خیبرپختون خوا کا نیا سیاسی منظر نامہ

پرویز خٹک کی قیادت میں پی ٹی آئی پارلیمینٹرین کے نام سے نئے دھڑے کا قیام اور عبوری سیٹ اپ کی جماعتوں کے درمیان باہمی چپقلش

ملک میں سیاسی ہلچل بالخصوص پاکستان تحریک انصاف میں توڑ پھوڑ کا ارتعاش ابھی جاری تھا کہ صوبہ خیبر پختون خوا میں پہلے حکمران پی ڈی ایم اور اس کی شریکِ اقتدار جماعتوں کے درمیان الفاظ اور ایک دوسرے کے خلاف سنگین الزامات کی گولہ باری سے صوبے کی سیاسی فضا مکدر ہونا شروع ہوگئی تھی، اور جب پی ٹی آئی میں ٹوٹ پھوٹ کے حوالے سے پنجاب اور سندھ سے تواتر کے ساتھ خبریں آرہی تھیں تو اس حوالے سے خیبر پختون خوا کی حد تک راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ لیکن اب گزشتہ روز پرویز خٹک کی قیادت میں پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کے نام سے ایک نیا اور بظاہر بڑا دھڑا وجود میں آنے کے بعد یہ مفروضہ بھی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ہے کہ خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی صفیں نہ صرف منظم اورمضبوط ہیں بلکہ ان میں چھوٹی موٹی دراڑ کا بھی بظاہر کوئی امکان نظرنہیں آرہا ہے۔ خیبر پختون خواکی سیاست کا درجہ حرارت اور یہاں کا سیاسی کلچر چونکہ ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت ہمیشہ سے خاصا منتشر اور متلون واقع ہوا ہے، اس لیے یہاں کی سیاست کے مستقبل اور خاص کر یہاں کے ووٹرز کے مزاج کے بارے میں کچھ بھی یقین سے کہنا مشکل ہوتا ہے۔

یہ بات ہر کسی کو معلوم ہے کہ خیبر پختون خوا میں باقاعدہ سیاسی سرگرمیوں اور خاص کر انتخابی سیاست کا دور برصغیر پاک و ہند کے دیگر صوبوں کے بہت بعد میں شروع ہوا تھا، حالانکہ موجودہ خیبرپختون خوا کو صوبے کا درجہ برطانوی دورِ حکومت میں بیسویں صدی کے اوائل یعنی 1901ء ہی میں دے دیا گیا تھا، لیکن 1932ء تک اس کی حیثیت برائے نام صوبے کی تھی اور اسے چیف کمشنر کا صوبہ کہا جاتا تھا، البتہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت جب 1937ء میں ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں انتخابات کروائے گئے تو ان گیارہ صوبوں میں خیبرپختون خوا بھی شامل تھا جسے اُس زمانے میں شمال مغربی سرحدی صوبہ کہا جاتا تھا۔ یہاں یہ بتانا بھی خالی از دلچسپی نہیں ہوگا کہ اس صوبے نے 1937ء اور 1946ء کے انتخابات میں یہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت کے باوجود مسلم لیگ کے برعکس کانگریس کو کامیابی سے ہمکنار کیا تھا، حالانکہ نہ تو کانگریس کی نہرو رپورٹ میں اس صوبے میں سیاسی اصلاحات کی بات کی گئی تھی اور نہ ہی کبھی کانگریس کے ہندو نواز راہنمائوں نے کبھی اس صوبے کو دیگر ہندو اکثریتی صوبوں کے مقابلے میں کوئی اہمیت دینا گوارا کی تھی جس کا اندازہ کانگریس کے راہنمائوں گاندھی اور نہروکا اپنے سارے سیاسی کیریئر میں یہاں کا محض ایک ایک مرتبہ دورہ کرنا تھا، جبکہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے نہ صرف یہاں کا تین مرتبہ دورہ کیا بلکہ ان کے تاریخی چودہ نکات میں بھی ایک اہم نکتہ شمال مغربی سرحدی صوبے میں سیاسی اصلاحات کے مطالبے سے متعلق تھا۔

