کوئٹہ: جماعت اسلامی کے زیر اہتمام امن جرگہ

خضدار کے علاقے وڈھ میں قبائلی کشیدگی

صوبہ بلوچستان سیاسی و سماجی اعتبار سے بد سے بدتر کی طرف جارہا ہے۔ یقیناً سیاسی جماعتیں جو حکومتوں کا حصہ بنتی ہیں اور اسمبلیوں میں نمائندگی رکھتی ہیں، ان کا بھی اس میں کردار ہے۔ حکومتیں کاروبار اور مال بنانے کا ذریعہ ٹھیری ہیں۔ اس طرح طرز حکمرانی مزید بگڑی دکھائی دیتی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے22 جولائی کو کوئٹہ میں منعقدہ امن جرگہ میں نشاندہی کی ہے کہ بلوچستان میں بدعنوانی کی شرح 65 فیصد ہے اور بجٹ کا 70 فیصد غیر ترقیاتی کاموں کی نذر ہوجاتا ہے۔ بقول سراج الحق: ’’صوبے کے اندر 83 فیصد بچیاں اسکول نہیں جاتیں، اور27لاکھ بچوں میں سے19لاکھ تعلیم سے محروم ہیں‘‘۔ اسی طرح جملہ شعبے ابتری کا نمونہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ سوال اگر حکومتی نمائندوں سے کیا جائے تو وہ ایسے کسی اشاریے کے سرے سے قائل ہی نہیں۔ پہلے حزبِ اختلاف نکتہ چینی کرتی تھی، مگر اب تو وہ بھی حکومت کا حصہ ہے۔ نہ ہی حزبِ اختلاف مراعات اور منصوبوں سے محروم رہی ہے۔

امن کی صورتِ حال خراب، اور حالات غیر یقینی کا شکار ہیں۔ کالعدم مسلح گروہ اپنی جگہ، یہاں جا بجا سیاسی اور قبائلی لوگوں کی نجی ملیشیائیں قائم ہیں۔ نوابی اور سرداری کا ٹائٹل لے کر پیسے والے خودکار اسلحہ کی راہداری لے کر محافظوں کا جتھہ قائم کرلیتے ہیں۔ امیرجماعت اسلامی نے اس پروگرام میں مسلح جتھوں اور لشکر کے پہلو پر بات کی کہ ان کے پاس جدید اسلحہ ہے، یہ چلن قبائلی جھگڑوں کا باعث بنتا ہے، اکثر لوگوں کو لیویز اور پولیس اہلکار تحفظ کے لیے دیے گئے ہیں۔

