ماہرؔ القادریؒ کی نعت گوئی

یوم پیدائش: 30 جولائی1906ء

اردو کے معروف شاعر ماہرالقادری کا اصل نام منظور حسین اور تخلص ماہرؔالقادری ہے۔ وہ 30 جولائی 1906ء کو کیسر کلاں ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ 1926ء میں علی گڑھ سے میٹرک کرنے کے بعد بجنور سے نکلنے والے مشہور اخبار ’مدینہ‘ سے وابستہ ہوگئے۔ ’مدینہ‘ کے علاوہ اور بھی کئی اخباروں اور رسالوں کی ادارت کی۔ ممبئی میں قیام کے دوران فلموں کے لیے نغمے بھی لکھے۔ تقسیم کے بعد پاکستان منتقل ہوگئے۔ کراچی سے ماہنامہ ’فاران‘ جاری کیا جو بہت جلد اُس وقت کے بہترین ادبی رسالوں میں شمار ہونے لگا۔ ماہرالقادری نے تنقید، تبصرہ، سوانح، ناول کے علاوہ اور کئی نثری اصناف میں لکھا۔ ان کی نثری تحریریں اپنی شگفتگی اور رواں اسلوبِ بیان کی وجہ سے اب تک دلچسپی کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔ ماہرالقادری کی بیس سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔ کچھ کتابوں کے نام یہ ہیں:

”آتشِ خاموش“، ”شیرازہ“، ”محسوساتِ ماہر“، ”“نغماتِ ماہر“، ”جذباتِ ماہر“، ”کاروانِ حجاز“، ”زخم و مرہم“، ”یادِ رفتگاں“، ”فردوس“ اور ”طلسمِ حیات“۔

12 مئی 1978ء کو جدہ میں ایک مشاعرے کے دوران حرکت قلب بند ہوجانے سے ان کا انتقال ہوا۔
منتخب اشعار :

یہ کہہ کے دل نے مرے حوصلے بڑھائے ہیں
غموں کی دھوپ کے آگے خوشی کے سائے ہیں

..

عقل کہتی ہے دوبارہ آزمانا جہل ہے
دل یہ کہتا ہے فریبِ دوست کھاتے جائیے

..

اک بار تجھے عقل نے چاہا تھا بھلانا
سو بار جنوں نے تری تصویر دکھا دی

..

ابتدا وہ تھی کہ جینے کے لیے مرتا تھا میں
انتہا یہ ہے کہ مرنے کی بھی حسرت نہ رہی

..

یہی ہے زندگی اپنی یہی ہے بندگی اپنی
کہ ان کا نام آیا اور گردن جھک گئی اپنی

..

نقابِ رخ اٹھایا جا رہا ہے
وہ نکلی دھوپ، سایہ جا رہا ہے

..

پروانے آ ہی جائیں گے کھنچ کر بہ جبر عشق
محفل میں صرف شمع جلانے کی دیر ہے

..
اگر خموش رہوں میں تو تُو ہی سب کچھ ہے
جو کچھ کہا تو ترا حسن ہو گیا محدود
..

یوں کر رہا ہوں ان کی محبت کے تذکرے
جیسے کہ ان سے میری بڑی رسم و راہ تھی

..

ساقی کی نوازش نے تو اور آگ لگا دی
دنیا یہ سمجھتی ہے مری پیاس بجھا دی

..

مرے شوقِ دیدار کا حال سن کر
قیامت کے وعدے کیے جا رہے ہیں

..