اسی طرح جب قائد اعظم نے اپنے اثاثہ جات مسلمانوں کے تین تاریخی تعلیمی اداروں کے نام وقف کرنے کا اعلان کیا تو ان میں ایک ادارے اسلامیہ کالج پشاور کا تعلق بھی خیبرپختون خوا سے تھا۔ خیبر پختون خوا کی اسی انفرادیت نے انگریزوں کو قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں شامل ہونے والے دیگر صوبوں کے برعکس یہاں ریفرنڈم کروانے پر مجبور کیا تھا جس کی وجہ ڈیڑھ سال پہلے ہونے والے 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کے قیامِ پاکستان کے مطالبے کے باوجود خیبر پختون خوا سے کانگریس کا کامیاب ہونا تھا جو متحدہ ہندوستان کی داعی تھی۔ 1971ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد جب ون یونٹ کا خاتمہ ہوا اور موجودہ چار صوبوں کو بحال کرکے 1973ء کے آئین کے تحت خیبرپختون خوا میں صوبائی اسمبلی قائم کی گئی تو مرکز، پنجاب اور سندھ کے برعکس یہاں پیپلز پارٹی کے بجائے جمعیت العلمائے اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی نے مولانا مفتی محمود کی سربراہی میں مخلوط حکومت تشکیل دی تھی، جس کو بعد ازاں بھٹو صاحب نے تحلیل کرکے یہاں گورنر راج نافذ کردیا تھا۔1988ء، 1990ء اور 1996ء کے استثنا کے بعد خیبرپختون خوا میں بالترتیب وفاق میں برسر اقتدار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو حکومت سازی کا موقع ملا، البتہ 2002ء، 2008ء اور 2013ء کے نتائج مرکزی انتخابات کے برعکس آئے تا آنکہ 2018ء میں پی ٹی آئی کو مرکز کے ساتھ یہاں سے بھی کامیابی نصیب ہوئی۔

اس بحث کا مقصد قارئین کو خیبرپختون خوا کے مخصوص سیاسی پس منظر اور حالات کے تناظر میں صوبے میں 9 مئی کے واقعات اور اس سے قبل عمران خان کی جانب سے بلا سوچے سمجھے سیاسی عدم بلوغت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے خیبر پختون خوامیں بر سر اقتداردو تہائی کی حامل حکومت کے خاتمے اور یہاں بننے والے عبوری سیٹ اَپ اور تین ما ہ کا عرصہ گزرنے کے بعد اس حکومت کی آئینی حیثیت با لخصوص سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے تناظر میں یہاںجو سیاسی کھچڑی پک رہی ہے اس نے صوبے کی سیاسی فضا کو مزید گمبھیر بنادیا ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے عبوری صوبائی حکومت کی اتحادی جماعتوں اے این پی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی جانب سے صوبائی گورنر حاجی غلام علی جن کا تعلق جمعیت (ف) سے ہے اور جو مولانا فضل الرحمٰن کے سمدھی ہونے کے علاوہ اُن کے دستِ راست ہیں، پر صوبائی معاملات میں بے جا مداخلت اور اپنی پارٹی کو نوازنے کے علاوہ اتحادی جماعتوں کے سرکردہ راہنمائوں پر اثرانداز ہوکر انہیں جمعیت (ف) میں شامل کرنے کے الزامات لگ چکے ہیں، حتیٰ کہ گزشتہ دنوں اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کی جانب سے اُن کے خلاف شدید تنقید اور کرپشن کے الزامات بھی عائد کیے گئے، یہاں تک کہ انہیں میڈیا کے ذریعے یہ بھی کہنا پڑا کہ حاجی غلام علی کی بطورگورنر نامزدگی اور اس فیصلے کی تائید ان کی بڑی سیاسی غلطی تھی۔ دراصل ایمل ولی خان کو یہ بیان اس پس منظر میں دینا پڑا کہ جب خیبرپختون خوا میں گورنرکا عہدہ خالی ہوا تھا تو پہلے پہل اس پر اے این پی کے میاں افتخار حسین کی تعیناتی کا عندیہ دیا گیا تھا، لیکن بعد ازاں مولانا کی مداخلت پر اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے میاں افتخار حسین کو دست بردار کراتے ہوئے حاجی غلام علی کی نامزدگی کی تائید کردی تھی۔ یہ اعلان انھوں نے چارسدہ میں ایک بڑے جلسہ عام میں کیا تھا۔ یہ اعلان درحقیقت جمعیت(ف) کی جانب سے عمران خان کے مقابلے میں چارسدہ میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں ایمل ولی خان کی بطور امیدوار حمایت کے جواب میں کیا گیا تھا۔

