سیاسی جماعتوں کی کمزوری

نگران حکومت کا دورانیہ دو سے ڈھائی سال تک ہو سکتا ہے

قومی اسمبلی کی آئینی مدت مکمل ہونے میں اب صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے، تاہم حکومت آئینی مدت مکمل ہونے سے چند روز قبل ہی قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ نگران وزیراعظم کے لیے نام تو بہت سے لیے جارہے ہیں، لیکن یہ فیصلہ جنہیں کرنا ہے اور جس کے ہاتھوں ہونا ہے، یہ سب کچھ رواں ہفتے ہی افشا ہوگا، اس کے بعد ملک میں عام انتخابات ہوں گے۔ کب ہوں گے؟ اس سوال کا جواب اب صرف الیکشن کمیشن ہی دے سکتا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا قانونی اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ ووٹ دینا عوام کا اختیار ہے تاہم نتائج ان کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ ہزار فیصد سے یقین سے بھی زیادہ کہہ سکتے ہیں کہ ملک میں نگران حکومت کا دورانیہ دو سے ڈھائی سال تک جا سکتا ہے۔ اگر قارئین اس کو بڑوں کا فیصلہ سمجھ لیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔اب تک ملک میں11 عام انتخابات ہوچکے ہیں، ان تمام انتخابات کے نتائج میں عوام کا جس قدر ماضی میں حصہ رہا مستقبل میں بھی اتنا ہی حصہ ہوگا۔ گزشتہ عام انتخابات میں مقبولیت مسلم لیگ(ن) کی تھی مگر قبولیت تحریک انصاف کی تھی۔ ہوسکتا ہے اِس بار معاملہ الٹ ہوجائے۔

پاکستان کا آئین ملک میں منصفانہ، آزادانہ اور غیر جانب دارانہ انتخابات کی تحریری ضمانت دیتا ہے لیکن ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویزمشرف کے ادوار بھی ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔ یہاں ہمیشہ کنٹرولڈ اور نیم جمہوری نظام رہا ہے، کوئی بھی اسمبلی اور حکومت یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ وہ فیصلوں میں آزاد رہی ہے۔ اس ملک میں جب تک جھنڈے والی گاڑیوں کے بغیر نہ رہنے والے لوگ موجود ہیں، تب تک امیدواروں کی خریدو فروخت جاری رہے گی، منڈیاں لگتی رہیں گی اور نئی بوتل پرانی شراب کا کھیل جاری رہے گا۔

آئندہ عام انتخابات میں کون سی سیاسی جماعت اکثریت حاصل کرے گی اور مرکز میں حکومت بنائے گی؟ اس سوال کے جواب سے پہلے بولنا اور لکھناکم اور سننا زیادہ بہتر ہوگا۔ اِس بار کنگ پارٹی نہیں بلکہ غیر اعلانیہ کنگ اتحاد بنیں گے، ہر سیاسی جماعت کو اس کے اصل سائز میں رکھنے کے لیے ہر وہ حربہ اختیار کیا جائے گا جو ضروری ہوگا، پرانے سیاست دانوں کی جگہ نئے تابعدار آجائیں گے، مرکز اور صوبوں میں حکومت کے مقابلے میں ایک مضبوط اپوزیشن ہوگی۔ یہی مستقبل کا سیاسی نقشہ ہے۔ آج کل ویسے بھی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا دور ہے، میڈیا میں بھی آرٹیفیشل اینکرز اور نیوز کاسٹر آرہے ہیں تو سیاست میں آرٹیفیشل سیاست دان کیوں نہیں آسکتے؟

