اس آڑ میں نجی جامعات کو پروان چڑھایا جارہا ہے
وطنِ عزیز میں گزشتہ کچھ عرصے سے سرکاری تعلیمی اداروں اور خاص طور پر جامعات کو بدنام کرنے کی منظم مہم جاری ہے۔ ہر سال کم و بیش اس کا آغاز انٹر و اے لیول کے امتحانات کے بعد ہوتا ہے جس میں سرکاری جامعات کو قحبہ گری کا اڈہ قرار دیا جاتا ہے۔ اِس سال اس مہم کا ہدف جامعہ اسلامیہ بہاولپور ہے جہاں کے چیف سیکورٹی آفیسر جو کہ پاک فوج کے ریٹائرڈ افسر ہیں، کے پاس سے مبینہ طور پر 5500 سے زائد طالبات کی فحش تصاویر برآمد ہونے کا الزام عائد کیا گیا، بعد ازاں اس ضمن میں نشہ اور اور دیگر ممنوعہ ادویہ کی فراہمی کا بھی الزام لگایا گیا۔
میڈیا نے اس کیس کو جب پیش کیا تو چیف سیکورٹی افسر کو استاد قرار دیا جو کہ استاد نہیں ہیں، اور اس کے بعد یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ منظم نیٹ ورک ہے جس میں ہر شعبے کے تین اساتذہ شامل ہیں۔ جبکہ صورتِ حال یہ ہے کہ جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں اس وقت 25 ہزار طالبات زیر تعلیم ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر پانچ میں سے ایک طالبہ مبینہ فحاشی یا قحبہ گری میں ملوث ہے جو کہ ایک ناقابلِ یقین صورتِ حال ہے، اور پوری جامعہ میں اس کا کوئی ثبوت بھی تاحال نہ مل سکا۔ اسی طرح فی شعبہ اساتذہ کی نصف تعداد اس گھنائونے عمل میں ملوث ہے جبکہ آج کل جامعات میں خواتین اساتذہ کی تعداد مرد اساتذہ کی تعداد کے نصف سے بھی زائد ہے، تو اس طرح تو خواتین اساتذہ بھی اس کھیل میں ملوث ہیں۔ اس معاملے کو جس طرح میڈیا میں پیش کیا گیا اس میں اساتذہ کو مخصوص انداز میں ہدف بنایا گیا، کیونکہ طلبہ و طالبات کا براہِ راست معاملہ استاد سے ہوتا ہے لہٰذا اس کو بدنام کیا جائے۔ اگر چیف سیکورٹی افسر کے طور پر اس معاملے کو اٹھایا جاتا تو شاید وہ مخصوص نتائج حاصل نہ ہوپاتے جوکہ مطلوب تھے۔
وہ نتائج کیا ہیں؟ اس وقت پورے ملک میں نجی جامعات کی پیداوار جاری ہے اور ہر بڑا سرمایہ دار، حتیٰ کہ میڈیا مالکان کی بھی ایک سے زائد جامعات، کالج اور اسکول ہیں۔ یہ منافع بخش کاروبار پھلے پھولے، اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سے موجود سرکاری جامعات کو نہ صرف معاشی طور پر تباہ کیا جائے بلکہ اس کے بعد ان کی اخلاقی اقدار پر بھی سوالات اٹھائے جائیں۔ اس کے بغیر اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ والدین اپنے بچوں کو سرکاری جامعات کے بجائے بھاری فیسوں والی نجی جامعات میں پڑھنے کے لیے بھیجیں۔ اس لیے ہر سال منظم طور پر یہ مہم چلا کر سرکاری جامعات کو بدنام کیا جائے اور نئے آنے والے طلبہ و طالبات کا رُخ سرکاری سے نجی جامعات کی جانب موڑ دیا جائے۔
یہ معاملہ صرف نجی سطح تک محدود نہیں بلکہ اب اس معاملے میں حکومتی سرپرستی بھی شامل ہے، کیونکہ حکومت اب اعلیٰ تعلیم سے بھی اپنی جان چھڑانا چاہتی ہے۔ اس کی ایک مثال وفاق کے زیر انتظام وفاقی اردو یونیورسٹی ہے جہاں کئی سال گزرنے کے باوجود بھی کسی مستقل وائس چانسلر تک کا تقرر نہیں کیا جاسکا، اور معاملات کو بار بار قائم مقام وائس چانسلر سے چلایا جارہا ہے۔ دوسری جانب نجی جامعات کو فروغ دینے اور انہیں سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ پہلے اس سال قانون میں ترمیم کرکے جامعات کی منظوری جو کہ صوبائی معاملہ تھا اس کو واپس وفاق کے حوالے کردیا گیا، اور اس کے محض چند دن بعد 27 جولائی 2023ء کو قومی اسمبلی میں وہ تاریخی کارنامہ انجام دیا گیا جس کی نظیر پاکستان کیا، دنیا بھر کی پارلیمانی تاریخ میں ملنا مشکل ہے، یعنی محض ایک دن میں 25 جامعات کا بل منظور کرکے ان جامعات کی بنیاد رکھ دی گئی جوکہ زیادہ تر نجی شعبے کے زیر انتظام ہیں۔ یعنی پراپرٹی مافیا کے بعد یا اب نجی تعلیمی مافیا بھی ایک طاقتور روپ اختیار کرچکا ہے جوکہ نہ صرف اپنی من پسند قانون سازی کرواتا ہے بلکہ اس کی راہ میں رکاوٹ بننے والے قوانین کو بھی ختم کروا دیتا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پراپرٹی مافیا، میڈیا مافیا اور نجی تعلیمی اداروں کا گٹھ جوڑ ہے جہاں پر ہدف ایک ہے، اور وہ ہیں سرکاری جامعات۔ کیونکہ میڈیا کے ذریعے پہلے جھوٹ تخلیق کیا جاتا ہے، اس کو پھیلایا جاتا ہے، اور پھر ان سرکاری اداروں کو بدنام کرکے انہیں ختم کروا دیا جاتا ہے، ان کی قیمتی زمینوں پر بلڈرز مافیا قبضہ کرتا ہے اور دوسری جانب نجی تعلیمی اداروں کی داغ بیل ڈالی جاتی ہے۔ کراچی میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ قدیم تعلیمی اداروں کو ختم کرکے وہاں حکومتی سرپرستی میں قبضہ کیا جاچکا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ان نجی جامعات میں جہاں خود سرکاری جامعات سے زیادہ گھناؤنے اخلاقی جرائم ہورہے ہیں، میڈیا کیوں خاموش ہے؟ گزشتہ دنوں پاکستان کے مشہور ادارے آئی بی اے کراچی میں ہم جنس پرستوں کے کلب اور تقریبات کا انعقاد ہوا جس پر کچھ نہ کچھ ہلچل سوشل میڈیا پر تو نظر آئی لیکن الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں اس انتہائی گھناؤنے عمل، کلب اور تقریب پر وہ شور کیوں برپا نہ ہوسکا جوکہ جامعہ اسلامیہ بہاولپور کے معاملے پر برپا ہوا؟
دارالحکومت اسلام آباد کے تعلیمی اداروں پر منشیات مافیا کی گرفت مضبوط ہے۔ نجی اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں منظم گروہ موجود ہیں جو کہ طلبہ و طالبات کو بلا تخصیص نشے کا عادی بنارہے ہیں، اس کے علاؤہ قحبہ گری وہاں عام سی بات ہے جس کو لڑکے لڑکی کی دوستی کا نام دیا جاتا ہے، اس پر کیوں ایسا شور برپا نہیں کیا جاتا؟
کراچی کی ایک نجی جامعہ میں ایک استاد نے طلبہ کو غیر اخلاقی اسائنمنٹ دیا کہ جس پر شور کرنے پر یونیورسٹی انتظامیہ نے اس استاد کو فارغ کردیا۔ طلبہ نے اس ضمن میں اور بھی الزامات عائد کیے لیکن ان الزامات کی بازگشت میڈیا میں سنائی نہ دے سکی کیونکہ یہ معاملہ نجی جامعہ کا تھا، اگر معاملہ کسی سرکاری جامعہ کا ہوتا تو میڈیا پر اس کا بھرکس نکال دیا گیا ہوتا۔
ان پے در پے میڈیا ٹرائل سے سرکاری جامعات کو اب منظم طور پر غیر معتبر اور غیر مقبول بنایا جارہا ہے، اور اس کے مقابلے میں نجی جامعات کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ دار محض تعلیم کے لیے نہیں بلکہ اپنے سرمائے کی مزید بڑھوتری کے لیے اس میدان میں ڈیرے ڈال چکے ہیں۔ دوسری جانب حکومت بھی اعلیٰ تعلیم سے اپنی جان چھڑانا چاہتی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد اضافے کے باوجود سرکاری جامعات کی گرانٹ میں اضافے کے بجائے مزید کمی کردی گئی ہے۔ لہٰذا اب اس کا بوجھ طلبہ کو فیسوں میں اضافے کی صورت میں برداشت کرنا ہوگا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اصل مسئلے یعنی تعلیمی بجٹ، معاشرے کی زوال پذیر صورت حال، سرکار کی تعلیم سے عدم دلچسپی اور نجی جامعات پر روک لگانے کے لیے کوئی آواز بلند ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اگر ایک لمحے کے لیے اس مبینہ اسکینڈل کو درست مان لیا جائے تو جس معاشرے میں ہر پانچ میں سے ایک لڑکی نشے، فحاشی یا قحبہ گری کا شکار ہے اُس معاشرے کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا فحاشی اور نشے کا معاملہ پورے ملک کے تعلیمی اداروں میں نہیں پھیل رہا؟ تو اس پر یکساں مؤقف کیوں اختیار نہیں کیا جارہا؟
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ سرکاری اسکول اور کالج تباہ ہوچکے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں اس کی لاتعداد مثالیں موجود ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں بھی ایک بڑی تعداد اب نجی اسکولوں اور کالجوں کا رخ کررہی ہے۔ بہرکیف معتبر تعلیمی ادارے اب بھی سرکاری جامعات ہی ہیں، لہٰذا ان کی موجودگی میں نجی جامعات کا سکہ اس طرح نہیں چل پارہا جس طرح اسکولوں و کالجوں کا چل رہا ہے، لہٰذا اس سازش میں بدقسمتی سے میڈیا اور ان کے مالکان بھی شامل ہیں تاکہ اعلیٰ سرکاری تعلیمی اداروں کو بدنام کرکے نجی جامعات کی راہ مزید ہموار کی جائے۔
اس پر سب سے پہلے سیاسی جماعتوں ، اساتذہ و طلبہ تنظیموں کو اپنی آواز بلند کرنا ہوگی، ورنہ نجی جامعات کی صورت میں غریب و متوسط طبقے سے اعلیٰ تعلیم تک رسائی کا رہا سہا حق بھی چھین لیا جائے گا۔