چشمِ نم پر مسکرا کر چل دیئے
آگ پانی میں لگا کر چل دیئے

سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو خالق، مالک، رازق، رب، الہٰ ہے۔ اللہ اکیلا ہے، اس کا کوئی ہمسر نہیں، وہ بے نیاز ہے۔ اللہ نے تمام مخلوقات بنائی ہیں، زمین و آسمان اور اس میں جو کچھ ہے سب کچھ اللہ نے بنایا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی اور رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک، سب نے اللہ کی طرف بلایا اور درس ِ توحید دیا اور شرک سے منع فرمایا۔ درود و سلام ہو تمام انبیا ؑ و رسلؑ پر، جنہوں نے اللہ کے احکامات لوگوں تک پہنچائے اور اپنے قول و عمل سے اُس کی شہادت بھی دی۔ مولانا ماہرؔ القادریؒ نے بہت عمدہ اشعار کہے ہیں، ملاحظہ کیجیے:

جس کا پیغام، پیغامِ توحید تھا، کوئی حاجت رَوا ہے نہ مُشکل کشا
صرف تنہا خُدا، صرف تنہا خدا، ہے وہی کارساز اور وہی غیب داں
بندے اور اللہ میں رکھا ہر عالم میں فرقِ مراتب
شرک کے دُشمن، ماحیِ بدعت صلی اللہ علیہ وسلم
فرمایا تم قبر کو میری سجدہ گہ ہرگز نہ بنانا
اللہ اللہ پاسِ شریعت صلی اللہ علیہ وسلم

محسنِ انسانیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و توصیف منظوم صورت میں بیان کرنے کو نعت کہتے ہیں، آنحضرت محمد مصطفی احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول و عمل، صورت و سیرت کو اشعار میں کہنے کو نعت؍ نعتیہ کلام کہتے ہیں۔ شاعری انسانیت کی معراج ہے تو معراجِ سخن حمد و نعت ہے۔

نعت لکھنا مشکل ترین مرحلہ ہے جسے سر کرنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں، نیز نعت صرف فنی عمل کا نام نہیں۔ یہ تو سیّدِ انسانیت محمد مصطفی ﷺ پر ایمان لانے کے بعد آپﷺ سے عقیدت و محبت کرنے اور اس کے تقاضے پورے کرنے، اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے لو لگانے کے بعد، اللہ تعالیٰ سے نعت لکھنے کی توفیق اور صلاحیت مانگنے کے بعد، جب یہ نعمت مل جائے، تو جو نعت لکھی جائے گی وہ اپنے آپ کو منوائے گی، جو نعت کہنے والے اور سننے والے پر اپنا اثر دکھائے گی اور ان پر سکینت طاری کرے گی۔ نعتیہ اشعار نعت کی نیت سے لکھے جاتے ہیں۔ ذومعنی اشعار نعت کہلانے کا حق نہیں رکھتے۔

حمد اللہ تعالیٰ کے لیے اور نعت اللہ کے محبوب رسول نبیٔ محترم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے لیے خاص ہے۔ اگر غزل یا نظم میں حمد کا ایک شعر آجائے تو اسے حمد نہیںکہتے، اس طرح التزاماً نعت کا شعر آجائے تو پوری نظم یا غزل نعت نہیں بن جاتی۔ اگر غزل یا نظم میں مدینہ اور اس کی گلیاں یا وہ چیزیں جن کی محمد رسول اللہﷺ سے کچھ نسبت ہے ،کا ذکر تمام اشعار میں ہو اور صرف ایک شعر میں آں حضورﷺکا ذکر ہو تو اُسے نعت سمجھنا مناسب نہیں ہے۔ حقیقت میں نعت وہ ہے جس میں آں حضرت محمد ﷺ کی صورت، اخلاق و اعمال، تعلیمات و احکامات کا ذکرِ خیر ہو۔ ہر وہ شے جس کی سرورِ عالم ﷺ سے نسبت ہے، قابلِ احترام ہے۔ ان کا ذکر کرنا اچھا عمل ہے لیکن ان ہی کا ذکر نعت سمجھنا غلطی ہے۔ ہر شے کا اپنا مقام ہے، اسے اس مقام پر ہی رکھنا بہتر ہے۔ رسولِ اکرمﷺ کا مقام و مرتبہ ان سب اشیا اور مخلوقات سے بلند ہے۔ حضورﷺ کو ان کی نسبت کی ضرورت نہں ہے اور نہ ہی ان کی نسبت سے حضورﷺ کو یاد کیا جائے۔ جب کسی نظم کے تمام اشعار آپﷺ کے اخلاق، اقوال اور افعال پر مشتمل ہوں گے تب اس نظم کو نعت کہیں گے۔

