سیما حیدر،سچن مینا کی کہانی ”پب جی“ کا شاخسانہ یا منصوبہ بند ”ڈراما“

ہماری خواتین اور نوجوان بچیاں موبائل کے ذریعے ایسی مصیبت میں پھنس جاتی ہیں جہاں سے نکلنا بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے

آج کل گلے میں رادھے کا اسکارف اور منگل سوتر پہنے، ہاتھ میں سرخ چوڑیاں اور ماتھے پر لال بندیا لگائے سچن مینا کے دو کمروں والے گھر میں شدید گرمی کے باعث پسینے سے شرابور صحافیوں، کیمروں اور مائیکوں سے گھری سیما حیدر بڑے اعتماد کے ساتھ سوالوں کے جواب دیتی نظر آرہی ہے۔قریب ہی سچن مینا بھی خاموش بیٹھا دکھائی دیتا ہے۔

انڈیا کے بڑے نیوز چینلز کے اینکرز، رپورٹرز سے لے کر درجنوں یوٹیوبرز سیما سے بات کرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ کچھ صحافی سیما کے بچوں کو ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگانے پر اکساتے ہوئے ان بچوں کی گفتگو کو اپنے کیمروں میں قید کر تے دکھائی دیتے ہیں۔

ہندو تنظیموں کے لوگ بھی سیما سے ملنے جوق درجوق آرہے ہیں۔سیما کو آشیرواد دیتے ہوئے یہ لوگ اس کے ہاتھ میں پیسے اور گفٹ پکڑا کراس کے ساتھ ایسے تصویریں کھنچواتے ہیں جیسے کہ وہ کوئی سیلیبرٹی ہو۔

جے شری رام کے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں جب کہ کچھ لوگ سیما سے گھر میں لگے تلسی کے پودے کو پانی دینے اور تلسی کی پوجا کرنے کی وڈیو بھی بناتے ہیں۔

آخر سیما حیدر نے ایسا کون سا کارنامہ سر انجام دیا ہے جس پر انڈین میڈیا اس کے صدقے واری جارہا ہے….!

کیا آپ جاننا چاہیں گے کہ وہ کارنامہ کیا ہے؟

وہ کارنامہ یہ ہے کہ پاکستان سے سیما انڈین ہندو لڑکے سچن مینا کی محبت میں چار بچوں سمیت بذریعہ نیپال غیر قانونی طور پر انڈیا پہنچ گئی۔ اسلام چھوڑ کر ہندو دھرم قبول کرلیا۔ بچوں کے نام بھی ہندوؤں والے رکھ دیے۔ پاکستان اور اسلام پر سوالات کھڑے کردیے۔

29 سالہ سیما غلام حیدر شادی شدہ، چار بچوں کی ماں، پب جی کھیلتے کھیلتے انڈین 22 سالہ سچن مینا سے دوستی اور واٹس ایپ کے ذریعے محبت کر بیٹھتی ہےاور اپنے خاوند سے طلاق لیے بغیر مکان بیچ کر سچن سے نیپال میں شادی کرلیتی ہے۔ وہ چار بچوں کو لے کر کراچی سے دبئی اور دبئی سے نیپال پہنچتی ہے۔ وہاں سے بس کے ذریعے انڈیا پہنچ جاتی ہے۔ ایک ماہ سچن کے ساتھ رہنے کے بعد انڈین پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہو کر ضمانت پر رہا ہو کر ہندو مذہب قبول کرلیتی ہے۔

خاتون کے شوہر غلام حیدر کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس کے بیوی بچوں کو واپس لایا جائے۔ اس کے شوہر کے بیان کے مطابق اس نے رانگ کال کے نتیجے میں ہونے والی محبت کے نتیجے میں سیما سے خاندان کی مخالفت اور جرگہ کو جرمانہ ادا کرکے پسند کی شادی کی تھی۔