انتخابات میں ہمیشہ مثبت نتائج کی بہت مانگ رہی ہے، یہ مانگ ماضی کے مقابلے میں اب بڑھ گئی ہے۔ ماضی میں نوازشریف کو لایا گیا، بے نظیر بھٹو کو بھی آزمایا گیا، اس کے بعد عمران خان کو اٹھایا گیا، سیاسی اتحاد بھی بنوائے گئے لیکن ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ والا معاملہ ہے، اسی لیے معیشت تباہی کے کنارے جا لگی ہے۔ اِس سال ہمیں 25 ارب ڈالر کا قرض واپس کرنا ہے، یہ کیسے ہوگا اور کیسے ممکن ہے؟ اسی تلخ سوال کے جواب کے لیے اب فیصلہ ہوا کہ مرض کا علاج بھی کرنا ہے، دوا بھی تبدیل کرنی ہے۔ منصوبہ بندی یہ ہوسکتی ہے کہ لبرل کی راہ نہ روکی جائے تاہم انہیں مذہبی جماعتوں کے ذریعے کلے سے باندھ کر رکھا جائے۔ آئندہ سیٹ اَپ میں چھوٹی چھوٹی کنگز پارٹیوں کا بہت کردار ہوگا، فرنٹ پر تو لبرل ہی ہوں گے لیکن انہیں چھوٹی چھوٹی کنگز پارٹیوں کے ذریعے کھل کر سانس بھی نہیں لینے دی جائے گی۔ ملک میں یہ سیاسی منظرنامہ اس لیے آسانی سے دستیاب ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کی کوئی مستقل پالیسی یا اصول نہیں ہے۔ مرکزی دھارے میں شامل جماعتیں خاندانی اور موروثی سیاست کررہی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاست میں ڈھٹائی کے ساتھ پیسے کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی پشیمانی محسوس نہیں کی جاتی، یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں بندوبست کرنے والوں کو ہنستا بستا سیاسی جمہوری کنبہ مل ہی جاتا ہے، اِس بار بھی مل جائے گا، حالانکہ انہیں خوب اندازہ ہوچکا ہے کہ ہائبرڈ حکومت کوئی اچھی طرزِ حکمرانی نہیں ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) دو ایسی جماعتیں ہیں جنہوں نے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کررکھے ہیں، لیکن دونوں خود اس پر عمل نہیں کرسکیں۔ 2008ء سے 2018ء تک کا دور سامنے ہے۔ 2010ء میں 18 ویں آئینی ترمیم لائی گئی، اس ترمیم کو ہوئے13 سال ہونے کو ہیں، آج تک وہ محکمے جو مرکز سے صوبوں کے حوالے ہونے تھے، نہیں ہوسکے۔ میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرنے والی جماعتیں ہی اس کی ذمہ دار ہیں۔ پسند کے مثبت نتائج لانا ایک ایسا کمبل ہے جس سے ماضی کے تمام تلخ تجربات کے باوجود جان چھڑانا مشکل نظر آرہا ہے۔ اِس بار بھی چند پرانی گاڑیوں کے پرزے نکال کر ان سے کسی نئی گاڑی کی شکل بنائی جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ اب صرف معیشت کی بحالی پہلی ترجیح ہے، لہٰذا سب کچھ اسے سامنے رکھ کر کیا جائے گا۔