سلام اُس پر جو دُنیا کے لیے رحمت ہی رحمت ہے
سلام اُس پر کہ جس کی ذات فخرِ آدمیّت ہے

محسنِ انسانیت حضرت محمد ﷺ پر ایمان لانا، آپ ﷺ کی اطاعت و پیروی کرنا اور آپﷺ سے محبت و عقیدت رکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔اس عقیدت و محبت کے تقاضے کو اشعار کے قالب میں ڈھال کر پیش کرنا نعت کہلاتا ہے۔نعت لکھنا نہایت نازک مسئلہ ہے، ذرا سی بے احتیاطی رسولِ اکرم ﷺ کے مقام و مرتبہ کو کم کر سکتی ہے جو بے ادبی اور گستاخی کے زمرے میں آتی ہے۔ذرا سی غفلت سے رُتبہ بلند ہو کر اللہ تعالیٰ سے مل سکتا ہے جو شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ کسی شاعر نے خوب کہا ہے:

ادب گاہ ہست زیر آسماں از عرش نازک تر
نَفَس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا

ماہرؔ کہتے ہیں:

محمدِؐ عَرَبی سے ہوں لَو لگائے ہوئے
یہ وہ چراغ ہے جو آندھیوں میں جلتا ہے
خُدا بچائے مسلماں کو شِرک و بدعت سے
وہ دین ہی نہیں جو دین میں اضافہ ہے

نعت وہ انسان کہہ سکتا ہے جس کے اندر اللہ نے شعر کہنے کی صلاحیت رکھی ہے، جس نے اپنے خالق سے موزوں طبیعت پائی ہو، وہ مسلمان ہو، اس کا ایمان اللہ کے آخری رسول حضرت محمدﷺ پر ہو، اور آپؐ پر اُتاری گئی الکتاب ( قرآن ) پر ہو، سیرتِ سرورِ عالمﷺ کا گہرا مطالعہ رکھتا ہو، زبان پر مضبوط گرفت رکھتا ہو۔آپؐ سے محبت و عقیدت رکھتا ہو۔ آپؐ کو اپنی جان و مال سے زیادہ عزیز رکھتا ہو اور ایک سچا پیروکار، اطاعت شعار اُمتی ہو، ساتھ ساتھ قرآن اور اسوۂ حسنہ کا علم رکھتا ہو۔ خالق اور مخلوق، اللہ اور رسولﷺ، نبیﷺ اور اُمتی کے فرق، مقام و مرتبے سے واقف ہو۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی گفتار و کردار سے اس بات کی شہادت دے کہ وہ واقعی اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہے۔ ایسا انسان جب نعت لکھے گا، یقیناً وہ نعت لکھنے کا حق ادا کرے گا۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو یہ زبانی جمع خرچ ہے، ایک کیسٹ یا کاتب کا کردار ادا کررہا ہے۔ یہ مسلمان کا شیوہ نہیں اور نہ ہی مسلمان ہونے کا مقصد ہے، جس کا اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ مسلمان نعت گو کے قول و عمل میں یکسانیت لازم اور فرض ہے۔ کسی شاعر نے بہت خوبصورت ترجمانی کی ہے:

تر جو النجاۃ ولم تسلک مسالکھا
ان السفینہ لاتجری علی الیبس

مفہوم : تم نجات کی امید لگائے بیٹھے ہو مگر تم نجات کی راہوں پر چلے نہیں، کشتی کبھی خشکی پر نہیں چلا کرتی۔

حضور پاک ﷺ کی نبوت و رسالت قیامت تک آنے والے انسانوں کی رہنمائی کے لیے ہیں اور سارے جہاں کے لیے ہیں۔آپؐ کے بغیر دین نامکمل ہے۔ ماہر القادریؒ نے خوب کہا ہے:

نبوت کا خطاب عام ہے سارے زمانے سے
وہ شرقی ہو کہ غربی ہو، وہ شہری ہو کہ صحرائی

……

تجھے جس نے نہ پایا وہ خدا کو پا نہیں سکتا
کہ تیری معرفت اللہ کی پہچان ہے ساقیؐ

اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو نبوت و رسالت عطا فرمائی اور اپنی آخری الکتاب بھی عطا کی۔ قرآن مجید کی تعلیمات و تشریحات بھی وَحی فرمائیں۔ آپؐ کی احادیثِ مبارکہ قرآن کی تشریح ہیں۔ آپؐ کی احادیث کو چھوڑ کر انسان قرآن کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔ جو انسان یہ کہتا ہے کہ مَیں احادیثِ نبویؐ کے بغیر قرآن سمجھ سکتا ہوں وہ جھوٹا ہے۔ماہرؔ کہتے ہیں:

ہر عُقدۂ دُشوار کس انداز سے کھولا
قربان تِرے جنبشِ مِژگانِ محمدؐ

……

حکمت تری کنیز، تفکر ترا غلام
سمجھے ہیں کس نے معنیِ قرآں ترے بغیر
تجھ سے نہ ہو جو ربط وہ فکر و نظر ہی کیا
عِلم و خبر میں جہل نمایاں ترے بغیر

پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں:
’’ایک اچھے نعت گو کے لیے حمد اور نعت کے درمیان حدِّ فاصل قائم رکھنا ضروری ہے۔ یہ ایک نازک مقام ہے اور اس کے لیے مہارتِ فن کی ضرورت ہے۔ پھر غلو سے اجتناب ضروری ہے۔ آں حضورﷺ کی ذاتِ گرامی سے کوئی ایسی صفت وابستہ نہ کی جائے جو صفتِ باری تعالیٰ ہو۔ مُبادا شاعر کا دامن شرک سے آلودہ ہو۔ نعت گوئی کے ضمن میں ضروری ہے کہ نعت رسماً نہ کہی گئی ہو بلکہ آپؐ سے والہانہ عقیدت اور شیفتگی اس کی بنیاد ہو۔ جہاں تک زبان و بیان کا تعلق ہے نعت گو کی زبان پاکیزہ اور الفاظ و تراکیب آپؐ کے مرتبے و حیثیت کے مطابق ہونے چاہئیں اور اس کا لہجہ نرم، دھیما اور پُرسوز، پُرتاثیر ہونا ضروری ہے۔‘‘

(پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، اصنافِ ادب، سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور، صفحہ 26،27)

قرآن اور احادیثِ نبویؐ کے احکامات ابدی ہیں۔ جو شخص مسلمان ہونے کا اعلان کرے کہ میں اللہ کو اپنا خالق، مالک، رازق، رب اور الہٰ مانتا ہوں اور آں حضورﷺ کو اللہ کا سچا رسول اور نبی مانتا ہوں، اگر وہ سچا ایمان لانے والا ہے تو اس کا رویہ و طرز عمل رہبرِ انسانیت حضرت محمدﷺ کے اسوہ حسنہ کا مخالف نہیں ہوگا۔آپؐ کی تعظیم و تکریم وہ اسی طرح کرے گا جس طرح دورِ اوّل کے مسلمانوں نے کی ہے۔ وہ اپنے معاملات میں اس شریعت کا پابند رہے گا جو قرآن اور احادیث نبویؐ کی صورت میں حضرت محمدﷺ نے دی ہے۔ دین اسلام صرف انفرادی مذہب نہیں ہے بلکہ یہ اجتماعی دین ہے۔ شریعتِ محمدی مسلمان کو صرف انفرادی پابندی کا حکم نہیں دیتی بلکہ اجتماعی فیصلوں پر پابند رہنے کا حکم دیتی ہے۔