بظاہر دیکھا جائے تو یہ ایک خاتون کا ذاتی معاملہ ہے جس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن جس طرح سیما حیدر بھارتی میڈیا کی سرخیوں میں ہے اور تمام میڈیا پلیٹ فارمز پر اس کے انٹرویو چلائے جارہے ہیں، اس سے معاملہ مشکوک ہوگیا ہے۔

سیما کے لیے میڈیا کے رش کا یہ عالم ہے کہ سچن مینا کے دو کمروں والے گھر میں ایک رجسٹر رکھا ہے جہاں پر میڈیا اپنی انٹری کرتا ہے، لائن لگتی ہے، پھر سیما کے انٹرویو کی باری اتی ہے۔

بڑے بڑے بالی وڈ اسٹارز کے لیے میڈیا کی اتنی بھیڑ نہیں لگتی جتنی سیما حیدر کے انٹرویو کے لیے دو کمروں کے مکان کے باہر لگی ہوئی ہے۔

بھارتی میڈیا اس معاملے کو ایک لو اسٹوری، فلم غدر کی کہانی اور ایک انسانی معاملے کے طور پر پیش کررہا ہے۔ جبکہ سوشل میڈیا پر انڈیا کے عوام اس معاملے کو ناپسند کررہے ہیں اور شدید ناراضی کا اظہار کررہے ہیں۔ کوئی سیما کو آئی ایس آئی کا ایجنٹ تو کوئی ہوس کی ماری کہہ رہا ہے۔ پاکستان کے سوشل میڈیا پر اسے را کا ایجنٹ کہا جارہا ہے۔

انڈیا کے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سیما کو انڈین قوانین کے مطابق حراستی مرکز میں رکھا جانا چاہیے تھا لیکن وہ غیر معمولی طور پر سچن کے گھر میں اس کی بیوی کی حیثیت سے رہ رہی ہے اور میڈیا کو دھڑلے سے انٹرویوز دے رہی ہے۔ سیما کو انتظامیہ کی جانب سے جو نرمی اور توجہ مل رہی ہے وہ ناقابلِ فہم ہے۔

ماہرین کے مطابق ایسا کیس کبھی نہیں دیکھا کہ کوئی پاکستانی غیر قانونی طریقے سے انڈیا پہنچا ہو اور اسے اتنی پذیرائی مل رہی ہو۔ مثال کے طور پر بہت سے پاکستانی اجمیر کا ویزہ نہ ہونے کے باوجود اجمیر کی درگاہ کی زیارت کے لیے جاتے ہیں اور گرفتار کرلیے جاتے ہیں، اور پھر وہ برسوں تک جیل میں سڑتے رہتے ہیں۔ مگر سیما کا معاملہ پراسرار لگ رہا ہے۔

میجر گورو آریا نے بھی اپنے ایک وڈیو پیغام میں سوال اٹھایا ہے کہ سیما بہت روانی سے ہندی کے الفاظ ادا کررہی ہے، وہ کیمرے کے سامنے بڑے اعتماد سے جواب دیتی ہے۔ عام بندے سے تو کیمرے کے سامنے بولا ہی نہیں جاتا۔ بقول میجر گورو: ہر سوال کا جواب پیار نہیں ہوتا۔

انڈیا میں کیسے داخل ہوئی۔۔ پیار میں۔

چار بچوں کے باپ کو کیوں چھوڑا۔۔۔ پیار میں۔

ہندو دھرم کیوں اپنایا۔۔۔ پیار میں۔

میجر گورو آریا کے مطابق میڈیا بھارتی عوام کو پیار کا چورن کھلا رہا ہے اور فلم غدر سے ان کی پریم کہانی کو جوڑ رہا ہے۔

جبکہ میڈیا پر اس معاملے میں قانونی پہلو پر کوئی گفتگو نہیں ہورہی، اور پھر نیپال میں شادی کا کوئی دستاویزی ثبوت بھی سامنے نہیں ایا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیما اگر غیر مسلم ہوتی اور سچن مسلمان ہوتا تو اُس وقت بھی میڈیا کا رویہ ایسا ہی ہوتا؟

