پھر غدار کون ؟

پاکستان کو کھوکھلا کرنے والے داخلی کردار

کشمیر میں دادِ شجاعت دینے والے مجاہدین کمانڈر پاکستان میں ہی سابق سیکورٹی اہلکار کے ہاتھوں قتل کردیے گئے جو کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کے لیے کام کررہا تھا۔ انٹیلی جنس بیورو نے نیٹ ورک تو پکڑ لیا لیکن بہت سے اہم سوالات ہمارے لیے چھوڑ گیا۔

جنرل پرویزمشرف کے دور میں افغانستان میں جو کچھ ہوا اور پاکستان میں بیس کیمپ سے امریکی ڈرون طیارے اڑان بھر کر افغانوں پر بمباری میں مصروف رہے، اور حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جیکب آباد ایئربیس کو ایئر چیف مارشل سے پوچھے بغیر امریکہ کے حوالے کردیا گیا اور بہت سی فوجی قیادت بھی اس سے لاعلم رہی۔ اس کے بعد اس جنگ کا جو نقصان پاکستان نے اپنے ملک میں دہشت گردی اور قتل و غارت گری کی صورت میں بھگتا وہ ایک الگ داستان ہے۔

اسی دور میں پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر سندھ طاس معاہدے کی بھارت کی جانب سے خلاف ورزی پر خاموش رہے اور درپردہ بھارت کا ساتھ دیتے رہے، جس کی بدولت بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے سندھ پر ڈیم بنالیا اور پاکستان کو ملنے والا پانی کم ہوگیا۔ اس بات کا پتا بہت دیر بعد چلا، اُس وقت تک پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر جماعت علی شاہ کینیڈا منتقل ہوچکے تھے، اور اس کے بعد اُن پر بھارت سے اس معاملے میں پیسے لینے کا بھی الزام لگا اور انہیں انٹرپول کے ذریعے واپس لانے کا اعلان بھی کیا گیا، لیکن تمام کوششیں تاحال کوئی نتیجہ نہ پاسکیں۔

اس دوران میں چیئرمین واپڈا جوکہ خود فوج کے اعلیٰ ترین افسران میں سے تھے، وہ کیوں اس معاملے سے بے خبر رہے، یا وہ بھی اس سازش میں ملوث تھے؟

پاکستان کو خاک و خون میں نہلانے والا پرویزمشرف بیرونِ ملک اپنے اور اپنی بیگم کے نام پر اکاؤنٹ میں ملین پاؤنڈز و ڈالرز رکھتا تھا لیکن اس کا بھی کبھی کوئی بال بیکا نہ کرسکا۔

امریکی دباؤ پر محسنِ پاکستان اور ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہیرو سے بناکر مجرم کی حیثیت سے عوام کے سامنے پیش کردیا گیا۔ اُن کو امریکہ کے حوالے کرنے کے تمام انتظامات مکمل تھے کہ اُس وقت کے وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی آڑے آگئے اور انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کردیا، اور اس پاداش میں ان کو وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے۔

کشمیر پر پاکستان کی پسپائی کا آغاز بھی اُسی دور میں ہوا جب خود پرویزمشرف نے کشمیر کو کئی خطوں میں تقسیم کرنے کی بات کرکے پاکستان کے نصف صدی سے زیادہ پرانے مؤقف کو شدید نقصان پہنچایا۔ وہ تو مردِ حریت سید علی گیلانی آڑے آگئے ورنہ کشمیر کا فیصلہ بھی اسی وقت ہوجاتا اور پاکستان کشمیر سے دست بردار ہوکر مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی جھولی میں ڈال دیتا۔

سی پیک کو رول بیک کرنے اور امریکہ کو پاکستان میں دوبارہ اپنی جگہ بنانے کا موقع کسی اور نے نہیں خود ہمارے اعلیٰ ترین ادارے نے فراہم کیا کہ جب ایک پیج کی حکومت بنانے کے لیے سارے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ میڈیا، عدلیہ، پولیس اور خود فوج کو استعمال کرکے آر ٹی ایس بٹھاکر ایک نئی حکومت انسٹال کی گئی جس کا اصل کام سی پیک پر کام کی رفتار کو کم کرنا تھا۔ اور وہی ہوا کہ سی پیک عملاً رول بیک ہوا، اور سی پیک کے ایک اہم ترین روٹ کے کور کمانڈر اور سابق ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل عاصم سلیم باجوہ جو کہ بعد ازاں وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے سی پیک بھی بنے اُن کے ملین ڈالرز کے کاروبار امریکہ میں دریافت ہوئے۔ یہ رقم کہاں سے آئی، تاحال اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا۔

ایسے کارناموں کی بھرمار ہے جن پر کئی کتب تحریر کی جاسکتی ہیں، لیکن گزشتہ دنوں دو فلمیں Spy اور The Angel دیکھنے کے بعد سے سوچ رہا تھا کہ پاکستان میں بھی نجانے کتنے Spy کے کردار ہو د ی علی کوہن کی طرح مسلمانوں کے بھیس میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہوں یا پھر The Angel کے کردار اشرف مارون کی طرح اسرا ئیل کو تسلیم کروانے کے مشن پر کام کررہے ہوں۔

یہ تو پیادے تھے جو انٹیلی جنس بیورو نے گرفتار کرلیے، اگر کبھی تاریخ لکھی گئی تو پاکستان کے مذکورہ بالا کرداروں کو بھی شاید اسی ضمن میں یاد کیا جائے۔

کیونکہ ان کرداروں نے پاکستان پر سے عوام کے اعتماد کو ختم کیا ہے اور اس کے ساتھ معاشی طور پر پاکستان کو کھوکھلا کردیا ہے… کہ جہاں بے یقینی، بھوک و افلاس ہو اُس قوم کو شاید کسی جنگ سے فتح کرنے کی ضرورت بھی نہ پڑے۔

یہی کام مشرقِ وسطیٰ میں انجام دیا جاچکا ہے کہ جہاں مصر، شام، لیبیا جیسی فوجی طاقتوں کو کسی بیرونی جنگ سے نہیں بلکہ اندرونی خلفشار اور خانہ جنگی سے تباہ کردیا گیا۔ یا پھر مصر میں اپنے کٹھ پتلیوں کو حکمران بنادیا گیا۔ عراق میں سنی و شیعہ کی تفریق نے بیرونی حملہ آوروں کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا۔ اب پورا مشرقِ وسطیٰ صاف ہے اور اسرائیل راج کررہا ہے۔

یہی کچھ پلاٹ پاکستان کے بارے میں بھی ہے۔ لہٰذا ابھی کھیل جاری ہے۔ اداروں کے اندر اور باہر ایک طویل فہرست ایسے کرداروں کی موجود ہے جو اس ملک کو کھوکھلا کررہے ہیں۔ اگر محض سابق سپاہی کو پکڑ کر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ بس کھیل یہیں تک تھا تو وہ شاید خود فریبی میں مبتلا ہے۔ یاد رکھیں اگر بلا تفریق کڑا احتساب نہ ہوا اور قومی مجرموں کو گارڈ آف آنر کے ساتھ دفن کرنے کا سلسلہ بند نہ ہوا تو خاکم بدہن پاکستان کا حشر بھی مشرق وسطیٰ جیسا ہوگا اور اس کو باہر سے نہیں بلکہ اندر سے توڑا جائے گا۔ وقت کم ہے اور مقابلہ ایک عیار دشمن سے ہے، لہٰذا اس وقت کو غنیمت جانیں۔ اگر یہ وقت ضائع کردیا گیا تو سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