مخصوص طاقتور طبقات کے مفادات کا کھیل غالب ہے
پاکستان کی سیاست اور جمہوریت عوام دشمنی یا ریاست دشمنی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ اس موجودہ نام نہاد جمہوری نظام میں سب کچھ ہے، اگر نہیں ہے تو عوامی مفادات پر مبنی حکمرانی، شفافیت، عام آدمی کی ترقی اور خوشحالی نہیں ہے۔ عوام کا موجودہ سیاسی و جمہوری نظام پر اعتماد کمزور ہورہا ہے اورانہیں لگتا ہے کہ جو نظام ہم پر لاگو ہے اس میں سیاسی عملی اور جمہوریت محض نمود و نمائش کے طور پر ہیں۔ جمہوریت طاقت ور طبقات کا مضبوط ہتھیار بن گئی ہیں جن کی بنیاد پر عوامی استحصال بڑی شدت سے جاری ہے۔موجودہ حکمرانی کا مجموعی نظام طاقت ور طبقات کے گرد گھوم رہا ہے اور جو بھی پالیسیاں، قانون سازی یا عمل درآمد کا نظام چل رہا ہے اس میں فائدہ طاقت ور طبقات کا ہی ہے۔ بنیادی طور پر ہم طبقاتی حکمرانی کے نظام سے گزر رہے ہیں جہاں مخصوص طاقت ور طبقات کے مفادات کا کھیل غالب نظر آتا ہے۔یہ جو اسلام آباد میں ریاست اورحکمرانی کے درمیان ایک بڑی جنگ جاری ہے اس کا بنیادی نقطہ اپنی حکمرانی کی طاقت کو برقرار رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں جاری اس لڑائی میں عام آدمی ہو یا مڈل کلاس طبقہ، خود کو سیاسی طور پر تنہا دیکھ رہا ہے اورنظام سے اُس کی لاتعلقی میں شدید اضافہ ہورہا ہے جو ریاستی نظام کی اپنی سیاسی بقا کے لیے خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔
حالیہ سیاسی بحران کو اس کے حقیقی مناظر میں دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مسائل و مصائب میں گھرے ہوئے ملک میں طاقتور طبقات کے مفادات بالادست ہیں جہاں حکمرانی کا نظام اپنی ساکھ اور افادیت کھوچکا ہے۔ رجیم چینج کے نام پر پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ ایک ڈرائونا خواب بن گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کوئی مثالی حکومت تھی۔ پی ٹی آئی کا بھی گورننس کا نظام اپنی افادیت قائم نہیں کرسکا تھا، مگر جس سول ملٹری سطح پر تعلقات کے بگاڑ کے نتیجے میں رجیم چینج کے منصوبے پر عمل کیا گیا اس کے نتائج مثبت کم اور منفی زیادہ آئے ہیں۔ جو بھی مؤرخ پاکستان کی سیاسی تاریخ لکھے گا وہ یہ نکتہ ضرور اٹھائے گا کہ رجیم چینج نے پاکستان کو کوئی بیس برس پیچھے دھکیل دیا ہے۔ رجیم چینج کے سارے کردار بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں، اور اس کے نتیجے میں بننے والی تجربہ کار اور باصلاحیت سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت نے جو کچھ اس ملک میں اب تک کھیلا ہے وہ بھی حالات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ اس حکومت کا ظلم دو سطحوں پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اول: عوامی مفادات پر مبنی حکمرانی کے برعکس نظام، جس نے عام آدمی کی زندگی کو تاریخ کی بدترین حالت میں تبدیل کردیا ہے۔ دوئم: اس حکمران اتحاد نے جس انداز سے عملی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہیں اورجمہوری عمل کو جس طرح کمزور کرکے خود کو آقائوں کا چاکر ثابت کیا وہ واقعی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ اس وقت یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ پاکستان میں جمہوریت کا کھیل بہت حد تک ختم ہوگیا ہے۔ جمہوری قوتوں نے آگے بڑھ کر اس جمہوری اسپیس کو ختم کرکے خود کو بھی اورملک کو بھی ایک طاقت ور طبقے کے حوالے کردیا ہے۔ جمہوریت، میڈیا، سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی، عدلیہ سبھی بے بسی کی تصویر نظر آتے ہیں۔ جمہوریت کے نظام کی بڑی خوبی اس نظام میں موجود متبادل آوازیں ہوتی ہیں جو کہ اب تقریباً ختم کردی گئی ہیں۔ عمران خان حکومت پر سب سے بڑا الزام اُس وقت کی حزبِ اختلاف اور میڈیا میں اُس کے حمایت یافتہ طبقے کا کہنا یہ تھا کہ یہ ہائبرڈ نظام ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے چل رہا ہے۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ نظام کیا ہے؟ اورکیا اس وقت جو حکومت ہے وہ بغیر کسی ہائبرڈ نظام کے چل رہی ہے؟ جواب نفی میں ہوگا۔ موجودہ حکومت عمران خان کی حکومت سے ایک قدم آگے ہائبرڈ نظام کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر دلیل یہ دی جائے کہ 2018ء میں مسلم لیگ (ن) کا راستہ روکا گیا تھا اور فائدہ پی ٹی آئی کو دیا گیا تھا تو آج جو کھیل کھیلا جارہا ہے اس میں آئندہ عام انتخابات کی صورت میں پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانا اور اُس کی مخالف سیاسی جماعتوں کو ریلیف دینامقصود ہے۔ اگر سابقہ انتخابات میں یہ غلط تھا تو آج کیسے ٹھیک ہوگیا؟
آج کا سیاسی نظام سیاسی قیادتوں اور سیاسی فیصلوں سے محروم نظام ہے۔ اس نظام میں فیصلوں کی اصل طاقت سیاست دانوں کے پاس نہیں بلکہ طاقت کے مراکز کے پاس ہے۔ پی ٹی آئی کو جس انداز سے دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے اور جس انداز سے ان کے خلاف انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں وہ خود لمحہ فکریہ ہے۔ لیکن سول سوسائٹی ہو یا میڈیا… سب پر مختلف نوعیت کی پابندیاں نظر آتی ہیں، اور بہت کچھ پیش نہیں کیا جارہا جو منظر پر غالب نظر آتا ہے۔ اس ہائبرڈ نظام اور موجودہ تجربہ کار حکومت کا حالیہ کارنامہ پیٹرول اور ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں بیس روپے کا اضافہ ہے۔ اس سے قبل بجلی کی فی یونٹ قیمت میں اضافہ اور بجلی کے بلوں پر ٹیکسوں کی بے جا جبری وصولی نے پورے حکمرانی کے نظام کو ننگا کردیا ہے۔ یہ ظالمانہ نظام سوائے عوام دشمنی کے کچھ نہیں، اوراس نے واقعی عوام کو بدحال کردیا ہے، مگر اس سے ہمارے حکمرانی کے نظام اور موجودہ حکمران ٹولے کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کی تقریریں سنیں تو لگتا ہے کہ ملک معاشی میدان میں ترقی کررہا ہے اور ملک کے چاروں طرف معاشی خوشحالی ہے۔ ایک طرف عوام کی بدحالی ہے تو دوسری طرف پنجاب میں سرکاری افسران کے لیے اربوں روپوں کی سرکاری گاڑیاں خریدنا اور وزیراعظم کی جانب سے ارکانِ اسمبلی کو اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز جاری کرنا واقعی شدید ظلم کے مترادف ہے، اور اس کی بھاری قیمت اب عوام کو مزید مہنگائی کی صورت میں دینی پڑرہی ہے۔ اسی طرح بجلی، پیٹرول اور ڈیزل سمیت دیگر اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک میں انتخابات کا ہونا غیر یقینی ہے۔ کیونکہ کوئی بھی حکومت جو چند دنوں بعد انتخابات میں جارہی ہو وہ اس طرح کے معاشی فیصلے کرنے سے گریز کرتی ہے۔ لیکن یہاں مسئلہ آئی ایم یف کا ہے۔ پہلے یہی حکمران طبقہ عمران خان کی حکومت پر الزام لگاتا تھا کہ وہ آئی ایف ایم کے فیصلوں پر عمل درآمد کرکے عوام دشمنی کررہی ہے، لیکن اب جو کچھ آئی ایم ایف کے دبائو پر ہورہا ہے اسے کیا نام دیا جائے گا؟ یہ نظام ایسے نہیں چل سکے گا، اور اس نظام کی درستی کے لیے ایک سخت گیر سرجری درکار ہے جو غیر معمولی فیصلوں کے بغیر ممکن نہیں۔
اس وقت اسلام آباد کی سطح پر نگران حکومت یا نگران وزیراعظم کی سیاست ہورہی ہے۔ جو پانچ نام مسلم لیگ (ن) یا پیپلزپارٹی نے نگران وزیراعظم کے طور پر دیے ہیں وہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ مسئلہ انتخابات سے گریز کا ہے۔ کیونکہ آئین میں واضح ہے کہ ایک غیر جانب دار نگران حکومت قائم کی جائے جو انتخابات کرائے گی مگر جو نام سامنے آرہے ہیں وہ تمام حکمران جماعتوں کے اہم راہنما ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک سیاسی کھیل ہے اور عوام کو انتخابات کے نام پر بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ اول تو انتخابات کے امکانات کم ہوتے جارہے ہیں، اور اگر کرانےہوئے تو لولے، لنگڑے اور مصنوعی انتخابات پورے نظام کو مزید کمزورکرنے کا سبب بنیں گے۔
بظاہر اب حکمران طبقہ ہر صورت میں انتخابات سے بھاگے گا۔ یہ بات پہلے بھی لکھی تھی کہ بظاہر موجودہ حکومت بروقت انتخابات پر زور دے گی لیکن اسے زمینی حقائق کا علم ہے اور وہ ہر صورت میں انتخابات سے گریز کرے گی۔ ایک طرف دہشت گردی، دوسری طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی اور تیسری طرف ایم کیو ایم کی نئی مردم شماری کے نتائج کے بغیر عام انتخابات کی عدم قبولیت ظاہر کرتی ہے کہ کھیل کا دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ نگران حکومت کو عبوری حکومت کے طور پر تسلیم کرنا ہے۔ اسی بنیاد پر نگران حکومت یا نگران وزیراعظم کے نام پر حکومتی اتحاد اور اسٹیبلشمنٹ میں جنگ جاری ہے۔ یہ جو سول ملٹری تعلقات کی بحالی اور مضبوطی کو بنیاد بناکر معیشت کی بحالی یا زراعت کی ترقی کا شور مچایا جارہا تھا، یا ہے، اس سے بھی لوگوں کو اندازہ ہورہا ہے کہ کھیل معیشت کی بحالی کا کم اور سیاسی مفادات کا زیادہ لگتا ہے۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی تھی کہ اگر موجودہ حکومت کو یہی کچھ کہنا ہے کہ ساری ترقی یا معاشی ترقی کے جو امکانات ابھر رہے ہیں یا جو آئی ایم ایف سمیت برادر اسلامی ممالک سے امداد مل رہی ہے اس کا سارا کریڈٹ فوج کو ہی جاتا ہے تو پھر اس مصنوعی سیاسی نظام کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ کیونکہ جب محض آئی ایم ایف یا بردار اسلامی ممالک پر انحصار کرکے خود کچھ نہیں کرنا، اور نہ ہی ملک میں سخت گیر اور ضرورت کے تحت اصلاحات کرنی ہیں تو پھر کیسے ہم داخلی مسائل سے نمٹ سکتے ہیں؟ جذبات کی بنیاد پر معیشت کی بحالی کے نعرے کچھ نہیں دے سکیں گے۔ اسی طرح جس انداز میں اسٹیبلشمنٹ کو قومی معاملات کی درستی کے لیے لیڈ دی جارہی ہے وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے حق میں نہیں ہوگی۔ سیاسی اور معاشی معاملات میں فوج ضرور سہولت کاری کرے مگر لیڈ وفاقی حکومت کو ہی لینی ہے، اور وہی اپنی کارکردگی کے تناظر میں عوام کو جواب دہ بھی ہے۔ حکومت نے آخری دنوں میں جس تیز رفتاری سے قانون سازی کی ہے اور جس تیزی سے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا جارہا ہے اس میں بھی سیاسی اورمعاشی گھپلے نمایاں ہیں۔ سینیٹ میں جو بل سیاسی جماعتوں پر پابندی کی صورت میں سامنے آیا وہ انتہا پسندی کو بنیاد بناکر پی ٹی آئی پر پابندی کا تھا جو ارکانِ سینیٹ نے منظورکرنے سے انکار کردیا، اور ان کے بقول اس طرح کی قانون سازی سے جمہوریت کا خاتمہ مقصود تھا۔ دوسری طرف حکومت عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں ہر صورت نااہل کرنا چاہتی ہے اور جس تیز رفتاری سے اس مقدمے کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے اس کا مقصد عمران خان کے خلاف فیصلے کو سامنے لانا ہے۔ عمران خان کی نااہلی ہو یا اُن کو یا اُن کی جماعت کو انتخابات سے دور رکھنے کی پالیسی… پورے ہی انتخابی نظام کی ساکھ پر سوالیہ نشان کھڑے کردے گی۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ کون ہیں جو سیاسی جماعتوں پر مختلف نوعیت کی قانون سازی کے لیے دبائو ڈال رہے ہیں اوراس طرح کی قانون سازی سے کیا نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ آرمی ایکٹ کی منظوری پر بھی بہت سے سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں، اور ریٹائرڈ سرکاری افسران پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی جیسے بلوں سے بھی منفی سوچ ابھر رہی ہے کہ ہم تمام متبادل آوازوں کو ہر صورت ختم کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا نظام سیاسی اورجمہوری بنیادوں پر ہائبرڈ نظام کے ہی تابع رہے گا اورہم جمہوریت اورجمہوری عمل سے دور ہوتے جائیں گے؟ اہم بات یہ ہے کہ کیا ہم سیاسی استحکام قائم کیے بغیر معاشی استحکام حاصل کرسکیں گے؟ اورکیا سخت اصلاحات کے بغیر ہم گورننس کے نظام کو بہتربناسکیں گے؟بلاوجہ کے سیاسی تجربات ، سیاسی مہم جوئی اور سیاسی ایڈونچرز نے عملاً پاکستان کو سیاسی اورمعاشی طور پر تنہا کردیا ہے۔ ہم مرض کا درست علاج تلاش کرنے کے بجائے محض اس زخم پر مرہم پٹی کرکے گزارہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ مسئلے کا حل نہیں ہے اورہمیں کچھ اور کرنا ہے جسے کرنے میں ہم ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اگر ہمیں واقعی تبدیل ہونا ہے تواپنی حکمرانی کی شکلوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔کیونکہ پرانے اور روایتی طور طریقوں سے اس نظام کی اصلاح کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہوگی۔ یہ جو سوچ ہے کہ ہم کسی ریموٹ کنٹرول کی مدد سے سیاسی نظام کو ہائی جیک کرلیں گے یا اسے اپنی مرضی کے تحت چلائیں گے، ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ اس سوچ اور فکر سے ہم حکمرانی کے نظام میں بھی خرابیاں پیدا کریں گے اور سیاسی اورجمہوری عمل کو بھی مزید کمزور کرنے کا سبب بنیں گے۔