خضدار کے علاقے وڈھ میں سردار اختر مینگل اور میر شفیق الرحمان کے درمیان کشیدگی سنگین مسئلہ ہے جو سر اٹھاتا رہتا ہے۔ یہ تنازع سیاسی پس منظر بھی رکھتا ہے۔ قبائلی نزاع اور اس کی بنیاد پر برابری کا تصور بھی البتہ وجہ ہے۔ حالیہ دنوں میں ایک بار پھر ان کے درمیان کشیدگی بڑھی۔ وجہ زمین پر حقِ ملکیت بتائی جاتی ہے۔ سردار اختر مینگل اسے سیاسی انتقام باور کراتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں ڈسٹرکٹ چیئرمین اور وائس چیئرمین کے انتخاب کی وجہ سے بھی تنازعے کو بڑھاوا ملا۔ شفیق مینگل کے جھالاوان عوامی پینل نے اختر مینگل کے مخالف نواب ثناء اللہ زہری سے اتحاد کیا اور ڈسٹرکٹ وائس چیئرمین منتخب کرانے میں کامیاب ہوئے، اور ڈسٹرکٹ چیئرمین ثناء اللہ زہری کے حامی پیپلز پارٹی کے امیدوار بنے۔ کئی ہفتوں سے بڑی تعداد میں فریقین کے لوگ جدید اور بھاری اسلحہ لے کر مورچہ زن تھے۔ بالآخر 20 جولائی کو تصادم شروع ہوا، مارٹر گولے اور راکٹ داغے گئے۔ ایک مارٹر گولہ سرکاری کالج کی عمارت پر لگا، ایک اختر مینگل کی رہائش گاہ کے عقب میں گرا جس سے تین لوگ زخمی ہوئے۔ مجموعی طور پر سات افراد زخمی ہوئے۔ کشیدگی کے پیش نظر وڈھ بازار، اسکول اور تعلیمی ادارے بھی بند ہوگئے، کراچی کوئٹہ شاہراہ پر ٹریفک معطل کردی گئی۔ سردار اختر مینگل اسلام آباد میں تھے، انہوں نے وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقات کی، بلوچستان نیشنل پارٹی نے بلوچستان اسمبلی میں معاملہ اٹھایا، صوبے کے مختلف علاقوں میں مظاہروں کا اہتمام کیا، کہیں کہیں شفیق مینگل کے لوگ بھی احتجاج کے لیے نکلے۔ بلوچستان اسمبلی میں تمام جماعتوں کے پارلیمانی رہنمائوں کا اجلاس ہوا۔ چند وکلا نے جو بی این پی کے حامی تھے، بلوچستان ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی۔ چناں چہ نواب اسلم رئیسانی اپنے بھائی لشکری رئیسانی اور دوسرے معتبرین کے ہمراہ خضدار گئے۔ حکومتی نمائندے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو وڈھ کی صورتِ حال کے پیش نظر بیچ میں پڑے۔ زمین پر دعوے کی بات سامنے آئی ہے۔ نواب اسلم رئیسانی سراوان قبائل کے چیف ہیں۔ خان ثانی کا منصب بھی چیف آف سراوان کے پاس ہوتا ہے۔ نواب رئیسانی نے وڈھ پہنچ کر سردار اختر مینگل کے بھتیجے اسد مینگل اور دوسرے بڑوں سے ملاقات کی، پھر شفیق الرحمان مینگل سے ملے۔ اس طرح جنگ بندی کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ نیز غلام سرور موسمیانی کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی میں دو افراد سردار اخترمینگل اور دو نمائندے میر شفیق الرحمان کے شامل ہیں۔ کمیٹی تنازعے کی وجوہات و اسباب کے بارے میں کام کرے گی۔بعد ازاں اس بنیاد پر نواب اسلم رئیسانی فیصلہ کریں گے۔

سردار اختر مینگل اور میر شفیق گویا تصادم کی حالت ہی میں ہیں۔ سردار اختر مینگل، شفیق مینگل کو سرکاری ڈیتھ اسکواڈ کا سربراہ کہہ کر پکارتے ہیں۔ شفیق مینگل جواب میں ’’را‘‘ کے ڈیتھ اسکواڈ کا لیبل لگاتے ہیں۔ بہر حال نواب اسلم رئیسانی بروقت مصالحانہ پیش رفت نہ کرتے تو نتیجے میں بڑا نقصان یقینی تھا۔

بلوچستان میں اور بھی کئی بڑے قبائلی تنازعات موجود ہیں جو جانی نقصان کا باعث بنے ہیں۔ سرکار نجی لشکر پر پابندی عائد کرنے سے عاجز ہے۔لشکروں کی آڑ میں طرح طرح کی وارداتیں ہوتی ہیں۔ شہر کوئٹہ میں ایسی شاہراہیں ہیں جہاں نجی محافظ مورچے اور چیک پوسٹ بناکر بیٹھے ہوئے ہیں۔ قلعہ عبداللہ کا علاقہ، علاقہ غیر بن چکا ہے، جہاں منشیات کی فیکٹریاں بن چکی ہیں۔ پوست کی فصل اگائی جاتی ہے۔ اس علاقے میں سابق افغان کمانڈروں اور جنگجوئوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ جرائم کی شرح میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ریاست کی رٹ دکھائی نہیں دیتی۔ وڈھ کے اندر دونوں فریق کے لوگ بھاری اسلحہ کے ساتھ دیکھے گئے ہیں۔ قلعہ عبداللہ میں غیر ملکی مسلح افراد گھومتے ہیں مگر ریاست کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