ایک ہفتے بعد ملک میں نگران حکومت ہوگی، جو عام انتخابات تک کام کرے گی۔ اس کے بعد نئی منتخب حکومت آئے گی۔نگران حکومت کا اصل مقصد منتخب حکومت کی آمد تک روزمرہ کے معاملات چلانا ہوتا ہے، اسے فیصلوں اور پالیسی سازی کے حوالے سے منتخب حکومت جیسے اختیارات حاصل نہیں ہوتے، لیکن پاکستان معیشت کے حوالے سے آج ایک ایسی غیرمعمولی صورتِ حال سے دوچار ہے جس کی کوئی دوسری مثال ہماری 76 سالہ قومی تاریخ میں موجود نہیں، اسی وجہ سے نگران حکومت کو معمول کے حالات کی نسبت زیادہ بااختیار بنانے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے جس کے لیے قانون سازی ضروری ہے۔ملک میں غیر معمولی سیاسی و معاشی حالات کے پیش نظر اور آئندہ انتخابات کو صاف و شفاف بنانے کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے کثرتِ رائے سے انتخابی قوانین میں ترمیم کرکے آنے والی نگران حکومت کو بعض محدود اختیارات دے دیے ہیں جو اس سے قبل ایسی کسی حکومت کو حاصل نہیں تھے۔ حکومت نے الیکشن ایکٹ میں اس حوالے سے جو ترامیم تجویز کی تھیں اپوزیشن کے علاوہ اتحادی جماعتوں کو بھی ان پر شدید تحفظات تھے۔ حکومت نے اپوزیشن ارکان اور اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے بات چیت کی اور تحفظات دور کرنے کے بعد ترامیم لائی گئیں، اور انتخابی ترمیمی بل 2023ء کی شق 230 جو نگران حکومت سے متعلق تھی، اسے بھی بعض ترامیم سے قابلِ قبول بنایا گیا، جس کے بعد ایوان سے منظوری لی گئی، پھر اسے صدرِ مملکت کو بھیج دیا گیا۔ صدر کی توثیق کے بعد بل قانون کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ ان ترامیم کے مطابق آنے والی نگران حکومت کوئی نیا عالمی معاہدہ نہیں کرسکے گی اور اسے موجودہ دو طرفہ یا کثیرالجہت معاہدوں پر فیصلوں کا اختیار بھی نہیں ہو گا، نگران حکومت صرف پہلے سے طے شدہ معاہدوں اور منصوبوں پر کام آگے بڑھانے اور بات چیت کرنے کے لیے بااختیار ہوگی۔ نگران حکومت کو جو محدود اختیارات دیے جا رہے ہیں ان کا مقصد آئی ایم ایف سے موجودہ حکومت کے معاہدوںپر عمل درآمد یقینی بنانا ہے۔ اُن معاہدوں اور معاملات کو بھی تحفظ حاصل ہو گا جو اقتصادی بحران کے حل کے لیے دو طرفہ یا کثیرالجہتی سطح پر کیے گئے ہیں۔ یوں صرف روزمرہ امور چلانے کے لیے نگران حکومت کے کچھ اختیارات واضح کیے گئے ہیں۔ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے منصوبوں کے علاوہ کچھ دو طرفہ معاہدے ہیں، جن میں سیلاب زدگان کی امداد کا معاہدہ بہت اہم ہے۔ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے عالمی بینک سے اگلے ماہ ستمبر میں معاہدہ ہونا ہے، ایسے معاملات میں رکاوٹیں دور کرنے کے لیے کچھ ترامیم کی گئی ہیں جو ناگزیر تھیں۔ ترامیم میں یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ پریزائیڈنگ افسر الیکشن کی رات 2 بجے تک نتائج دینے کا پابند ہوگا۔ یہ بھی طے کردیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے معاملے میں 5 فیصد یا 8ہزار ووٹوں اور صوبائی اسمبلی کی صورت میں 4 ہزار ووٹوں کے فرق پر دوبارہ گنتی کرائی جائے گی۔ انتخابی نتائج بروقت مرتب کرنے اور الیکشن کمیشن کو پہنچانے میں ناکامی پر متعلقہ افسروں کے خلاف فوجداری مقدمات چلائے جا سکیں گے۔ سیکورٹی اہلکار پولنگ اسٹیشن سے باہر تعینات ہوں گے اور صرف پریزائیڈنگ افسر کی اجازت سے اندر آسکیں گے۔ انتخابی عذر داریوں کی صورت میں ریٹائرڈ ججوں کو الیکشن ٹریبونل میں تعینات نہیں کیا جائے گا، صرف حاضر سروس ججوں کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ ترمیمی بل میں یقینی بنایا گیا ہے کہ نگران حکومت مقررہ وقت کے اندر صاف و شفاف انتخابات کراکے سبکدوش ہوجائے اور اس کی میعاد میں توسیع نہ ہوسکے، کیونکہ وہ منتخب حکومت کی جگہ نہیں لے سکتی۔

پی ڈی ایم کی جماعتوں نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں ایسی قانون سازی کی ہے جس سے نگران حکومت کو بہت زیادہ اختیارات مل جائیں گے اور ہوسکتا ہے اس کا فوکس الیکشن سے ہٹ جائے۔ عمران خان کی جماعت کے سیاسی منظر نامے سے ہٹنے کے باوجود کئی لڑائیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ پی ڈی ایم اسٹیبلشمنٹ کے بجائے اپنا وزیراعظم لانے پر اصرار کر رہی ہے۔ اس وقت پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں مستقبل کی حکومت میں اپنا اپنا حصہ لینے کے لیے ’’بارگیننگ‘‘ کررہی ہیں۔ مسلم لیگ(ن) سمجھتی ہے کہ اگر ان کی معاملات پر گرفت مضبوط نہ ہوئی تو اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر کوئی اور پوزیشن بھی لے سکتی ہے جیسا کہ ماضی میں بھی ہوچکا ہے۔ طاقتور حلقوں کی خواہش تھی کہ عمران خان کے خلاف مقدمات کے فیصلے جلد ہوں اور اس پراجیکٹ کو ’’حتمی منزل‘‘ تک پہنچا دیا جائے، لیکن مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی خواہش تھی کہ یہ کام تاخیر کا شکار ہو اور نگران حکومت ہی یہ بوجھ اٹھائے۔ آنے والے دنوں میں اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور ایوانِ صدر میں تبدیلیاں متوقع ہیں۔ ان ہی دنوں میں عمران خان کے مقدمات کے فیصلے سامنے آئیں گے۔ کوئی نہیں جانتا کہ ان دنوں امن و امان کی صورتِ حال کیا رخ اختیار کرے، اس لیے نگران حکومت کے تگڑا ہونے کو بھی ترجیحات میں دیکھا جا رہا ہے۔

