کھیت اپنے جلیں کہ غیروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
”یوکرین معاہدہ گندم“ کی تجدید سے روس کا انکار، ترک صدر سرگرم
روس نے ”یوکرین معاہدہ گندم“ کی تجدید سے انکار کردیا ہے۔ ماسکو سے 17 جولائی کو ایک ہنگامی اعلامیہ جاری ہوا جس کے مطابق یوکرین کی بندرگاہوں سے بحراسود آنے والے تمام جہازوں کو بلااستثنیٰ عسکری ہدف تصور کیا جائے گا۔ اس خبر کے سامنے آتے ہی گندم کی قیمتیں 9 فیصد بڑھ گئیں۔
یوکرین یورپ میں غذائی اجناس اور خوردنی تیل (Vegetable Oil) کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ جیسے ایک زمانے میں پنجاب کو برصغیر کا بریڈ باسکٹ کہا جاتا تھا، ویسے ہی یوکرین اور روس کا سرحدی علاقہ روٹی کی یورپی چنگیری ہے۔ عام حالات میں یہاں ایک کروڑ 85 لاکھ ایکڑ یعنی 7.5ملین ہیکٹر رقبے پر گندم، جو، مکئی، rye، تیل کے بیجوں اور دوسری غذائی اجناس کی کاشت ہوتی ہے۔ گزشتہ برس یوکرین نے ایک کروڑ 80 لاکھ ٹن گندم برآمد کی، جبکہ روسی برآمد کا حجم ڈھائی کروڑ ٹن تھا۔
یورپی یونین کے علاوہ لبنان، شام، یمن اور مصر یوکرینی گندم کے بڑے خریدار ہیں۔ چین اور یورپی ممالک بھی یوکرینی گندم خریدتے ہیں۔ قیمت کم ہونے کی وجہ سے لبنان کی ضرورت کی پچاس فیصد گندم یوکرین سے آتی ہے۔ لیبیا اپنی ضرورت کا 43 اور یمن 22 فیصد یوکرین سے حاصل کرتا ہے۔ افریقی ممالک، ملائشیا، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش میں استعمال ہونے والی گندم کا 28فیصد یوکرین سے آتا ہے۔ مصر نے گزشتہ برس 30 لاکھ ٹن گندم یوکرین سے خریدی۔
بدقسمتی سے مشرقی یورپ کا یہ زرخیر خطہ 9 برس سے میدانِ جنگ ہے۔ یہاں جنگ و جدل کا آغاز فروری 2014ء میں ہوا جب جزیرہ نمائے کریمیا پر قبضے کے ساتھ ہی، مشرقی یوکرین کے دونیسک (Donetsk) اور لوہانسک (Luhansk)صوبوں کےکچھ علاقوں پر روس نواز باغیوں نے قبضہ کرکے اپنی حکومتیں قائم کرلیں۔ اس علاقے کو جغرافیہ داں دونبس (Donbas)کہتے ہیں۔ گزشتہ برس فروری میں روس نے یوکرین پر بھرپور حملہ کردیا جسے کریملن نے ”خصوصی عسکری کارروائی“ قرار دیا۔ نیٹو رکنیت کے لیے یوکرین کی خواہش اس حملے کی بنیادی وجہ تھی۔
اس جنگ میں جہاں ایک طرف بے گناہ یوکرینی شہری مارے جارہے ہیں، 60 لاکھ سے زیادہ شہری پڑوسی ممالک کی طرف ہجرت پر مجبور ہوگئے اور ہنستے بستے ملک کا بڑا حصہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، وہیں اس جنگ نے توانائی اور غذائی بحران پیدا کردیا۔
قدرت کی مہربانی سے گندم اور دوسرے ضروری دانوں کے کھیت اب تک محفوظ ہیں۔ تاہم پیداوار میں کمی واقع ہوئی اور اِس بار گندم کے برآمدی حجم کا تخمینہ ایک کروڑ 70 لاکھ ٹن ہے۔ کھیت تو محفوط رہ گئے لیکن جنگ کی وجہ سے غلےکی برآمد انتہائی مشکل کام ہے۔گندم اور دوسرے غذائی دانوں کی برآمد کے لیے بحر اسود میں کھلنے والی اوڈیسا اور مائیکولائف (روسی تلفظ نائیکولائف) بندرگاہیں استعمال ہوتی ہیں۔
ان بندرگاہوں پر جہاز سازی کا کام بھی ہوتا ہے جس میں یوکرینی بحریہ کے عسکری جہاز شامل ہیں، جس کی وجہ سے یہ بندرگاہیں روس کی ”خصوصی“ توجہ کا مرکز بن گئیں۔ روسی بحریہ نے یوکرین کی مکمل ناکہ بندی کررکھی ہے۔ کشیدگی کی بنا پر تجارتی جہازوں کے لیے اوڈیسا سے گندم اٹھانا ممکن نہ رہا اور ساری دنیا خاص طور سے افریقہ اور بحرروم کے ممالک میں غذائی قلت پیدا ہوگئی۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے غذائی بحران کو بہت پہلے بھانپ لیا تھا، چنانچہ انھوں نے روس اور یوکرین سے بات چیت شروع کردی۔ غلے کی ترسیل یقینی بنانے کے لیے ترک صدر نے اپنے وزیردفاع اور بحریہ کے سربراہ کو روسی و یوکرینی ہم منصبوں سے گفتگو کی ہدایت کی۔ روس کو خدشہ تھا کہ امریکہ گندم اٹھانے کی آڑ میں بحری راستے سے یوکرین کو اسلحہ بھیجنے کی کوشش کرے گا۔
