’’پرانے چہروں سے نئے انتخابات کا موسم‘‘

معروف کالم نگار لطیف جمال نے بروز پیر 24 جولائی 2023ء کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدر آباد کے ادارتی صفحے پر وطنِ عزیز کی سیاست اور حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔

’’ملک میں الیکشن کا تذکرہ جاری ہے، اور اگست کے اوائل میں اتحادی حکومت اسمبلیاں توڑ کر اقتدار عارضی طور پر نگراں سیٹ اَپ کے حوالے کردے گی۔ یہ نگراں سیٹ اَپ اپنی نگرانی میں ملک میں نئے الیکشن کرائے گا۔ اس الیکشن میں بھی وہی پرانے چہرے نظر آئیں گے۔ نتائج کے بعد برسرِاقتدار آنے والے فتح پر جشن منانے کا اہتمام کریں گے اور مملکت کے خالی خزانے کو بھرنے کے لیے پرانے کشکول کو نئے ہاتھوں کے حوالے کیا جائے گا۔ آنے والی نئی حکومت بھی پرانے نعروں اور وعدوں کی طرح عوام کو لالی پاپ کے دلاسوں اور آسروں سے بہلانے میں لگ جائے گی اور ملک میں ایک بار پھر نئی سیاسی سازشیں سرزد ہوں گی، نت نئے اسکینڈل آئے دن سامنے آیا کریں گے، ہمارا ملک اسی طرح سے عالمی مالیاتی اداروں سے کڑی اور سخت شرائط کے تحت قرضے حاصل کرتا رہے گا، اور عوام کے لیے مصیبتوں کی نئی فصلیں بھی اسی طرح سے کاشت ہوتی رہیں گی۔ وہ حکومت جو ہمارے ملک میں اقتدار کی فتح یابی سے ہم کنار ہوگی، تمام تر مشکلات بھی پھر اسی کے حصے میں آئیں گی۔ اس کے حصے میں پھولوں کی سیج کے بجائے کانٹوں کا تاج آئے گا۔ وہ تاج جو عوام کے لیے معاشی تبدیلیوں کا سبب نہیں بن سکے گا اور نہ ملک کے عوام کی غربت ہی کو کم کر پائے گا۔ وہ شدید ترین غربت جس نے فاقہ کش اور بھوکی مائوں کو مع اپنی اولاد، خودکشیاں کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ عوام کے حصے میں آنے والی حد درجہ بدنصیبی کو دیکھتے ہوئے چارلس ڈکنس کے ناول ’’A tale of two cities‘‘ کی یہ سطور یاد آرہی ہیں ’’وہ بہترین زمانہ تھا۔ وہ بدترین زمانہ تھا۔ وہ دانائی کی عمر ہوا کرتی تھی۔ وہ نادانی کی عمر تھی۔ ہم بہترین اور بدترین، دانائی اور نادانی کے مابین اس فرق کو تاحال نہیں سمجھ سکے ہیں، کیوں کہ ہم نے آج تک بدقسمتی سے صرف بدترین ادوار ہی دیکھے ہیں اور صرف نادانوں کی حکمرانی ہی کو بھگتا ہے۔ ایسے حکمران اہلِ وطن کو بھلا خوش حالی کے حسین خواب کس طرح سے دکھا سکتے ہیں، جو کارِ سیاست کو محض ایک جنسِ کاروبار ہی گردانتے ہیں۔‘‘

تمام سیاسی پارٹیوں کی ملک کے اندر لابنگ اس وقت بامِ عروج پر ہے، اس لابنگ کو ان جماعتوں کی سیاسی قیادتیں اقتدار کا ایک زینہ یا سیڑھی سمجھتی ہیں، لیکن ہفتۂ رفتہ انگریزی اخبارات میں شائع شدہ اس رپورٹ پر کسی نے بھی اپنا دھیان دینا گوارا نہیں کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’پاکستان غیر معمولی خطرات میں گھر چکا ہے‘‘۔ یہ رپورٹ جو 120 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں پاکستان کی میکرو اکنامک آئوٹ لُک‘‘ کا تجزیہ کیا گیا ہے، درحقیقت بے حد چشم کشا اور چونکا دینے والی ہے۔ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ’’معیشت کی ساختی مشکلات (Structural Challenges) کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف کے مزید پروگراموں کی ضرورت پڑے گی‘‘۔ یہ رپورٹ جو اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کی یادداشت (Memorandum of Economic and Finanical Policies (MEFP) پر مبنی ہے اور جس پر ملک کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر کے دستخط بھی ثبت ہیں، صراحت اور وضاحت کرتی ہے کہ ہمارے ملک کی معیشت اتنی آسانی سے ہر گز پٹری پر نہیں چڑھ سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ چند دن کے مہمان وزیراعظم بھی تمام سیاسی جماعتوں کو ’’چارٹر آف اکانومی‘‘ پر باہم متفق کرنے کے لیے مشورے دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔

یہ انتخابات جو ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو مقابلے کا میدان فراہم کررہے ہیں، اس میدان سے پی ٹی آئی فی الحال کنارے پر کھڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ وہ پی ٹی آئی جو 9 مئی کے واقعات کی ذمے دار قرار دی گئی ہے جس سے ملک کے طاقتور حلقے کسی بھی طور پر بارگیننگ کا ماحول پیدا کرنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتے۔ عمران خان جو بہ زعمِ خود ملک کے اہم سیاست دانوں کا احتساب کرنے نکلے تھے آج خود ہی احتساب کے شکنجے میں بتدریج جکڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہمارے ملک کے احتساب کے ذمہ دار ادارے اب صرف اشاروں کے منتظر ہیں۔ اگرچہ پی ٹی آئی بظاہر تو ٹکڑے ٹکڑے ہوچکی ہے تاہم وہ ووٹ بینک جو عمران خان کے حصے کا ہے اسے نہ ہی پرویز خٹک توڑ پائے ہیں اور نہ ہی استحکام پاکستان پارٹی کی وہ قیادت جو پی ٹی آئی کی کشتی میں سوراخ ہوتا دیکھ کر مارے خوف اور ڈر کے اس میں سے باہر چھلانگ مار کر بھاگ کھڑی ہوئی تھی۔ عمران خان 9 مئی کے کیس اور واقعے کے اصل مجرم قرار دیے گئے ہیں۔ اس کیس کے علاوہ عمران خان کے خلاف کیسوں کی طویل فہرست میں ایک نیا کیس اعظم خان کا اعترافی بیان بھی بنا ہے۔ وہ اعظم خان جو عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ان کے پرنسپل سیکرٹری ہوا کرتے تھے اور جو 17 جون سے لاپتا تھے۔ ان کا یوں اچانک ظاہر ہونا اور پھر اعترافی بیان دینا بے حد معنی خیز ہے۔ اپنے اعترافی بیان میں موصوف اعتراف کرتے ہیں کہ ’’سائفر کے معاملے پر عمران خان نے نان ایشو کو دانستہ ایک ایشو بنادیا تھا‘‘۔ اعظم خان کے اس اعترافی بیان کے بعد حکومت عمران خان کے خلاف سیکرٹ ایکٹ 1923ء کے سیکشن 5 کے تحت کیس چلانے کے لیے غوروخوض کررہی ہے، جبکہ 9 مئی کا کیس بھی عمران خان کو ایک طویل عرصے کے لیے جیل بھجوا سکتا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری اور نااہلی (ممکنہ) کے بعد ہونے والے الیکشن میں اِس وقت چھائی ہوئی دھند بھی تب تک چھٹ چکی ہوگی جس کا خوف پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو اندر ہی اندر کم زور اور خوف زدہ کرتا رہتا ہے۔ یہی نہیں مسلم لیگ (ن) کے خلاف نفرت کا جو میل ووٹرز کے دلوں میں ہے اسے سیاسی سختیوں کے صابنوں سے بھی اب صاف نہیں کیا جاسکتا۔ وہ مسلم لیگ (ن) جس کی قیادت آنے والے الیکشن کے بعد برسرِاقتدار آنے کی شرط پر ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے وعدے کررہی ہے، لیکن چار مرتبہ اقتدار میں رہنے کے باوصف عوامی خوش حالی کے سارے ہی خواب ادھورے رہے ہیں۔ ملک کی دیگر سیاسی پارٹیوں کا حال بھی اسی طرح کا رہا ہے، بعینہٖ جیسے زمبابوے کے عوام کے ساتھ رابرٹ موگابے کی پارٹی ’’افریقین نیشنل یونین پیٹریاٹک فرنٹ‘‘ نے کیا تھا، جس طرح سے سات دہائیوں سے میکسیکو پر حکومت کرنے والی ’’انسٹیٹیوشنل ریوولیوشنری پارٹی‘‘ نے عوام کے ساتھ کیا تھا جہاں معاشی طور پر عوام خوش حالی سے ہم کنار نہیں ہوپائے، بلکہ سیاسی اشرافیہ بدعنوانیوں کی نت نئی مثالیں قائم کرنے میں لگی رہی۔ اگر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے شائع شدہ سالانہ رپورٹس ہی اٹھا کر دیکھ اور پڑھ لی جائیں تو دنیا کے ممالک کی بدحالی کے پسِ پردہ اصل کہانیاں سمجھ میں آجائیں گی۔ الیکشن نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں یا پرانی مردم شماری کی بنیاد پر، لیکن نگراں سیٹ اَپ کے لیے جاری سرگرمیوں کے ساتھ عوام اور سیاسی قیادت کے درمیان فاصلے بھی گھٹ رہے ہیں، لیکن جو پارٹی اس وقت سیاسی سازشوں کے ساتھ ساتھ طاقت ور اداروں کے زیر عتاب ہے، جس نے 2018ء کے انتخابات میں 149 نشستیں حاصل کی تھیں وہ پارٹی (پی ٹی آئی) آئندہ الیکشن میں حصہ لے بھی سکے گی کہ نہیں؟ یا اس پارٹی کی قیادت سلاخوں کے پیچھے ہوگی؟ یہ فیصلے ابھی طے ہونے ہیں، لیکن اس کے سیاسی سحر میں گرفتار نوجوانوں سے ووٹ کا حق تو کوئی بھی نہیں چھین سکتا، جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ عمران خان نے اپنے سارے سیاسی حکومتی عرصے میں صرف مایوسیوں اور ناکامیوں کی فصل ہی کاشت کی اور نام نہاد احتساب کے نام پر اپنا، ملک اور قوم کا قیمتی وقت ضائع کر ڈالا ہے بالکل اسی طرح جیسے اسٹالن نے روس میں کیا تھا، جس طرح پول پاٹ نے کمبوڈیا میں، فرانکو نے اسپین میں یا کم جونگ ال نے شمالی کوریا میں کیا تھا۔ سوویت یونین تو برس ہا برس تک اسٹالن دور کی کالک ’’ڈی اسٹالنزیشن‘‘ کے عمل سے صاف کرتا رہا تھا۔ اقتدار کی طاقت بہتوں کا ہاضمہ خراب کردیا کرتی ہے۔ اسی لیے تو ابراہام لنکن نے بھی کہا تھا کہ ’’اگر آپ کسی بھی شخص کی انسانیت پرکھنا چاہتے ہیں تو اُسے اقتدار کی طاقت دے کر دیکھ لیجیے۔ اقتدار بیشتر افراد کے چہروں پر لگا ماسک اُتار ڈالتا ہے‘‘۔ نوجوانوں کا بلاشبہ یہ بنیادی حق ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ اپنی ہمدردیاں رکھیں، لیکن اُن نوجوانوں کو جو عمران خان ہی کو اس ملک کا مسیحا تصور کرتے ہیں، چاہیے کہ وہ عمران خان کے سیاسی ابھار اور ان کے سارے حکومتی دور کا تنقیدی جائزہ بھی لیں تاکہ انہیں یہ بات بآسانی سمجھ میں آجائے کہ سایوں کا تعاقب کرنا صرف اور صرف وقت کا زیاں ہے۔

نگراں سیٹ اَپ اور مستقبل کے سیاسی معاملات کے حل کے لیے دبئی میں پہلی بیٹھک تو ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کے مابین ہوچکی ہے، لیکن پھر بھی بہت سارے امور الجھے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے دبئی میں ایک اور اجلاس کے انعقاد کی تیاریاں شروع کی جاچکی ہیں اور مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی قیادت بھی اسی لیے دبئی پہنچ چکی ہے، جہاں پر نہ صرف مولانا فضل الرحمن کے خدشات کو ختم کرنے کے لیے غوروفکر کیا جائے گا بلکہ نگراں سیٹ اَپ کے علاوہ پنجاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فارمولے پر بھی غور ہوگا، جس پر مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنما متفق نہیں ہورہے ہیں۔ بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم بنانے کے لیے سابق صدر زرداری لابنگ کرنے میں مصروف ہیں اور انہوں نے دبئی میں اس سلسلے میں اہم سیاسی ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان ملاقاتوں کے نتائج ملک کے نئے الیکشن میں سامنے آئیں گے۔ یہ نتائج خواہ کچھ بھی سامنے آئیں لیکن مسلم لیگ (ن) کی سپریم قیادت اگر پنجاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فارمولے پر کمپرومائز کرلے اور اس کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی کو پنجاب میں اسپیس مہیا کردی جائے تو لاریب اسے پی پی پی کی ایک بڑی کامیابی گردانا جائے گا۔ لیکن ملک کی معیشت اس وقت جس بحران میں مبتلا ہے وہ نئی حکومت کے لیے محض اقتدار کا حصول ہی نہیں بلکہ ایک کڑے امتحان کی ابتدا ہوگی۔ اس حکومت کا ابتدائی عرصہ کیسا ہوگا؟ اس کے لیے ملک کے ماہرینِ معیشت آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج کے 9 مہینوں کو اہم قرار دے رہے ہیں۔ سب ماہرینِ معیشت اس امر پر متفق ہیں کہ پاکستان کی معیشت بڑی تیزی کے ساتھ ایک بہت بڑے بحران کا شکار بننے والی ہے، جس کی تفصیلات بہت زیادہ ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مہنگائی اور غربت کی ذمہ داری صرف عالمی مالیاتی اداروں پر ہی عائد نہیں کی جاسکتی، کیوں کہ لوگ آئی ایم ایف کی شرائط کے باعث نہیں بلکہ ملک میں لاگو کردہ غلط پالیسیوں اور سرکاری اداروں کی نااہلیوں کی وجہ سے مصائب اور مصیبتوں کا شکار ہیں۔ وہ سب بڑی سیاسی جماعتیں جنہوں نے آئی ایم ایف کے معاہدے پر عمل درآمد کرانے کے لیے آئی ایم ایف کو تحریری یقین دہانی کروائی ہے ان میں نواز لیگ، پی پی پی اور پی ٹی آئی بھی شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل پر تو فی الوقت دھند چھائی ہوئی ہے، باقی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں اور وہ پارٹیاں جو پی ٹی آئی کے پہلو سے برآمد کی گئی ہیں، ان کے راستے صاف ہیں، یہ الگ بات ہے کہ پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پارلیمنٹرین بھی محض ایک غبارے کے مصداق ہی ثابت ہوئی جو اپنے قیام کے ساتھ ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔ پی ٹی آئی پارلیمنٹرین کی سیاسی انجینئرنگ کی تھیوری تو اُسی وقت ناکام ثابت ہوگئی تھی جب آغاز ہی میں کئی ارکان نے اس پارٹی سے اظہارِ لاتعلقی کر ڈالا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طاقتور حلقوں کی پشت پناہی کے بغیر نئی سیاسی پارٹیوں کا قیام ممکن بھی نہیں ہے۔ اس کا اہم سبب یہ بھی ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی واضح اکثریت کے ساتھ عام انتخابات میں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ ملک میں نیا الیکشن جو اس ملک کے اقتدار کو نئی حکومت کے حوالے کرنے کے لیے منعقد کرایا جائے گا، اس الیکشن میں امیدواروں کے چہرے تو وہی پرانے ہوں گے جو عوام کے زخموں پر پہلے ہی اپنی نااہلی اور ناکامی سے نمک چھڑکتے چلے آرہے ہیں۔ یہ الیکشن جو مستقبل میں ہوں گے وہ الیکشن نہیں ہوں گے جو جمہوریت کی بحالی کا سبب بنیں۔ آئندہ الیکشن میں ووٹ نہیں ہوگا بلکہ صرف ووٹوں کا شمار ہی ہوگا۔‘‘

(نوٹ: کالم نگار کے تمام خیالات سے مترجم اور ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ہے)