قرآن و احادیث ِنبویؐ کا احکامات و تعلیمات صرف اُس دَور کے لیے نہیں تھے بلکہ یہ تو قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ہدایت و رہنمائی کا دستور ہے۔ ان قوانین پر عمل کرکے ہی انسان فلاح پا سکتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

(ترجمہ) ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اُس کے رسولؐ کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔‘‘ (سُورۃ الحجرات آیت 1، 2)

’’یہ وہ ادب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھنے والوں اور آپؐ کی خدمت میں حاضر ہونے والوں کو سکھایا گیا تھا۔ اس کا منشا یہ تھا کہ حضورﷺ کے ساتھ ملاقات اور بات چیت میں اہلِ ایمان آپؐ کا انتہائی احترام ملحوظ رکھیں۔ کسی شخص کی آواز آپؐ کی آواز سے بلند تر نہ ہو۔ آپؐ سے خطاب کرتے ہوئے لوگ یہ بھول نہ جائیں کہ وہ کسی عام آدمی یا اپنے برابر والے سے نہیں بلکہ اللہ کے رسولؐ سے مخاطب ہیں۔ اس لیے عام آدمیوں کے ساتھ گفتگو اور آپؐ کے ساتھ گفتگو میں نمایاں فرق ہونا چاہیے اور کسی کو آپؐ سے اونچی آواز میں کلام نہ کرنا چاہیے۔

یہ ادب اگرچہ نبیﷺ کی مجلس کے لیے سکھایا گیا تھا اور اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو حضورﷺ کے زمانے میں موجود تھے، مگر بعد کے لوگوں کو بھی ایسے تمام مواقع پر یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے جب آپؐ کا ذکر ہورہا ہو، یا آپؐ کا کوئی حکم سنایا جائے، یا آپؐ کی احادیث بیان کی جائیں، اس کے علاوہ اس آیت سے یہ ایما بھی نکلتا ہے کہ لوگوں کو اپنے سے بزرگ تر اشخاص کے ساتھ گفتگو میں کیا طرزِعمل اختیار کرنی چاہیے۔ کسی شخص کا اپنے بزرگوں کے سامنے اُس طرح بولنا، جس طرح وہ اپنے دوستوں یا عام آدمیوں کے سامنے بولتا ہے، دراصل اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل میں ان کے لیے کوئی احترام موجود نہیں ہے، اور وہ ان میں اور عام آدمیوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتا۔‘‘ (مولاناسیّد ابوالاعلیٰ مودودی،تفہیم القرآن، جلد پنجم، سروسز بُک کلب 1993ء،صفحہ71)

ادب و احترام اور حُبِ رسول اللہ ﷺ کا یہ بھی تقاضا ہے کہ آپؐ پر کسی بھی قسم کا حرف نہ آنے دے اور حرمتِ رسولﷺ کی خاطر، گستاخ اور بے ادب کو باز رکھنے کے لیے اپنی جان تک قربان کردے۔ عاشقِ رسولؐ کی یہی طرزِعمل ہونی چاہیے۔ ماہرؔ القادری کہتے ہیں:

اِس نام کی عظمت پہ مَیں سو جان سے قُربان
وہ نام کہ جو شاملِ تکبیر و اذاں ہے

ماہرؔ محبتِ رسولﷺ کا صلہ ملنے کے حوالے سے اظہارِ تشکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

بادشاہوں کو ملی شاہی، مجھے عشقِ نبیؐ
اپنا اپنا ظرف جِس کو جو میسر آ گیا

حمد و نعت کہتے ہوئے ذومعنی الفاظ نہیں کہنے چاہئیں۔ شاعر جو لفظ استعمال میں لائے، اسے اس کے معنی معلوم ہونے چاہئیں۔ اُن تمام الفاظ سے پرہیز کرنا چاہیے جن کے معنی مثبت اور منفی ہوں، جن میں گستاخی اور توہین کا پہلو موجود ہو، جن میں شرک اور بے ادبی کا پہلو ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے ذریعے اہلِ ایمان کو حکم دیا ہے کہ ذومعنی الفاظ سے پرہیز کرو ورنہ ایمان ضائع ہوجائے گا۔ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