آئی ایم ایف معاہدہ اور نگران حکومت

ہمارے پاس معیشت کے لیے اگلے سال مارچ تک محدود اور قلیل وقت ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ معاہدے کے نتائج اگلے سال مارچ میں ہمیں چوٹی پر پہنچا دیں گے یا ملکی معیشت کا اونٹ پہاڑ کے نیچے آچکا ہوگا، اس کے سوا تیسرا کوئی آپشن نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کو جاری رکھنے کے لیے ہی پارلیمنٹ نے نگران حکومت کے اختیارات میں تبدیلی لانے کے لیے آئینی اور قانونی بل پاس کیا ہے، صدرِ مملکت کے دستخط کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔ آئی ایم ایف معاہدے کی مضبوطی کے لیے اسٹیٹ بینک نے اچانک شرح سود ایک فیصد بڑھا دی ہے اور پاکستان میں بنیادی شرح سود تاریخ کی بلند ترین سطح 22 فیصد پر جا پہنچی ہے، یہ فیصلہ آئی ایم ایف کے دبائو کی وجہ سے ہوا ہے۔ اسٹیٹ بینک کا مؤقف ہے کہ حکومت نے بجٹ میں حالیہ تبدیلیوں کے تحت ٹیکسوں اور پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی میں دس روپے فی لیٹر کا اضافہ کیا ہے جس سے ممکنہ طور پر مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ہے، اس لیے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے شرح سود بڑھانی پڑی ہے۔ ملک کے کاروباری طبقے نے یہ فیصلہ مسترد کردیا ہے کہ اس فیصلے سے کاروبار اور صنعتوں کو تالے لگ جائیں گے۔ معاشی حلقوں میں شرح سود اچانک بڑھنے کے وجہ آئی ایم ایف کی شرط کو قرار دیا جارہا ہے، اور اس کو حکومت کے ہر حال میں آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول ایگریمنٹ کرنے سے جوڑا جارہا ہے۔ شرح سود بڑھانے سے صرف تین دن قبل اسٹیٹ بینک نے اپنے پاس صرف ساڑھے تین ارب ڈالر کے کم ترین ڈالر ذخائر رہ جانے کے باوجود آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے کے لیے تمام قسم کی درآمدات پر سے پابندی اٹھالی ہے جبکہ پاکستان کے پاس ایک ماہ کی درآمدات کے برابر بھی ڈالر کا ذخیرہ نہیں ہے۔ ماہرین حیران ہیں کہ ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کا گھٹنا بڑھنا قیمتوں پر منحصر ہوتا ہے جس کا شرح سود سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا، اسٹیٹ بینک ہر بار یہ کہہ کر شرح سود بڑھاتا ہے اور اسے 7 فیصد سے 22 فیصد پر پہنچا چکا ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے شرح سود بڑھائی جارہی ہے تو پھر پاکستان میں مجموعی مہنگائی 38 فیصد اور غذائی اشیا کی مہنگائی 45 فیصد کے ریکارڈ کیوں بنارہی ہے؟ مرض کچھ اور ہے جس کی اسٹیٹ بینک صحیح تشخیص نہیں کر پارہا۔ بجلی کے بعد عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط پر وزارتِ خزانہ اور وزارتِ توانائی نے گیس سیکٹر کا گردشی قرضہ کم کرنے کا منصوبہ مکمل کرلیا ہے۔ گیس سیکٹر کا گردشی قرضہ ایک ہزار 600 ارب سے کم کرکے ایک ہزار 200 ارب روپے تک لایا جائے گا، اس طرح گیس سیکٹر کے گردشی قرضے میں 400 ارب روپے سے زائد کی کمی کی جائے گی۔ وزارتِ خزانہ جلد 415 ارب روپے سے زائد رقم جاری کرے گی۔ گیس سیکٹر کا گردشی قرضہ کم کرنے کا پلان آئی ایم ایف کو بھی شیئر کردیا گیا۔ آئی ایم ایف سے پلان منظوری کے بعد رقم جاری کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ حکومت کے یہ تمام اقدامات ملک میں مہنگائی لارہے ہیں۔ اب چینی اور آٹا بھی مہنگا ہوگیا ہے۔ پی ڈی ایم حکومت جاتے جاتے ایسے اقدام کرکے جائے گی کہ نگران حکومت مزید سخت فیصلے کرے گی، جس سے اتنی مہنگائی ہوجائے گی کہ عوام پی ڈی ایم کی مہنگائی بھول جائیں گے۔