سچن مینا میں ایسی کیا خوبی ہے کہ جو ایک شادی شدہ عورت کو دو چار بچوں سمیت شوہر اور دینِ اسلام اور اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور کردے۔۔۔؟

سچن جو کہ ایک کریانہ کی دکان پر ماہانہ 13 ہزار روپے بمشکل کماتا ہے۔ اس کی غریبی اور ظاہری شکل کو بھی اگر تھوڑی دیر کے لیے نظرانداز کیا جائے تو انسان کے اندر کا حسن اس کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے، لیکن سچن کی گفتگو ہمیں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی کہ جس سے یہ اندازہ ہوسکے کہ سیما اس کی گفتگو کے سحر کا شکار ہوئی ہے۔ سچن میں کسی طور پر بھی ایک خاتون کو دلچسپی پیدا نہیں ہوسکتی۔

سچن تو اس سارے منظر میں ایک مہمان اداکار کے طور پر سامنے نظر ارہا ہے۔

اپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے سال دعا زہرا کا کیس بھی کچھ اس سے ملتا جلتا تھا، وہ بھی پب جی گیم کا ہی شاخسانہ تھا، اور وہ لڑکا ظہیر مہمان اداکار کی طرح ایسے ہی میڈیا پر نظر اتا تھا جبکہ دعا زہرا میڈیا کو جوابات دیتی اور مطمئن کرتی نظر آتی تھی۔ لیکن تحقیق کے بعد اس کہانی کے اصل کردار کچھ نامعلوم بردہ فروش تھے۔

سیما حیدر کے کیس کے بھی کئی پہلو ہوسکتے ہیں:

1-جو کچھ میڈیا پر نظر ارہا ہے اگر وہی سچ ہے اور چند ماہ میں کوئی تبدیلی نظر نہیں اتی تو یہ معاملہ خود ہی قصہ پارینہ بن جائے گا جیسا پاکستان کی اقرا کی محبت کی کہانی کا انجام ہوا تھا۔اقرا، جو اپنے ہندو عاشق سے آن لائن لوڈو گیم کے ذریعے ملی تھی۔ دونوں نے نیپال میں شادی کی۔ اقرا نے ہندو مذہب بھی قبول کیا لیکن بعد میں قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ لہٰذا اسے ڈی پورٹ کردیا گیا۔

2- سیما کو انڈین میڈیا کی جانب سے اہمیت دینے کے پسِ پشت سندھ میں اسلام قبول کرنے والی ہندو لڑکیوں کو تحفظ فراہم کروانے والے پیر مٹھو سائیں کو پیغام دینا ہے کہ اگر تم ہندو لڑکیوں کو قبولِ اسلام کروانے سے باز نہ ائے تو اسلام اور پاکستان کو اس طریقے سے پوری دنیا میں بدنام کیا جائے گا۔

(سیما حیدر کے لہجے اور گفتگو سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے جیسے وہ ماضی میں ہندو تھی جسے قبولِ اسلام کروایا گیا ہو۔ اس کی وجہ سے اُسے اسلام سے اتنی شناسائی نہیں ہے جتنا اُسے ہندو ازم اور ہندی زبان سے ہے۔)

3-جس طرح سیما حیدر کو انڈیا میں ہاتھوں ہاتھ لیا جارہا ہے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کام کے پیچھے کوئی ہندو گٹھ جوڑ اپنی ساری مالی معاونت کے ساتھ موجود ہے جس نے سیما کو مال و زر کا لالچ دے کر اس کام پر مائل کیا اور سچن کو بھی، کیونکہ ان دونوں کے درمیان لو اسٹوری والی کوئی کیمسٹری دکھائی نہیں دیتی، اور نہ ہی سچن میں کوئی ایسی قابلیت ہے کہ جس پر کوئی لڑکی مر مٹے اور اتنا بڑا قدم اٹھا لے۔ سچن کی حالت ایسی لگتی ہے جیسے وہ استعمال ہورہا ہے، اس میں ہیرو جیسی کوئی دبنگ کوالٹی نہیں ہے۔