)ترجمہ( ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، رَاعِنَا نہ کہا کرو، بلکہ اُنْظُرْنَا کہو اور توجہ سے بات کو سنو،یہ کافر تو عذاب الیم کے مستحق ہیں۔ یہ لوگ جنھوں نے دعوتِ حق کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے، خواہ اہلِ کتاب میں سے ہوں یا مشرک ہوں، ہرگز یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو، مگر اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے چُن لیتا ہے اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔‘‘ )سورۃ البقرۃ،آیت نمبر104، 105)

’’یہودی جب آں حضرتﷺ کی مجلس میں آتے، تو اپنے کلام میں ہر ممکن طریقے سے اپنے دل کا بخار نکالنے کی کوشش کرتے تھے۔ جب آں حضرتﷺ کی گفتگو کے دوران میں یہودیوں کو کبھی یہ کہنے کی ضرورت پیش آتی کہ ٹھیریے ذرا ہمیں یہ بات سمجھ لینے دیجیے تو وہ رَاعِنَا کہتے تھے۔ اس لفظ کا ظاہری مفہوم تو یہ تھا کہ ذرا ہماری رعایت کیجیے یا ہماری بات سن لیجیے۔ مگر اس میں کئی پہلوؤں سے بُرے معنی بھی نکلتے تھے۔ اس لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ تم اس لفظ کے استعمال سے پرہیز کرو اور اس کے بجائے اُنْظُرْنَا کہا کرو۔ یعنی ہماری طرف توجہ فرمائیے یا ذرا ہمیں سمجھ لینے دیجیے۔‘‘
(مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی۔ ترجمۂ قرآن مجید مع مختصر حواشی، صفحہ 57،59)

حضور پاک ﷺ کی تعظیم و تکریم کا خاص خیال رکھنا لازمی ہے۔ آپؐ سے ملاقات کرنا ہو یا بات کرنی ہو، ادب و احترام کے بنیادی اصولوں کی پاسداری کرنا ضروری ہے۔ اس آیت میں مخاطب تو وہ لوگ ہیں جو اُس زمانے میں موجود تھے، لیکن یہ ہمارے لیے اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے حکم ہے۔ محسنِ انسانیت حضرت محمدﷺ کی دی ہوئی شریعت روزِ محشر تک کے لیے ہے۔ آپؐ اللہ کے آخری رسول اور نبی ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے کتنی خوبصورت ترجمانی کی ہے:

اے کہ بعد از تو نبوت شد بہر مفہوم شرک
بزم را روشن زِ نورِ شمعِ ایماں کردہ ای

( کلیاتِ باقیاتِ شعرِاقبال۔ مرتبہ ڈاکٹر صابر کلوروی، اقبال اکیڈمی پاکستان، طبع اوّل، صفحہ99)
’’ اے ( نبیِ مکرمؐ ) آپؐ کی ذات وہ ذات ہے جس کے آنے کے بعد نبوت کا دروازہ اس طور بند ہوا کہ اب ہر مفہوم میں نبوت شرک ٹھیری۔ آپؐ نے محفلِ کائنات کو شمعِ ایمان کے نور سے روشن فرما دیا۔‘‘ ۔
(نعت رنگ، سلور جوبلی نمبر۔ مرتب سیّد صبیح الدین رحمانی، شمارہ نمبر 25، اشاعت اگست 2015ء، صفحہ 128)
ماہرؔ القادریؒ نے بہت عمدہ اشعار کہے ہیں، ملاحظہ کیجیے :

دین کامل ہے زمانے کی ضرورت کے لیے
اب کوئی اور نہ آئے گا ہدایت کے لیے
……
خاتم الانبیاء، رحمتِ دوجہاں، حامیِ بے کساں، شافعِ عاصیاں
نُورِ کون و مکاں، نازِ رُوحانیاں، غیرتِ قُدسیاں، فخرِ پَیغمبراں

(جاری ہے)