بحر اسود اور بحر روم پر تر ک بحریہ کی گرفت خاصی مضبوط ہے، اور روس و یوکرین دونوں کو صدر اردوان پر اعتماد ہے۔گزشتہ سال اگست میں ترکیہ، روس، یوکرین اور اقوام متحدہ کے درمیان معاہدہ طے پاگیا جس کے تحت گندم اٹھانے کے لیے اوڈیسا جانے والے جہازوں کی باسفورس پر روس، یوکرین اور ترک بحریہ تلاشی لیں گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ان پر اسلحہ یا کوئی دوسرا قابلِ اعتراض مواد نہیں۔ اسی کے ساتھ ترک بحریہ نے گندم بردار جہازوں کی حفاظت کی ذمہ داری بھی قبول کرلی۔معاہدے کے مطابق غلے سے لدے جہازوں کو ترک نگرانی میں بحر اسود سے آبنائے باسفورس کے ذریعے بحیرہ مرمرا (نہرِ استنبول) کے راستے بحر روم پہنچایا جائے گا۔ یہ معاہدہ اس سال 18 مارچ تک کے لیے تھا جس کی صدر اردوان کی درخواست پر 90 دن تک توسیع کردی گئی۔
اس ماہ کی 17 تاریخ کو آبنائے کرچ (Kerch)پر بنے پل کو نشانہ بنایا گیا۔ روس کو کریمیا سے ملانے والا یہ پل فوجی کمک کا کلیدی راستہ ہے۔ اس پل پر بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے پہلے بھی حملہ ہوچکا ہے، لیکن اِس بار یوکرینی بحریہ نے حملے کے لیے مبینہ طور پر زیرِآب ڈرون استعمال کیے۔ روسی بحریہ کو شبہ ہے کہ حملہ آور بحری ڈرون اوڈیسا سے روانہ کیے گئے تھے۔ اسی بنا پر روس کا مؤقف ہے کہ یوکرینی بندرگاہوں سے بحراسود کی طرف آنے والے جہازوں اور بحری ٹریفک پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا لہٰذا 17 جولائی کو معاہدے کی مدت مکمل ہونے پر اس کی تجدید نہیں کی جائے گی۔
یوکرینی غلے کی فراہمی رکنے سے قرنِ افریقہ(Horn of Africa) کے ممالک خاص طور سے صومالیہ بری طرح متاثر ہوگا جس کا بڑا علاقہ قحط سالی کا شکار ہے۔ اس ملک میں گزشتہ سال غذائی قلت سے 40ہزار اموات ہوئیں جن میں اکثریت ننھے بچوں کی ہے۔ اس کے علاوہ یمن، مصر، لبنان اور شام کو بھی غذائی قلت کا سامنا ہوگا۔
امریکیوں کا خیال ہے کہ کرچ پل پر ڈرون حملے سے مشتعل ہوکر روس نے معاہدے کی تجدید سے انکار کیا ہے۔ غیر جانب دار ذرائع چچا سام کے تجزیے سے متفق نہیں۔ گزشتہ گیارہ ماہ کے دوران غلے سے لدے درجنوں جہاز لاکھوں ٹن گندم اور دوسرا غلہ لے کر اوڈیسا سے روانہ ہوئے۔ باسفورس میں جہازوں کی تلاشی کا بہت ہی موثر انتظام ہے اور گزشتہ سال اگست سے اب تک کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا اور نہ بحری قزاقی کی کوئی واردات ہوئی۔ اس تناظر میں ڈرون حملے کو روس کے اس غیر متوقع اور غیر منطقی رویّے کا واحد جواز قرار دینا مشکل ہے۔ پل پر ڈرون حملے کے بعد روس نے یوکرین کی ناکہ بندی تو سخت کردی ہے لیکن گندم معاہدے کی تجدید سے انکار کے اصل عوامل کچھ اور ہیں۔
