خیبرپختون خوا میں خودکش حملوں سمیت دہشت گردی کی وارداتوں میں اچانک تیزی سے جہاں سیکورٹی اداروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، وہاں مہنگائی کے ستائے صوبے کے عوام کا بھی امن وامان کے حوالے سے کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ صرف گزشتہ تین دنوں کے دوران سیکورٹی اہلکاروں اور پولیس کو کم از کم تین مختلف واقعات میں نشانہ بنایا گیا ہے جس میں 5 پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ سیکورٹی فورسز سمیت کئی پولیس اہلکار زخمی ہوگئے ہیں۔ ماہ محرم الحرام کے آغاز سے ایک روز قبل شروع ہونے والے دہشت گردی کے ان واقعات پر صوبے بھر میں سیکورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے۔ دہشت گردی کے ان تازہ واقعات میں منگل کو دوپہر کے بعد پشاور کے پوش علاقے حیات آباد فیز 6 میں ایف سی کی گاڑی کو خودکش حملہ آور نے نشانہ بنایا، جس میں سیکورٹی اہلکاروں سمیت 10 افراد زخمی ہوگئے۔ اس واقعے کے بعد بدھ کی رات تقریباً 12 بجے ریگی ماڈل ٹائون کے انٹری چیک پوائنٹ پر موجود پولیس اہلکاروں کو نامعلوم دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔ پشاور پولیس کے مطابق فائرنگ کے واقعے کے وقت انچارج نورالحق، کانسٹیبل فیروز، واجد، سیار اور ڈرائیور فرمان ڈیوٹی پر موجود تھے، جبکہ فائرنگ سے دو پولیس اہلکار شہید اور دو اہلکار زخمی ہوگئے، جاں بحق پولیس اہلکاروں کی شناخت ہیڈ کانسٹیبل امجد اور ڈرائیور فرمان کے ناموں سے ہوئی ہے، جبکہ زخمی اہلکار فیروز اور سیار خیبر ٹیچنگ اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ تھانہ ریگی ماڈل ٹائون پر حملے میں جاں بحق دونوں پولیس اہلکاروں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ایک ہی سال میں محکمہ پولیس میں بھرتی ہوئے تھے اور ایک ساتھ حملے میں شہید ہوگئے۔ پولیس حکام کے مطابق حملہ آوروں نے رات گئے اسنائپر تھرل ویژن اور ایم فور ہتھیاروں سے حملہ کیا تھا اور دونوں اہلکاروں کے سر پر گولیاں لگیں۔
اس واقعے کی اگلی صبح جمعرات کو باڑہ بازار تحصیل کمپائونڈ میں خودکش حملہ آوروں نے گھسنے کی کوشش کی، جبکہ دھماکوں کے نتیجے میں تین پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ 11 زخمی ہوگئے۔ پولیس کے مطابق جمعرات کے روز 2 خودکش حملہ آور جو پولیس کی وردی میں ملبوس تھے، موٹرکار میں اپنے ایک سہولت کار کے ساتھ آئے۔ انہوں نے حفاظتی اقدام کے تحت لگایا گیا خاردار تار کٹر کے ذریعے کاٹا۔ اس دوران ان کے سہولت کار نے گیٹ پر فائرنگ کردی جس کی آڑ میں دونوں خودکش حملہ آور گیٹ کے ذریعے تحصیل احاطہ میں داخل ہوگئے اور فائرنگ کی۔ پولیس اہلکاروں نے بھی خودکش حملہ آوروں پر جوابی فائرنگ کی جس سے دونوں حملہ آور ہلاک ہوگئے اور ان کی جیکٹس دھماکے سے پھٹ گئیں۔ خودکش حملہ آوروں کا سہولت کار موقع سے فرار ہو گیا۔ دھماکوں سے پولیس کے 3 اہلکار بہادر شیر، طیب اور محمد انور موقع پر شہید ہوگئے جبکہ 9 پولیس اہلکار اے ایس آئی محمد حنیف، کانسٹیبل بخت نواز، کانسٹیبل محمد جمیل، شمشاد، زبیر، عبدالہادی، گل زیب، محمد نواز، اے ایس آئی انور خان اور دو شہری محمد ارشد اور وارث خان زخمی ہوگئے۔ زوردار دھماکوں سے تحصیل عمارت کو بھی نقصان پہنچا۔ زخمیوں کو اسپتال منتقل کردیا گیا۔
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں زخمیوں کے عیادت کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کے دوران آئی جی پولیس خیبرپختون خوا اختر حیات خان نے بتایا کہ گزشتہ روز 2 دہشت گردوں نے باڑہ تحصیل کمپائونڈ میں گھسنے کی کوشش کی اور پولیس کو نشانہ بنایا، تاہم انٹیلی جنس ادارے کی 13 جولائی کی رپورٹ کی بنیاد پر سیکورٹی پہلے سے ہائی الرٹ تھی اور دہشت گردوں کو اپنے مذموم عزائم میں ناکام بنایا گیا۔ آئی جی پی نے بتایا کہ دہشت گردوں نے باڑہ تحصیل کمپلیکس پر دو طرف سے حملہ کیا، ایک دہشت گرد نے مرکزی اور دوسرے نے عقبی دروازے سے گھسنے کی کوشش کی جس پر باہر کھڑے اہلکاروں نے ایک دہشت گرد کو پہلے ہی مار دیا جبکہ دوسرے زخمی خودکش نے خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا، 7 سے 8 منٹ میں دونوں دہشت گردوں کو پسپا کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ پشاور اور خیبر میں تین واقعات مسلسل ہوئے ہیں، پہلے ایف سی اہلکاروں پر حملہ ہوا، پھر ریگی ماڈل ٹائون میں پولیس پر فائرنگ کی گئی اور اب یہ تیسرا واقعہ ہے۔ ایف سی پر حملے کے واقعے کی تحقیقات میں پیش رفت ہوئی ہے، حقائق جلد سامنے لائے جائیں گے۔ رواں سال دہشت گردی کا بڑا واقعہ پولیس لائنز پشاور میں پیش آیا۔ فروری، مارچ اور اپریل میں واقعات میں کمی آئی۔ دہشت گردی کے واقعات کو روکنا پولیس کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، پولیس کو اپنی اور معاشرے کی حفاظت کرنی ہے، صوبے میں ایک لاکھ 26 ہزار پولیس نفری ہے، تاہم نفری سے زیادہ ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں سیف سٹی پروجیکٹ بھی مکمل نہیں ہوسکا جس کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس نے ہمیشہ اپنی جانوں پر کھیل کر عوام کے تحفظ کو یقینی بنایا ہے اور پولیس اب بھی اپنے اس عزم پر قائم ہے۔
ان تینوں واقعات کے تسلسل میں گزشتہ روز تھانہ سربند پشاور کی ریاض شہید چوکی پر دہشت گردوں کا حملہ ناکام بنادیا گیا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ 8 دہشت گردوں نے تھانے پر رات گئے حملہ کرنے کی کوشش کی، تاہم پولیس کی فوری جوابی کارروائی سے وہ بھاگ گئے۔ واضح رہے کہ مذکورہ تھانے پر دہشت گردوں نے پہلے بھی حملہ کیا تھا جس میں ڈی ایس پی سمیت دیگر اہلکار جاں بحق ہوگئے تھے۔ حالیہ حملوں میں دہشت گردوں کی جانب سے جدید اسلحہ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ اسلحہ ان کے پاس کہاں سے آتا ہے؟ اس حوالے سے خیبر پختون خوا کے سابق پولیس سربراہ نے کہا تھا کہ ہوسکتا ہے شدت پسندوںکو نیٹو فورسز سے رہ جانے والا اسلحہ ہاتھ لگا ہو۔ تاہم دفاعی ماہرین کے مطابق شدت پسند مختلف طریقوں سے حملہ آور ہورہے ہیں، لہٰذا وقت کے ساتھ ساتھ پولیس اور سیکورٹی فورسز کو بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا ہوگی۔ ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ صوبے خصوصاً قبائلی و حساس اضلاع میں تعینات تمام سیکورٹی و پولیس اہلکاروں کی استعدادِ کار بڑھانے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ انہیں جدید اسلحہ سے لیس کیا جانا بھی ضروری ہے، بصورتِ دیگر ماضی کی دگرگوں صورتِ حال کو پلٹنے میں دیرنہیں لگے گی جس سے سارے صوبے کا نظام درہم برہم ہوگیا تھا۔
واضح رہے کہ خیبرپختون خوا میں گزشتہ سال کی نسبت امسال دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہواہے۔ مجموعی طور پر ایک سال کے دوران 14 خودکش دھماکوں سمیت دہشت گردی کے 650 سے زائد مختلف واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سیکڑوں شہادتیں ہوئیں۔ اس ضمن میں سی ٹی ڈی نے ایک سالہ رپورٹ جاری کردی ہے جس کے مطابق گزشتہ دنوں پشاور اور ضلع خیبر میں دہشت گردی کے 3 بڑے واقعات رونما ہوئے۔ سی ٹی ڈی کے مطابق خیبرپختون خوا میں جون 2022ء سے جون 2023ء تک دہشت گردی کے 660 سے زیادہ واقعات پیش آئے ہیں جس میں 14 خودکش اور 15 راکٹ حملے بھی شامل ہیں۔ سب سے زیادہ 140 واقعات شمالی وزیرستان میں ہوئے، جبکہ ڈی آئی خان میں 81، پشاور میں 56، باجوڑ میں 55 اور جنوبی وزیرستان میں دہشت گردی کے 49 واقعات رپورٹ ہوئے۔
اس دوران محکمہ انسدادِ دہشت گردی نے گزشتہ 6 ماہ کے دوران دہشت گردوں کے خلاف 1152 آپریشن کیے جن میں 432 شدت پسند گرفتار جبکہ 139 مارے گئے۔ مجموعی طور پر صوبے بھر میں107 دستی بم حملے اور فائرنگ کے 382 واقعات پیش آچکے ہیں جس سے صوبے میں امن وامان کی ناگفتہ بہ صورتِ حال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
خیبرپختون خوا میں بدامنی کے تازہ واقعات کے حوالے سے ایک حیران کن امر اب تک ان حملوں کی ذمہ داری کا کسی بھی تنظیم کی جانب سے قبول نہ کیا جانا ہے، حالانکہ ماضی میں اس طرح کے واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے ساتھ ہی ٹی ٹی پی سمیت مختلف تنظیمیں ذمہ داری قبول کرلیتی تھیں۔
اس تمام صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے، نیز اس صورتِ حال پر عبوری صوبائی حکومت… جس کا صوبے کی گورننس سے زیادہ فوکس دیگر معاملات پر ہے اور جس میں شامل پی ڈی ایم اور اُس کی اتحادی 12 جماعتوں کے بھان متی کے کنبے میں اندرونی اختلافات زوروں پر ہیں… سے یہ توقع رکھنا کہ ایسے حالات میں جب عاشورہ محرم کی آمد آمد کے ساتھ عام انتخابات کی تاریخ بھی قریب آتی جارہی ہے، یہ لوگ اس بڑے چیلنج کافرنٹ فٹ پر مقابلہ کرسکیں گے، محض خوش فہمی نظر آتی ہے۔