انڈین چینلز کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک پاکستانی یوٹیوبر اور وی لاگر سید باسط علی نے انکشاف کیا ہے کہ سیما کی سہیلی نے میڈیا پر آکر یہ بیان دیا ہے کہ سیما سچن کے پیار میں اتنا کچھ کرکے انڈیا نہیں پہنچی، بلکہ اس ساری کہانی کے پیچھے اصل کردار ایک اہم ہندو سیاسی شخصیت کا ہے جس سے سیما کا گہرا تعلق ہے۔ اسی ہندوستانی سیاست دان نے سیما کو نیپال سے انڈیا کے بارڈر میں داخلے کے لیے سپورٹ فراہم کی ہے۔

4- اس معاملے کا ایک رخ یہ بھی سمجھ میں اتا ہے کہ پاکستان کے پسے ہوئے سماج میں سے ایسے انسانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو اپنا مذہب چھوڑ کر ہندومت اختیار کرلیں۔ بھارت میں ایسی کئی تحریکیں موجود ہیں جو کہ دیہاتی مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنادیتی ہیں۔ اس طرح گاؤں کے گاؤں ہندوازم میں لائے گئے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہندوازم کو سچا اور اسلام کو جھوٹا قرار دیا جائے اور ہندوستان میں مسلمانوں کا حوصلہ پست ہوجائے۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اب تک سیما حیدر کو پاکستان کی طرف سے کوئی قانونی یا سفارتی مدد نہیں دی گئی اور نہ ہی صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی تنظیموں یا بیرون ملک قیدیوں کی مدد کرنے والی کسی تنظیم نے کوئی توجہ دی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستانی ادارے سیما حیدر کے سارے معاملے کی تحقیقات کرتے کہ وہ کہاں رہتی تھی اور کس طرح انڈیا پہنچی اور اس کے کن لوگوں سے روابط تھے۔ کوئی باقاعدہ تنظیم یا گروہ اس کام کے پیچھے تو نہیں؟ بالخصوص اس پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ کہیں اس کے بچوں کو یرغمال بناکر کوئی سیما کو اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے پر مجبور تو نہیں کررہا؟ کہیں وہ ممتا کے ہاتھوں مجبور ہوکر بلیک میل تو نہیں ہورہی؟۔ اس سارے معاملے میں دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے۔ بھارتی سفارت خانے سے شادی کے بعد ویزہ لینے کے بجائے نیپال کا جو کوریڈور استعمال کیا گیا ہے اس کے بارے میں پوری دنیا جانتی ہے کہ یہ بھارتی ایجنسی کا ہی کوریڈور ہے۔ شادیوں کے معاملات ہمیشہ سفارت خانے کے ذریعے ہوتے ہیں، لیکن انہوں نے اپنے سفارت خانے کو جان بوجھ کر استعمال نہیں کیا تاکہ ایسے مزید کیسز سامنے آئیں۔

پاکستان کی کثیر آبادی خصوصاً خواتین، انڈین ڈرامے اور فلمیں دیکھتی ہیں ان ڈراموں اور فلموں میں زیادہ تر غیر مسلم لڑکے اور مسلم لڑکی کی محبت دکھائی جاتی ہے اور اِس میں نام نہاد مسلم اداکار بھی ملوث ہوتے ہیں۔ موبائل فون بھی غیر مسلم تنظیموں کا ایک خاص ہتھیار ہے اور فیس بک، انسٹاگرام، واٹس ایپ، ٹیلی گرام اور اب لوڈو، پب جی گیم وغیرہ کے ذریعے بھی مکمل منصوبے کے ساتھ مسلم لڑکیوں کو پھانسا جارہا ہے۔ ہماری خواتین اور نوجوان بچیاں موبائل کے ذریعے ایسی مصیبت میں پھنس جاتی ہیں جہاں سے نکلنا بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے۔ آج کل تو ’’آن لائن تعلیم‘‘ کے نام پر لڑکے لڑکیوں کے لیے موبائل رکھنا ضروری کردیا گیا ہے۔