روس کے سرکاری مؤقف میں بھی ڈرون حملے کا ذکر نہیں۔ تجدید سے انکار کا اعلان کرتے ہوئے روسی حکومت کے ترجمان دمتری پیسکوف (Dmitry Peskov)نے کہا کہ روسی غذائی اجناس کی برآمدات پر غیر ضروری پابندیاں عائد ہیں۔کریملن کے ترجمان نے یقین دلایا کہ جیسے ہی روسی غلے کو یوکرینی مال کی طرح بازار تک آزادانہ رسائی ملی ماسکو فوری طور پرمعاہدے کی تجدید کردے گا۔ ہفتہ 22 جولائی کو ماسکو میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا کہ معاہدے کا بنیادی مقصد یعنی ”ضرورت مند ممالک کو اناج کی فراہمی“ پورا نہیں ہوا کہ روس کو اپنا غلہ اور اجناس برآمد کرنے میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ گزشتہ دنوں روسی صدر نے اپنے ترک ہم منصب جناب اردوان سے باتیں کرتے ہوئے شکوہ کیا تھا کہ معاہدے میں یوکرین کے ساتھ روسی برآمدات کو بھی تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت دی گئی ہے، لیکن معاہدے کے اس حصے کی پاس داری نظر نہیں آرہی۔
روسی برآمدات پر پابندی تکنیکی نوعیت کی ہے۔ ترک بحریہ، بحر اسود کی روسی بندرگاہ نووورسسک (Novorossiysk) سے غلہ لے کر نکلنے والے جہازوں کو بھی تحفظ فراہم کررہی ہے، لیکن روس کو اپنے اناج کے خریدار تلاش کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ بظاہر روسی برامدات پر کوئی قدغن نہیں لیکن امریکی وزارتِ خزانہ کی جانب سے عائد پابندیوں کی وجہ سے روسی ٖغلے کے خریداروں کے لیے امریکی ڈالر میں ضمانت نامہ ادائیگی (LC)کھولنا ناممکن حد تک مشکل ہے۔
معاہدہ گندم کی تجدید سے انکار کے بعد روسی فضائیہ نے اوڈیسا بندرگاہ کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ جمعہ 21 جولائی کو بندرگاہ کے اردگرد غلے کے گوداموں پر میزائیلوں کی بارش سے 110 ٹن مٹر جل کر خاک ہوگئے۔ میزائیل حملے میں کرینوں اور جہازوں پر سامان لادنے والے اوزار اور مشینوں کو بھاری نقصان پہنچا۔ روس کے نائب وزیرخارجہ Sergei Vershinin نے ان حملوں کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ روسی وزارتِ دفاع یوکرینی بندرگاہوں اور ان سے متصل پانیوں کو عسکری ہدف قرار دے چکی ہے اور خطرے کے خاتمے تک حملے جاری رہیں گے۔
معاملے کی سنگینی کے پیشِ نظر ترک صدر ایک بار پھر سرگرم ہوگئے ہیں۔ اپنے حالیہ بیان میں انھوں نے کہا کہ مغربی ممالک کو بحراسود میں اناج راہداری کی بحالی کے لیے روس کے مطالبات پر توجہ دینی چاہیے۔ جناب اردوان کے مطابق روس کو امتیازی سلوک کی شکایات اور تحفظات ہیں، اگر انھیں دور کردیا جائے تو روس بحراسود کی اناج راہداری فعال کرنےکے حق میں ہے۔ صدر اردوان نے کہا کہ مغربی ممالک کو اس معاملے پر مثبت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ طیب اردوان نے اپنے روسی ہم منصب کو اگلے ماہ ترکیہ آنے کی دعوت دی ہے اور وہ اسی ہفتے صدر پیوٹن سے فون پر بات بھی کریں گے۔
دنیا کو فاقہ کشی کے عذاب سے بچانے کے لیے جناب اردوان کی کوششیں قابلِ تعریف تو ہیں لیکن کافی نہیں۔ اس کے لیے امریکہ اور یورپ کو اپنا متکبرانہ رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ مغرب کی لگائی پابندیوں نے روسی معیشت کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ صدر پیوٹن جناب اردوان کو قابلِ اعتماد اور منصف مزاج مصالحت کا ر سمجھتے ہیں، لیکن روسی غلے کی ترسیل پر پابندی ہٹائے بغیر روس کو معقولیت کی طرف مائل کرنا جناب اردوان کے لیے بے حد مشکل ہے۔ اس تنازعے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اَنااور مغرب کے خبطِ عظمت کی قیمت ایشیا اور افریقہ کے بھوکے اداکررہے ہیں۔