مراعات یافتہ طبقے کو رعایت اور بجلی کی مفت فراہمی نقصان کی ایک الگ داستان ہے
پی ڈی ایم کے ہاتھ میں عوام کے پاس جانے کا نامہ اعمال کیا ہے؟ بجلی کے بعد گیس کے نرخوں میں اضافہ! اس کے علاوہ اور ہے کیا؟ مہنگائی کے طوفان کے تھپیڑوں سے نیم جاں عوام کے لیے یہ خبر بجلی گرانے کے مترادف ہے کہ وفاقی کابینہ کی منظوری سے گزشتہ شب بجلی کے نرخوں میں یکم جولائی سے ساڑھے سات روپے فی یونٹ تک اضافے کی تجویز نیپرا کو بھیج دی گئی ہے جس کے بعد بجلی کے بل میں شامل متعدد ٹیکسوں اور چارجز کے ساتھ ایک یونٹ کی قیمت مقدارِ استعمال کے لحاظ سے بنائے گئے صارفین کے مختلف گروپوں کے لیے 36روپے سے65روپے تک ہوجائے گی۔ ان نرخوں کا اطلاق یکم جولائی سے ہوا تو اگست میں جاری کیے جانے والے بل ان ہی نرخوں پر مشتمل ہوں گے۔ ماہانہ50یونٹ تک لائف لائن صارفین کے لیے فی یونٹ 3روپے 95پیسے اور ماہانہ51سے100 یونٹ تک لائف لائن صارفین کے لیے فی یونٹ7روپے74پیسے کا نرخ برقرار رہے گا۔ اس فیصلے کی تفصیلات اعداد وشمار کا گورکھ دھندا ہیں جن کا حاصل یہی ہے کہ مہنگائی کا ایک نیا اور منہ زور سیلاب پاکستان کے 95 فی صد شہریوں کے لیے دو وقت کی روٹی کے بندوبست کو مزید دشوار بلکہ ان میں سے ایک بڑی تعداد کے لیے ناممکن بنانے کو تلا کھڑا ہے۔ بجلی کی قیمت میں اضافے کا اثر تمام اشیائے صرف کی لاگت پر مرتب ہونا لازمی ہے جس کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزوں سمیت تمام ضروریاتِ زندگی کی قیمتیں اور بڑھیں گی۔ بجلی کے نرخوں میں اس اضافے سے مالی سال 2024ء میں 328 ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے۔آئی ایم ایف نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کے ڈھانچے کے مسائل کے بارے میں انتہائی سخت رویہ اپنایا ہے جس میں توانائی کا شعبہ ایک بار پھر نمایاں ہے۔ مارچ 2023ء تک بجلی اور گیس کے شعبوں کے لیے گردشی قرضوں کا حجم 5,000 ارب روپے یا جی ڈی پی کے 6 فیصد کی خطرناک حد عبور کر چکا تھا، پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی، جی ڈی پی کا بمشکل 10 فیصد ہے۔آئی ایم ایف اور پاکستان کے تخمینے کے مطابق مالی سال 2023ء کے نو ماہ میں گردشی قرضوں کا بہاؤ 387 ارب روپے ہے۔ یہ امر حیران کن ہے کیونکہ جولائی 2022ء میں ٹیرف پر نظرثانی کے باوجود یہ مسئلہ حل نہیں ہوا، اس کی وجہ حکومتوں کی نااہلی ہے جس کی سزا عام صارف کو مل رہی ہے کہ اب ٹیرف میں 8 روپے فی یونٹ اضافہ کیا جارہا ہے، گردشی قرضہ بجلی چوری اور لائن لاسز کی وجہ سے مسلسل بڑھ رہا ہے، توانائی کے شعبے میں اصلاحات اب زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے، خاص طور پر ڈسٹری بیوشن سیکٹر میں کوئی سنجیدہ کام نہیں ہورہا ہے، بس صرف زبانی جمع خرچ ہورہی ہے۔ محض ایک سال میں سرکلر ڈیٹ میں تقریباً 250 ارب روپے اضافہ ہوجانا غیر معمولی خطرہ ہے،پاکستان کی بلنگ کی وصولی 90 فیصد کے قریب رہ گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ گردشی قرضوں کا بوجھ کم ہونے کے بجائے بڑھ رہاہے لیکن حکومتیں اپنی نالائقی چھپا رہی ہیں اور بوجھ صارفین پر ڈالتی چلی جارہی ہیں۔ اس وقت ٹیرف 35 روپے فی یونٹ کے قریب ہے ، جس میں مسلسل اضافہ ہوتا چلاجائے گا۔
