اس کتاب کو مرّتبہ نے پانچ بڑے حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ان میں قدرت اللہ شہاب کے انٹرویو، افسانے، مقالہ جات و مضامین، ڈرامہ اور باقی ادبی کام شامل ہے۔ اس کتاب کو دراصل اس نظر سے ترتیب دیا گیا ہے کہ قدرت اللہ شہاب کے ادبی کام کو یک جا کیا جاسکے جو تاریخ کے اوراق میں گم ہوچکا تھا۔
”شہاب نگر“ اس لحاظ سے بھی ایک مختلف کتاب ہے کہ اس کے اکثر مقامات پر قدرت اللہ شہاب کا اپنا ذاتی نقطہ نظر پڑھنے کو ملتا ہے۔ ان کے انٹرویوز میں یہ بات بہت جگہوں پہ نظر آتی ہے کہ وہ بات کرتے کرتے تاریخ کی بے رحم سرنگ میں گر جاتے ہیں تو کہیں جذبات کے بے نشان ریگ زاروں میں ننگے پائوں چلتے نظر آتے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب کے افسانوں کا مجموعہ جو کہ اس کتاب کا ایک اہم جزو ہے، ان کے شعوری ارتقا کے سفر کا ایک بہت بڑا حوالہ ہے۔ انہوں نے اپنے مشاہدات کو معاشرتی وضع کردہ حدود اور قواعد سے بہت ہٹ کر دیکھا ہے۔ یہ اسلوب بجائے خود ایک ایجاد ہے جو کہ قدرت اللہ شہاب کے دم قدم سے ہے۔
قدرت اللہ شہاب کے مختلف اوقات میں پڑھے گئے مضامین، تقاریر، مقالہ جات اور باقی تحریروں کا بھی اس کتاب کے مواد میں بہت اہم کردار ہے۔ ان کے مضامین ایک سچے انسان، مسلمان، پاکستانی اور بیوروکریٹ کے قلم سے لکھے گئے ہیں۔ انسان کے لیے سب سے اہم اور سب سے مشکل کام اپنے احساسات کو کچھ حدود میں رہتے ہوئے قلم کے سپرد کردینا ہوتا ہے۔ قدرت اللہ شہاب اس اہم کام کو انتہائی خوش اسلوبی اور حقائق کی روشنی میں لیے ہوئے آگے بڑھاتے ہیں تاکہ انسانی حدود و قواعد کی روشنی میں تمام مذاہب اور مکتبہ ہائے فکر کے لوگوں کے دلوں تک اس بات کو پہنچایا جاسکے۔
کتاب کے آخر میں ایک فلم اور ایک تمثیل بھی شامل کی گئی ہے۔ یہ کشمیر کے تناظر میں لکھی گئی ہیں جوکہ ادبی سفر میں بڑا خوش گوار سا موڑ ہے۔ قدرت اللہ شہاب کے خطوط بھی اس کتاب کا ایک حسن ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ایک صاحبِ کردار کی تاریخ اور ارتقا کو پڑھنے، سمجھنے اور اس سفر کی روشنی میں ہمارے شعوری سفر میں بہترین راہ نمائی فرمائے۔
شیما مجید نے نہایت عرق ریزی سے اس کتاب کو مرتب کیا ہے۔ ناشر نے یہ کتاب نہایت عمدہ کاغذ پر مجلّد شائع کی ہے۔ مہنگائی کے لحاظ سے قیمت بہت معقول ہے۔