدان ہے۔ اس مضمون کے ذریعے شہر کے تمام صاحبانِ علم اور علمی و ادبی انجمنوں کی طرف سے ذمہ داران کو اپنی اس شدید تشویش سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ تیموریہ لائبریری کی سہولیات کو کم کرنے یا اس کی جگہ پر کچھ اور دیگر ثقافتی سرگرمیاں شروع کرنے سے لائبریری کو جو نقصان ہوگا، اور جو شہر کی علمی اور ادبی فضا کا نقصان ہے وہ علم و ادب کے متلاشی لوگوں کے لیے قطعاً ناقابل ِقبول ہے۔ ہم فنونِ لطیفہ کی کسی صنف کی مخالفت نہیں کرنا چاہتے، بس اتنا چاہتے ہیں کہ فنونِ لطیفہ کی کسی بھی صنف کو دیگر اصناف کی قیمت پر ترقی نہیں دینی چاہیے۔آپ اگر میوزک اکیڈمی قائم کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کیجیے، اس کے لیے جداگانہ عمارت تعمیر کیجیے، لیکن لائیبریری کی قیمت پر یہ ظلم نہ کیجیے۔ اربابِ اختیار واضح طور پر جان لیں کہ اگر تیموریہ لائبریری میں میوزک اکیڈمی کے قیام کا اجازت نامہ فوری طور پر منسوخ کرکے لائبریری کو اس کی اصل ہیئت میں بحال نہ کیا گیا تو ملک بھر میں موجود اہلِ علم و دانش کو اس یک نکاتی ایجنڈے پر جمع کرکے ملک گیر تحریک شروع کر دیں گے۔ علم کے متلاشی شہریوں کااربابِ اختیار سے مطالبہ ہے کہ ملک میں مطالعے اور لائبریریوں سے استفادے کے ماحول کو ترقی دینے کے لیےعلمی و ادبی تنظیموں کی مشاورت اور معاونت سے ایسے اقدامات کریں کہ ہماری نوجوان نسل مطالعے اور کتب خانوں کی جانب راغب ہوسکے، نہ کہ علم و ادب کی موجودہ لنگڑی لولی سہولیات میں بھی کمی کردی جائے۔
تیموریہ لائبریری کے اس مسئلے کو سلجھانے کےلیے کراچی شہر کی ان تمام قابلِ ذکر اور نمائندہ انجمنوں اور تنظیموںپر مشتمل ایک کمیٹی کا قیام عمل میںلایا گیا ہے،”تحفظ ِکتاب و علم کمیٹی“ کے نام سے جس نے اس ضمن میں اپنا کام شروع کردیا ہے کہ جس میں کراچی شہر کی مقتدر شخصیات سے ملاقاتیں اور عوامی آگاہی کا سلسلہ شامل ہیں۔