پاکستان کے توانائی کے شعبے کی ترجیحات کو درست کرنے کے لیے ایک جامع ایکشن پلان 2009ء میں انرجی ایکسپرٹس گروپ نے ترتیب دیا تھا جس پرآج تک توجہ نہیں دی گئی، لیکن سماجی ماہرین کے مطابق اس کے نتیجے میں نچلے متوسط طبقے سے وابستہ تقریباً دو کروڑ مزید افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ جو کچھ بھی طے ہوا، پی ڈی ایم حکومت وہ سب کچھ کرکے جائے گی۔ مہنگائی بڑھتی ہے بڑھے، اسے اس کی فکر ہے نہ کسی بات کی پروا۔ پیٹرولیم مصنوعات کے بعد بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ اسی سبب ہے۔ ملک میں مہنگائی اس وقت عوام کی کمر بھی توڑ رہی ہے اور ماضی کے ریکارڈ بھی۔ گزشتہ ایک سال سے تو مہنگائی نے عوام کا کچومر نکال دیا ہے۔ اصل المیہ یہ ہے کہ حکومت کا مارکیٹ پر کوئی کنٹرول نہیں ہے، لہٰذا جس کا جس طرح جی چاہتا ہے صارفین کو لوٹ رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کا شمار دنیا کے اُن چند ممالک میں کیا جا رہا ہے، جہاں افراطِ زر کی شرح ریکارڈ سطح پر ہے، خود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح 42 فیصد سے بھی زائد ہے۔ اس حکومت کو عوام کو ریلیف دینے کے لیے راستے تلاش کرنے چاہیے تھے مگر حکومت بجلی کے فی یونٹ نرخ بڑھاکر بجلی کی قیمت کی نصف سنچری مکمل کرنے کی کوشش میں ہے۔ حالیہ فیصلے سے بجلی کے گھریلو نرخ50روپے فی یونٹ سے متجاوز ہو گئے ہیں۔ 2018ء سے مسلسل بڑھنے والی مہنگائی ابھی رکی نہیں بلکہ آنے والے دنوں میں یہ عام آدمی کی مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بنے گی۔
نیپرا نے ٹیرف بڑھنے کی بنیادی وجہ روپے کی قدر میں کمی، افراط زر اور سود میں اضافہ بتائی ہے جس کے مطابق ڈسکوز کے کل ریونیو کا تخمینہ تقریباً 3281ارب روپے متوقع ہے۔ نیپرا کے یہ معاملات اپنی جگہ اہم ہوسکتے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک بھر میں جتنی بجلی استعمال ہورہی ہے اس کا غیر معمولی حصہ لائن لاسز کی شکل میں ضائع ہورہا ہے۔ مراعات یافتہ طبقے کو رعایت اور بجلی کی مفت فراہمی نقصان کی ایک الگ داستان ہے۔
بجلی کے بعد آئی ایم ایف نے پاکستان سے رئیل اسٹیٹ اور زرعی شعبے پر ٹیکس عائد کرنے کا پلان مانگ لیا ہے۔ آئی ایم ایف کے خیال میں پاکستان کو پراپرٹی سیکٹر اور زرعی شعبے سے محصولات بڑھانے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف نے یہ شرط بھی عائد کی ہے کہ ٹیکس آمدنی بڑھانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں، کرنسی کی شرح تبادلہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق رکھی جائے، مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لیے صوبوں کو سرپلس بجٹ دینا ہوگا۔ قومی معیشت کے لیے حکومت الٹا بھی لٹک جائے کچھ نہیں ہوگا جب تک گورننس بہتر نہیں ہوگی۔ معیشت کی بہتری کے نام پر حال ہی میں جو اقدامات تجویز کیے جارہے ہیں ان کے نتیجے میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح 9.25فیصد اور بے روزگاری کی شرح 8فیصد تک بڑھ جانے کا خدشہ ہے۔ مہنگائی کا دوسرا بڑا سبب اسمگلنگ ہے۔ مختلف روٹس سے تقریباً 700 ٹن چینی افغانستان پہنچائی جاتی ہے، عموماً منافع خور، ذخیرہ اندوز اور اسمگلنگ مافیا اس کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ اگر اسمگلنگ نہ روکی گئی تو ملک میں غذائی بحران گمبھیر ہوسکتا ہے۔