اب تادم تحریر وزیراعظم شہبازشریف کی مداخلت پر ایک دوسرے کے خلاف لفظی گولہ باری تو بند کردی گئی ہے البتہ دلوں میں میل اب بھی موجود ہے جسے وزیراعظم کی ہدایت پر مسلم لیگ (ن) کے اختیار ولی خان، پیپلز پارٹی کے محمد علی شاہ اور اے این پی کے سردار حسین بابک کی گورنر سے ملاقات کے ذریعے صاف کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عام انتخابات کا وقت جوں جوں قریب آتا جارہا ہے عبوری سیٹ اَپ کی تمام جماعتوں کے درمیان سیاسی تنائو بڑھنے کے ساتھ ساتھ چونکہ آئندہ الیکشن میں تمام جماعتیں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گی اس لیے ان میں سے ہر جماعت اگر ایک جانب آئندہ کے سیاسی سیٹ اَپ میں اپنا زیادہ سے زیادہ حصہ بٹورنا چاہتی ہے تو دوسری جانب یہ جماعتیں عوامی ہمدردی سمیٹنے کے لیے یہ تاثر بھی دینا ضروری سمجھتی ہیں کہ ان کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے ہیںاور عبوری سیٹ اَپ کا حصہ ہونے کے باوجود ان کے پاس کچھ بھی اختیارات نہیں ہیں۔ یہی وہ عوامل ہیں جن کے باعث یہ جماعتیں نہ صرف ایک دوسرے کے خلاف دست و گریباں نظر آتی ہیں بلکہ ان کے مخالفین ان کے اس مصنوعی اتحاد کی ہنڈیا عین چوراہے میں پھوٹنے کے بھی منتظر ہیں۔

دوسری جانب پی ٹی آئی جو پنجاب اور سندھ میں شدید ڈینٹ پڑنے کے باوجود خیبرپختون خوامیں کسی بڑے حادثے سے تا حال محفوظ تھی، پرویز خٹک کی قیادت میں پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کے جنم لینے کے بعد بالآخر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہے۔ گزشتہ دنوں پشاور اور نوشہرہ کے درمیان جی ٹی روڈ پرایک شادی ہال میں پرویز خٹک کی جانب سے پی ٹی آئی کے منحرف سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے پاور شو جس میں دعویٰ ٰتو 57 ارکان کی موجودگی کا کیا گیا لیکن واقفانِ حال کے مطابق اس اکٹھ میں 27 کے قریب باغی ارکان موجود تھے، جبکہ یہاں موجودگی کے حوالے سے جو فہرست میڈیا میں گردش کررہی ہے اس پر بھی تقریباً 20 کے قریب افراد نے اپنے سوشل میڈیا پیغامات کے ذریعے اس پاور شومیں شرکت اور پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا ہے حالانکہ پر ویزخٹک کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی کے 100 کے قریب سابقہ ارکان قومی وصوبائی اسمبلی ان سے رابطے میں ہیں۔ اس اکٹھ کا ایک حیران کن امر اسے میڈیا سے اوجھل رکھنے کی کوشش تھی، حتیٰ کہ جب میڈیا کے بعض افراد نے اس مقام تک رسائی کی کوشش کی تو انہیں پولیس کی حراست اور کیمرے چھینے جانے تک کے واقعات کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ اس شو کا ایک اور حیران کن پہلو اس میں عمران خان کے دستِ راست سابق وزیراعلیٰ محمود خان جو کل تک عمران خان کا دم بھرتے نہیں تھکتے تھے، کی جانب سے شرکت اور پرویز خٹک پر اعتماد کا اظہار ہے۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبے کا سیاسی منظرنامہ کیا بنتا ہے اور اس کے صوبے کے مستقبل کے سیاسی نقشے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں جو بھی پیش رفت ہوگی اس میںکم از کم ایک بات تو طے ہے کہ اس سے صوبے کے عوام جو مہنگائی اور بدامنی کے دوپاٹوں میں بری طرح پس رہے ہیں،کی زندگیوں میں کسی مثبت تبدیلی کا نہ توبظاہر کوئی امکان نظر آتاہے اور نہ ہی اس حوالے سے موجودہ سیاسی لاٹ سے کوئی توقع کی جاسکتی ہے۔