پانچ اگست 2019ء سے پانچ اگست 2023ء تک

پانچ اگست 2019ء … پانچ اگست 2023ء چار برس بیت گئے جب بھارت میں بی جے پی کی فاشسٹ حکومت نے انتہا پسند سوچ کے حامل وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35 اے کو منسوخ کر کے بھارت کے غیر قانونی قبضہ والے کشمیر کی خصوصی ریاست کی حیثیت ختم کر دی تھی اور کشمیری عوام کے زبردست احتجاج کے سبب پوری وادی کو بھارتی فوج کے حوالے کر دیا گیا۔ تمام حریت قیادت کو نظر بند کر دیا گیا، ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ پر پابندیوں کے ذریعے ریاست کا باقی دنیا سے رابطہ منقطع کر دیا گیا، عوام کی زندگی اجیرن بنا دی گئی اور فوجی محاصرے میں انہیں تمام انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں سے محروم کر دیا گیا۔ جرأت و بہادری اور استقامت کے کوہ گراں کشمیری عوام کی آزادی کی علامت، قائد حریت سید علی گیلانی اور ان کے جانشین اشرف صحرائی اسی دوران قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں مگر کشمیری عوام آج بھی فوجی سنگینیوں کے سائے تلے ایک بڑی جیل اور عقوبت خانے میں زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہیں۔ موجودہ حریت قیادت نے پانچ اگست کو ایل او سی کے دونوں جانب ’یوم سیاہ‘ منانے کا اعلان کیا ہے، مضبوضہ جموں و کشمیر میں اس موقع پر مکمل ہڑتال جب کہ آزاد و مقبوضہ دونوں حصوں میں احتجاجی مظاہرے، ریلیاں، سیمینار اور دوسرے پروگرام منعقد کئے جائیں گے۔ جن کے ذریعے بھارت کے کشمیر پر غاصبانہ قبضے اور فوجی مظالم کو اجاگر کیا جائے گا اور عالمی برادری پر زور دیا جائے گا کہ وہ بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیر عوام کے حق خودارادیت کو عملاً تسلیم کرنے اور مقبوضہ ریاست میں بھارتی فوجیوں کے مظالم اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں سے روکنے پر مجبور کرے۔ حریت قیادت نے پاکستانی قیادت اور حکومت سے بھی توقع ظاہر کی ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر مسلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنی کوششوں کو مزید تیز اور موثر بنائے گا۔ جہاں تک پاکستانی قیادت کا تعلق ہے، اگست 2019ء کے اقدام کے وقت یہاں کی حکومت نے بہت سے اعلانات کئے تھے اور احتجاجی اقدامات کا بھی اعلان کیا تھا مگر افسوس کہ ان احتجاجی اعلانات پر چند ہفتے بھی سرکاری سطح پر سنجیدگی سے عمل نہیں کیا گیا البتہ بھارت سے تجارت بند کرنے اور سفارتی تعلقات کی سطح کو کم تر سطح پر لانے کے اقدامات تاحال جاری ہیں۔ البتہ موجودہ حکمرانوں کی جانب سے بھارت سے تجارت بحال کرنے سے متعلقہ بے چینی کا اظہار اکثر کیا جاتا رہتا ہے تاہم عوامی رد عمل کے خوف سے وہ اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے میں تاحال کامیاب نہیں ہو سکے… جہاں تک پاکستانی عوام کا تعلق ہے وہ اپنے کشمیری بھائیوں سے دامے، درمے اور سخنے تعاون پر ہمیشہ تیار رہتے ہیں جس کا اظہار ہر سال پانچ فروری کو ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ کے موقع پر پوری پاکستانی قوم کی طرف سے کیا جاتا ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ حکمران زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