حکومت کے جانے میں2 ہفتے رہ گئے ہیں لیکن فیصلوں سے لگ رہا ہے کہ شاید ابھی اس نے اپنے اقتدار کی اننگ شروع کی ہے۔ حکومت نے آخری دو ہفتوں میں ترقیاتی بجٹ کے لیے 61 ارب روپے جاری کیے ہیں، پندرہ فی صد کمیشن پر ٹھیکیدار ٹھیکے حاصل کررہے ہیں، کمیشن کی کُل رقم بیالیس فی صد بن رہی ہے، یہ رقم منتخب عوامی نمائندوں اور افسر شاہی کی جیب میں جارہی ہے کہ کمیشن دیے بغیر منصوبوں کا ٹھیکہ نہیں ملتا، یہیں سے مہنگائی کو بھی پَر لگ جاتے ہیں۔
ہرحکمران اقتدار سے پہلے راندۂ درگاہ عوام کا مستقبل محفوظ بنانے، قومی وسائل و دولت کی لوٹ مار کرنے والوں کو کڑے احتساب کی چھلنی سے گزارنے، ملک کی اقتصادیات و معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے اور مہنگائی، بے روزگاری کے آگے بند باندھنے کے بلند بانگ دعوے ضرور کرتا ہے مگر عنانِ اقتدار سنبھالتے ہی اس کے تیور بدل جاتے ہیں اور ریاستی ادارے حکمران اشرافیہ طبقات کے مفادات کا ہی دم بھرتے نظر آتے ہیں۔ آج بلامبالغہ عوام کا آبرومندانہ زندگی گزارنا محال ہوچکا ہے۔ وزیراعظم نے بھی تسلیم کیا ہے کہ غریب مہنگائی سے پس چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا بس چلے تو راتوں رات مہنگائی ختم کردوں، لیکن مہنگائی جادو ٹونے سے نہیں محنت سے ختم ہوگی، تباہ کن مہنگائی نے ایک ایک لمحہ ناقابلِ برداشت بنادیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ بیان اُس شخص نے دیا ہے جس کی جماعت چوتھی بار وفاق میں حکومت کررہی ہے۔ کوئی ان لوگوں سے یہ پوچھنے والا نہیں ہے کہ پچھلی بار جب آپ حکومت میں آئے اس کا حساب کب اور کیسے دیں گے؟ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں جو کچھ غلط ہوا اس پر تنقید ہونی چاہیے اور ساتھ ہی ان لوگوں کا احتساب بھی ہونا چاہیے جو اس وقت حکومت میں تھے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ گزشتہ ساڑھے تین دہائیوں سے مسلسل حکومت کرنے والوں کو کلین چٹ دے دی جائے۔ عجیب بات ہے کہ ایک طرف حکومت مسلسل وسائل کی کمی کا رونا روتے ہوئے دنیا بھر سے قرضہ مانگ رہی ہے اور دوسری جانب پنجاب میں دو سو افسران کے لیے نئی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ایک جانب کفایت شعاری اور دوسری جانب عیاشیاں!
بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور نیپرا کی سماعت عوام کی آواز صرف جماعت اسلامی ہے
بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافے کے لیے دی گئی حکومتی درخواست کی نیپرا سماعت میں پیر کواسلام آباد میں اس سماعت میں عوام کے مؤقف کو پیش کرنے کے لیے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے آن لائن شرکت کی ۔انہوں نے بجلی کے نرخوں میں اضافے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے نیپرا سے مطالبہ کیاکہ حکومت کو اس کے بجلی کے نرخوں میں اضافے کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے، عوام پر مزید بجلی بم نہ گرائے جائیں، عوام کے اندر اب اتنی سکت نہیں رہی ہے کہ وہ اس اضافے کا بوجھ اُٹھا پائیں۔ سماعت میں چیئر مین نیپراتوصیف ایچ فاروقی بھی شریک تھے، حافظ نعیم الرحمن نے چیئر مین نیپرا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارا موقف تو سن لیتے ہیں اور اس سے اتفاق بھی کرتے ہیں لیکن اقدامات اور فیصلے وہی کرتے ہیں جو حکومت چاہتی ہے ، حکومت جو فیصلہ کرتی ہے اسے فوراً تسلیم کر کے عمل درآمد کرا دیا جاتا ہے، نیپرا صرف ربڑ اسٹیمپ کے طور پر کام کر رہی ہے۔ہم حکومت سے سوال کرتے ہیں کہ جاگیرداروں اور مراعات یافتہ طبقات پر ٹیکس کیوں نہیں لگایا جاتا۔