ما بعد تصور افلاطون کا ’’تصور‘‘

افلاطون، کہ جس نے چاہا خدا کے مجسم خیر ہونے کا ’تصور‘ بحال کرے، وجود کے بارے میں آدمی کے الم ناک ’تصور‘ پر اس نے غضب کا اظہار کیا۔ افلاطون نے ایس لس (Aeschylus) کے تصورِخدا پر گہرا تاسف ظاہر کیا۔ وہ ری پبلک میں لکھتا ہے: خدا، جو گو کہ خیر ہی خیر ہے، ہر شے کا سبب نہیں جیسا کہا جاتا ہے، وہ آدمیوں سے پیش آنے والے معاملات کے اسباب کا ایک سبب ضرور ہے مگر آدمیوں کے اعمال کا بہت حد تک ذمہ دار نہیں ہے۔ اب کیونکہ ہم آدمیوں کی زندگیوں میں شر خیر کی نسبت زیادہ فعال نظر آتا ہے… ہم اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ ایس لس کی باتیں نوجوانوں کو گمراہ کریں، جیسا کہ اُس کا یہ کہنا: ’’خدا نے آدمی میں شر ودیعت کیا ہے کہ جیسے وہ اُس کا گھر پوری طرح برباد کردینا چاہتا ہو۔‘‘ (Rep. 379c–380a)

خدا کی ’معصومیت‘ کہ جسے افلاطون کی ماورا الطبیعات ثابت کرنا چاہتی ہے، عالم موجودات کو دو متضاد دنیاؤں میں تقسیم کرتی ہے: ’روحانی خیر‘ کی دنیا اور دوسری ’مادی شر‘ کی دنیا۔ یہ شر کی المناک دیومالائیت سے مطابقت میں نہیں، کہ جو بالآخر الوہی خیرپریقین قائم نہیں رہنے دیتی۔ یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے ہم شاید اس فلسفیانہ تحرک کی ستائش کرسکیں کہ جس کے پیچھے افلاطون کی ایسے ’’تصور‘‘ سے بیزاری ہے جو ’’نقالی‘‘ کی پست سطح تک محدود ہے، اور جو آدمی کے وجود کا ’الوہیت‘ سے تعلق قطع کردیتا ہے۔

افلاطون کی ماوراالطبیعات
مغرب کی ماورا الطبیعات کے بانیوں میں افلاطون سرفہرست ہے، جس نے ’تصور‘ کی پہلی مناسب فلسفیانہ تشکیل کی۔ خداؤں اور دیوتاؤں کے آسمانی ڈرامے سے عاری، ’تصور‘ کی یہ تھیم واضح طور پر آدمی کے وجود کا ایک وصف ہے۔ دیومالائیت سے ماورا الطبیعات تک ’تصور‘ کی یہ منتقلی قبل از سقراط مفکرین پیش کرچکے تھے۔ دیمقراطس، فیثا غورث، زینو فینز، اور اینکسا غورث تصورات اور حقیقت کے مابین معمے کی گتھی سلجھانے کی سعی کرچکے تھے۔ مگر افلاطون وہ پہلا مفکر ہے جس نے ’تصور‘ کا پہلا منظم تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ ’افلاطون کے وقت تک‘ میں ایم ڈبلیو بنڈی The Theory of Imagination in Classical and Medieval عنوان کے تحت نوٹس میں لکھتا ہے: ’’مادہ اور روح کے تعلق پر اب تک کوئی جامع تصور سامنے نہیں آیا تھا، خارجی سے داخلی دنیا کا سفر مکمل نہ کرسکا تھا جو فطرت کے ایسے مناسب تصور کے لیے ضروری تھا کہ جو ’قوتِ خیال‘ محقق کرے‘۔ ایسا صرف افلاطون کے بعد ہی ممکن ہوا کہ ’عمل تصور‘ پر نظریات وضع ہوئے، اور افلاطون کا عظیم ماورا الطبیعاتی نظام یونانی اسطور میں اُسی حیثیت کا حامل ہے جو تلمود کو توریت میں حاصل ہے۔“

یہ تشریحات کا ایک سلسلہ ہے، ان میں اختلافات اور تصورات پیش کیے گئے ہیں کہ جو اسطوری سطح کے بیانیے میں مفقود ہیں۔ درحقیقت افلاطون کا فلسفیانہ تصور جہاں ایک تحریک کے طور پر اسطور سے آگے عقلیات کی جانب حرکت کرتا ہے، اور اس طرح ’عمل تصور‘ کی منفی قدر پیمائی کرتا ہے۔ افلاطون کی علمیاتی (epistemological) جو وہ عقلیات کی اہلیت اور ’قوتِ تخیل‘ میں نقل در نقل کا اسلوب کہ جسے اُس کے نظام ماورا الطبیعات کے ایسے سیاق میں سمجھا جاسکے جو ’وجود‘ اور ’بننے‘ میں امتیاز قائم کرتا ہے۔ وہ الوہیت کو شر سے آلودہ کرنے کی اسطوری روایت پر سخت ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ افلاطون وجود کی خالص تشکیلات ارفع قرار دیتا ہے، اور اسے نظریات کی ماورائی قلمرو میں دیکھتا ہے۔ خالص وجود پر ان نظریات کو زمان ومکاں سے وہ ماورا قرار دیتا ہے۔ یہ سلسلہ تصور کا مقامِ عالی ہے، سراسر خیر ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ سلسلہ تصور آدمی کے پست مادی خیالات سے داغ دار نہیں کیا جاسکتا، اور نہ ہی مادے میں محدود و محصور کیا جاسکتا ہے، کہ جو شر کا ذریعہ ہے۔ غور و فکر الوہی تصور کا درک فراہم کرتا ہے۔ جبکہ آدمی کے تخیل پر نام نہاد نقلی دنیا کی چھاپ پڑی ہے۔

یہاں نقل کا سوال مرکزی ہے۔ افلاطون اس عملِ نقل پر گہرے شک کا اظہار کرتا ہے۔ وہ آدمی کے اس گمان کا سخت مخالف ہے کہ وہ کسی درجے میں بھی خدا کا سا خالق بن سکتا ہے۔ جیسا کہ وہ (Timaeus 29,31)میں وضاحت کرتا ہے، آدمی کی مادی دنیا دراصل عالمِ امثال کی نقل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی غوروفکرکی مدد سے بالآخردنیائے امثال میں لوٹ سکتا ہے۔ آدمی کا تصور اسے مزید گمراہ کرتا ہے۔ عالمِ مادیت میں آدمی کی یہ نقل درنقل محض کارِ زیاں ہے۔

اس طرح افلاطون آدمی ساختہ تصورات کو غریب والدین کی مفلس اولاد قرار دیتا ہے، ناقص نقلیں کہتا ہے۔ یہ باور کرنا گمراہی ہے کہ اپنے عکس سے ایک دنیا خلق کردی جائے، آدمی کا ’تصور‘ سچ سے بہت فروتر حالت میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی کی تخلیق کاری آسانی سے بت پرستی بن جاتی ہے۔ جو خدا کا اختیار ہے وہ آدمی کی بساط میں نہیں۔