کشمیر کی آزادی پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، خود بانی پاکستان، بابائے قوم، محمد علی جناح نے کشمیر کی اسی اہمیت کے پیش نظر اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، ظاہر ہے شہ رگ اگر دشمن کے قبضہ میں ہو تو باقی جسم کی سلامتی بھی خطرے میں رہتی ہے، بابائے قوم کی یہ دور اندیشی اور بصیرت ہی تھی کہ انہوں نے قیام پاکستان کے فوری بعد جب کہ یہ مملکت خداداد خود بے پناہ مسائل سے دو چار تھی اور وسائل نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی، اس بے سروسامانی کے عالم میں جنگ یا مسلح کشمکش کی جانب بڑھنا آسان نہیں تھا مگر بانی پاکستان نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی آزادی و خود مختاری اور سالمیت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ’’کشمیر بزور شمشیر ‘‘ کا مشکل فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگائی، اور یہ ان کے خلوص نیت اور قوم کے جذبہ جہاد کی برکت تھی کہ مجاہدین تھوڑے ہی عرصہ میں اپنے وطن کی شہہ رگ کا اچھا خاصا حصہ دشمن کی گرفت سے آزاد کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ مگر پھر بین الاقوامی سازشی عناصر بروئے کار آئے اور جہاد بوجوہ روک دیا گیا۔ ہم عالمی استعمار کے آلۂ کار اقوام متحدہ نامی ادارے کی قرار دادوں کے چکر میں پھنس گئے جن کے ذریعے یہ فریب دیا گیا کہ کشمیر کے عوام کو یہ حق دیا جائے گا کہ وہ استصواب رائے کے ذریعے فیصلہ کریں کہ اپنا مستقبل پاکستان سے وابستہ کرنا چاہتے ہیں یا بھارت سے۔ اقوام عالم کی اس یقین دہانی اور وعدے کو پون صدی بیت چکی مگر یہ وعدہ وفا نہیں ہو سکا، البتہ کشمیر کے بے بس اور مجبور لوگوں پر بھارتی فوج کے مظالم اور جورو جفا میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، پاکستان کی شہ رگ تاحال پنجۂ ہنود میں ہے اور اس میں سے مظلوموں کا لہو مسلسل ٹپک رہا ہے۔ عالمی برادری بھارتی فوج کے اس ظلم و ستم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر قرار دادیں اور رپورٹیں تو پیش کرتی رہتی ہے مگر کشمیری عوام کو اس ناگفتہ بہ صورت حال سے نجات دلانے اور بھارتی حکومت اور فوج کے مظالم رکوانے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھانے، ظالم کا ہاتھ پکڑنے اور مروڑنے پر قطعی تیار نہیں، حالانکہ اس سے کہیں کم تر سطح کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دیگر بہانہ تراشیوں کے ذریعے پاکستان، ترکی، ایران اور افغانستان جیسے ممالک کے خلاف مختلف النوع پابندیاں عائد کرنے میں کسی تاخیر یا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ عالمی برادری کے اس طرز عمل سے بھارت کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اور وہ کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے نہایت تیز رفتاری سے اقدامات کرتا چلا جا رہا ہے۔ پانچ اگست 2019ء کا اقدام بھی اس سلسلے کی اہم کڑی ہے جس کے بعد بھارتی حکومت نہایت تندہی سے جموں و کشمیر میں مسلمان آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے کوشاں ہے، غیر مسلم غیر کشمیری لوگوں کو باہر سے لا کر یہاں بسایا جا رہا ہے، دیہات میں بسنے والے کشمیری، مسلمانوں کو دھونس، دھاندلی، جبر اور لالچ کے ذریعے ان کی زمینوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے، کشمیر میں مسلمان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں کی سیاسی و سماجی تہذیب و ثقافت کو بھی ختم کیا جا رہا ہے اسی طرح کشمیری مسلمانوں کی اقتصادی ناکہ بندی کر کے انہیں معاشی لحاظ سے مفلوج کیا جا رہا ہے مگر اس سب کچھ کے باوجود عالمی برادری کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ تاہم اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ صورت حال یہ ہے کہ غیر مسلم دنیا تو ایک طرف مسلم ممالک کی حکومتیں، بلکہ خود پاکستان کے حکمران اور مقتدر قوتیں بھی کشمیری مسلمانوں اور اپنی شہہ رگ کو دشمن کے تسلط سے آزاد کرانے کے لیے کسی عملی اقدام سے گریزاں ہیں اور بھارت سے امن و دوستی کی پینگیں بڑھانے اور تجارت و سفارت کاری کو فروغ دینے کے لیے بے تاب ہیں۔ انہیں ذرہ برابر احساس نہیں کہ ان کے اس طرز عمل کے کس قدر منفی اثرات خود پاکستان کی سالمیت پر مرتب ہوں گے… (حامد ریاض ڈوگر)