اِن تمام وجوہات کی وجہ سے غیر مسلم شرپسند تنظیموں کے لیے مسلم لڑکیوں کو مرتد (اسلام سے خارج) بنانا بہت ہی آسان ہوگیا ہے۔ یہ شرپسند تنظیمیں سالہا سال سے کوشش کرتے کرتے اب کامیابیاں حاصل کررہی ہیں، اور اب کھلے عام اعلان کررہی ہیں اور کوشش کررہی ہیں کہ مسلم لڑکیاں مرتد اور دین اسلام سے باغی ہوجائیں۔ اِس سلسلے میں باقاعدہ پلاننگ ہورہی ہے اور مسلم گھروں، علاقوں، محلوں، خاندانوں اور افراد کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ اِس سلسلے میں دولت، وسائل اور عیاشی کی تمام چیزیں مہیا کرکے غیر مسلم نوجوانوں کو تیار کیا گیا ہے۔ کئی کیسز میں معلوم ہوا ہے کہ ان نوجوانوں کو لاکھوں کی رقم، پلاٹ یا فلیٹ اور دیگر سہولتوں کی لالچ دی گئی۔ اِن سب کی چکاچوند اور جھوٹے پیار کے چکر میں مسلم لڑکیاں اندھی ہوکر گھروں سے بھاگ جاتی ہیں اور پھر انجام بعض دفعہ اجتماعی عصمت دری اور بدنام گلیوں میں بھٹکنا ہوتا ہے۔

اس لیے لڑکوں اور لڑکیوں کے ایمان و اخلاق محفوظ رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے جوڑا جائے۔

(1) قرآن، حدیث اور سیرتِ طیبہ کا روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ مطالعہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے لازم کر لیا جائے- دین کے فہم اور عشقِ مصطفیٰﷺ کے بغیر ایمان و اخلاق محفوظ نہیں رہ سکتے۔ دنیا کے کیریئر کے لیے آٹھ آٹھ گھنٹے پڑھنے والے اگر ایک گھنٹہ بھی دین اور سیرتِ النبیﷺ کے فہم کے لیے نکال لیں گے تو یہ زیادہ بڑی کامیابی کا باعث بن جائے گا ۔

(2) حرام سے اجتناب، شرم و حیا، پردہ اور دین پر عمل سے ہی دنیا و آخرت کی کامیابی ممکن ہے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات ماننے میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔ ماڈرن بننے کے چکر میں خود کو اور اپنے اہل و عیال کو شرم و حیا، اخلاق، ایمان اور پردے سے بے نیاز نہ کریں ورنہ ہر گھر میں سیما جیسا کردار پرورش پا رہا ہو گا۔

(3) علم و معلومات کے حصول، کاروبار اور دعوتی مقاصد کے سوا انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور آن لائن گیمز، ٹک ٹاک و دیگر ایپس کا استعمال وقت کا ضیاع ہے اور زیادہ تر بے حیائی کے فروغ کا باعث بنتا ہے- ان کے غلط استعمال سے خود بھی بچیں اور اپنے اہل و عیال کو بھی بچائیں۔

(4) جب کسی لڑکی کو ورغلا کر یا بھگا کر اس کے خاندان کی مرضی کے بغیر اس کے ساتھ شادی کی جائے گی تو وہ شرم و حیا اور اخلاقی اقدار سے بے نیاز ہوجائے گی۔ پھر اس لڑکی کو سیما کی طرح نئے عشق میں مبتلا ہوکر بچوں سمیت بھاگنے، خاوند چھوڑنے اور ایمان و اخلاق سے عاری ہونے سے بھی نہیں روکا جا سکتا۔