پاکستان میں سب سے پریشان طبقہ مڈل کلاس ہے ،اس اضافے کا بوجھ سب سے زیادہ شہری آبادی پر پڑے گا جو پاکستان کی معیشت چلانے والی آبادی ہے جو تنخواہ دار ہیں جو چھوٹے چھوٹے کام کرنے والے لوگ ہیں یہ پہلے ہی بجلی کے بھاری بھاری بل ادا کر رہے ہیں۔حافظ نعیم الرحمن نے مزید کہا کہ کے الیکٹرک کو سالانہ اربوں روپے کی دی جانے والی سبسڈی کا کراچی کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں، کراچی کے عوام مسلسل لوڈشیڈنگ کا شکار ہیں جبکہ مہنگی ترین بجلی صرف کے الیکٹرک سے خریدنے پر مجبور ہیں۔ کے الیکٹرک کو دی جانے والی سبسڈی عوام کے ٹیکسوں سے ہی دی جاتی ہے اور کراچی پورے ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر ہے اس کے باوجود یہاں کے عوام بجلی کے سنگین مسائل سے دوچار ہیں۔ وفاقی حکومت اور نیپرا عوام کے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ایک طرف کے بجلی کے ٹیرف میں اضافہ کر کے عوام پر مالی بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ دوسری طرف اس کی طویل نا اہلی و ناقص کارکردگی اور عوام کو بلا تعطل اور سستی بجلی کی فراہمی میں ناکامی کے باوجود اس کے لائسنس میں 6ماہ کی عبوری توسیع کر دی گئی ہے، ہمارا واضح اور دو ٹوک موقف ہے وفاقی حکومت اور نیپرا اس کراچی دشمن اور عوام دشمن کمپنی کو دوبارہ مسلط نہ کرے۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ کے الیکٹرک اپنے پرانے اور فرسودہ پلانٹ چلا رہا ہے، لائن لاسز میں کمی اور ترسیلی نظام کو بہتر کرنے کے لیے بھی اس نے عملاً کچھ نہیں کیا۔ بجلی کے بھاری بلوں کی ادائیگی عوام کے لیے ناممکن ہو گئی ہے جبکہ اووربلنگ کی شکایات بھی کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہیں اور ہر روز مختلف آئی بی سیز کے باہر کے الیکٹرک کے ستائے عوام کی بڑی تعداد اپنے بل درست کرانے اور دیگر شکایات درج کرانے آتی ہے جہاں ان کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز اور ناروا سلوک کیا جاتا ہے جسے روکنے والا کوئی نہیں۔ آئی پی پیز سے ملکی معیشت کو تباہ کرنے والے معاہدے کیے گئے آئی پی پیز کے خلاف سینیٹ کی انکوائری رپورٹ موجود ہے مگر کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور سارا بوجھ عوام پر ڈالا جارہا ہے ،حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی درخواست جمعہ کو جمع کرائی اور نیپرا نے فوری سماعت پیر کو ہی کرلی مگر جو فیصلے عوام کے حق میں آتے ہیں اس کے خلاف عدالتوں سے حکم امتناع لے لیے جاتے ہیں اور نیپرا اور اس کی قانونی ٹیم اس پر خاموش بیٹھ جاتی ہے او ر کئی کئی برس گزر جانے کے بعد بھی اس کا فالو اپ نہیں کیا جاتاپھر نیپرا کا ہمیں فائدہ کیا؟، نیپرا 95 فیصد حکومت کے حق میں اور سماعت میں حصہ لینے والوں اور عوام کے حق میں دلائل دینے والوں کے خلاف فیصلہ دیتی ہے پھر اس نمائشی سماعت کا فائدہ کیا؟ انہوں نے کہا کہ سبسڈی تو حکومت کی نااہلی کی وجہ سے دینے پڑتی ہے اگر 258 ارب روپے سالانہ سبسڈی کے الیکٹرک کو دیتے ہیں تو اس کی وجہ کے الیکٹرک کے پرانے و فرسودہ پلانٹس ہیں جس کی وجہ سے مہنگی بجلی بنتی ہے اور حکومت کوئی کارروائی نہیں کرتی بلکہ ان کے لائسنس کی تجدید کردیتی ہے، پرانے پلانٹس پر مہنگی بجلی بنانے کی وجہ سے حکومت کو کے الیکٹرک کو سبسڈی دینی پڑتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ تو عوام کو سبسڈی دی جارہی ہے ۔