خواجہ ستار الحسن جمیلؔ اکبر آبادی (1901ء۔1975ء ) ایک ممتاز شاعر تھے اور آپ کا شمار سیماب اکبر آبادی کے خاص تلامذہ میں ہوتا تھا۔شاعر اور نثر نگار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک صحافی بھی تھے۔ 1924ء میں انھوں نے آگرہ سے ہفت روزہ ”فرشتہ“ کا اجراء کیا اور ایک مختصر عرصے میں اسے بامِ عروج تک پہنچادیا۔ علاوہ ازیں آل انڈیا جرنلسٹ لیگ کے صدر بھی رہے۔
پیش نظر کتاب کا ایک حصہ نظم یعنی شاعری پر مشتمل ہے، جب کہ ایک حصے میں جمیل اکبر آبادی کے نثری مضامین ہیں۔ ابتدائی صفحات میں کتاب اور صاحبِ کتاب کے بارے میں پروفیسر خواجہ قمرالحسن، ڈاکٹر معین الدین عقیل، پروفیسر خیال آفاقی اور ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی تحریریں ہیں۔ درمیان میں خواجہ صاحب کی چند یادگار تصاویر ہیں۔
فاضل مولف نے بڑی تلاش و جستجو کے بعد ”فرشتہ“ اخبار کے خستہ حال شماروں سے اپنے والد محترم کا کلام جمع کیا ہے۔ یہ اُن کا اپنے والد کے لیے ایک خوب صورت خراجِ تحسین ہے۔ ”فکرِ جمیل“ کی صورت میں جمیل اکبر آبادی کا علمی، ادبی، شعری اور صحافتی سرمایہ طباعتی صورت میں محفوظ ہوگیا ہے۔
چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
جہاں کھوئی ہے ساری عمر میں نے
وہیں میں عمر بھر پایا گیا ہوں
تری تلاش میں ہے ذرہ ذرہ
ترے خیال سے ہر موج پیچ و تاب میں ہے
منتشر ہر سانس کی آواز ہے
دل نہیں، ٹوٹا ہوا ایک ساز ہے