کیا معاشی ابتری کی وجہ آبادی میں اضافہ ہے؟

آبادی پر کنٹرول کا نظریہ خود جس طرح مغرب میں ناکام ہوا ہے وہ دراصل خدائی علم یا وحی کے مقابلے میں انسانی عقل و خرد کی مکمل ناکامی کا ثبوت ہے

برطانوی ماہرِ معیشت تھامس رابرٹ مالتھس نے آبادی اور غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے حوالے سے 1798ء میں جب اپنا نظریہ پیش کیا جس کو دنیا آبادی پر قابو پانے کا نظریہ کہتی ہے تو شاید اُس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ محض دو سو سال کے بعد اس کا آبادی پر کنٹرول کا نظریہ نہ صرف برطانیہ بلکہ پورے مغرب میں اس طرح ناکام ہوگا کہ دنیا میں ترقی کی ضمانت ہی آبادی میں اضافہ قرار دیا جائے گا۔ 11 جولائی کو اقوام متحدہ نے آبادی کا عالمی دن قرار دیا ہے اور ہر سال اس موقع کی مناسبت سے دنیا بھر میں آبادی پر کنٹرول کے لیے پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ اس پورے نظریے کی بنیاد ہی دراصل مغرب کا عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور اس سے جڑی جدید ترقی ہے کہ جس میں خدا کا وجود اِس دنیا میں تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا انسان ہی عقلِ کُل قرار پایا اور وحیِ الٰہی سے روگردانی کرکے انسان اپنی عقل کے محدود دائرے میں آنے والی باتوں کو ہی اصل علم تصور کر بیٹھا۔ اور اس کا اثر یہ ہوا کہ دنیا ایک بڑی تباہی کا شکار ہے۔ آبادی پر کنٹرول کا نظریہ خود جس طرح مغرب میں ناکام ہوا ہے وہ دراصل حتمی علم یعنی خدائی علم یا وحی کے مقابلے میں انسانی عقل و خرد کی مکمل ناکامی کا ثبوت ہے۔

مالتھس کے نظریے کے بعد پوری دنیا میں زور و شور سے آبادی پر کنٹرول کی مہمات اس لیے چلائی گئیں کہ انسان کی بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنا ایک دن ناممکن ہوجائے گا کیونکہ انسان نے رزق کا ذمہ اپنے خالق کو فراموش کرکے خود اٹھا لیا، لہٰذا اس کا منطقی یہی ہونا تھا۔ اسی وجہ سے یہ نظریہ بھی پروان چڑھا کہ زیادہ ابادی رکھنے والے ممالک کبھی ترقی نہیں کرسکیں گے، اور نہ ہی وہ عالمی معیشت میں کوئی نمایاں مقام پاسکیں گے۔ اس پورے نظریے کے تحت اعلیٰ معیارِ زندگی، بلند تر معاشی ترقی اور اعلیٰ ترین سہولیات کے لیے پوری دنیا میں بالعموم اور مغرب میں بالخصوص جس ضبطِ ولادت اور ابادی میں کمی کی زبردست تحریک کو برپا کیا گیا وہ آج اپنے برگ و بار لارہی ہے۔

پاکستان میں بھی ایک نیا سیاسی گروپ بنانے والوں جن میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاع اسماعیل سرفہرست ہیں، کے پاکستان کے بارے میں مقدمے کا نکتہ آغاز ہی آبادی پر کنٹرول ہے۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ اعلیٰ ترین عہدوں پر رہنے اور پوری دنیا گھومنے والے کیوں بنیادی حقائق کو مسخ کرکے من پسند معلومات کی بنیاد پر اپنا مقدمہ کھڑا کررہے ہیں؟ پاکستان میں بہت سی خرابیاں موجود ہیں لیکن کیا اس پوری ریاست کی ناکامی کا اصل نکتہ ہی بے پناہ آبادی ہے؟ دنیا میں کتنی ایسی ریاستیں ہیں جو ابادی میں اضافے کی وجہ سے ناکام ریاست بن چکی ہیں؟ کیا کسی ایک بھی ایسی ریاست کا نام یہ مفکرین بتا پائیں گے؟

اصل مسئلہ یہ ہے کہ دنیا جس فریب اور پروپیگنڈے کا شکار ہے پورا میڈیا بھی اسی پروپیگنڈے کی منظر کشی کے سوا کچھ نہیں کررہا ہے۔ یہی حال ہمارے مفکرین کا بھی ہے۔ ان کو مغرب کے متروک تصورات اور نظریات کا پرچار کرنے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ وہ آج پاکستان میں رہنے بسنے والوں کو یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ سابق سوویت یونین اور موجودہ روس جوکہ 1992ء سے قبل ایک عالمی سپر پاور تصور کیا جاتا تھا، آج جس بحران سے گزر رہا ہے اور ہر گزرتے دن یہ بحران شدید تر ہوتا جارہا ہے اس کی ایک بنیادی وجہ روس کی آبادی میں شدید ترین کمی ہے۔ اگر آج ماہرین اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ عالمی سپر پاور کے مقابلے کا شریک چین شاید اس پوزیشن تک نہ پہنچ پائے تو اس کی سب سے بڑی وجہ چین کی آبادی میں اضافہ نہیں بلکہ چین کی آبادی میں اضافے کی شرح میں کمی ہے۔ جاپان، یورپ اور خود برطانیہ جس معاشی بحران کا شکار ہیں وہ دراصل ابادی میں کمی کا بحران ہے۔ یہ نظریہ جس میں کہا گیا تھا کہ دنیا کی بڑی آبادیاں کبھی معاشی ترقی کی معراج پر نہ پہنچ پائیں گی، خود اس بری طرح ناکام ہوا کہ آج چین دنیا کی سب سے بڑی آبادی کے ساتھ دوسری بڑی معیشت ہے، اس کے ساتھ دوسری بڑی ابادی رکھنے والا ملک بھارت آج برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔

اب ان دعووں کی حقیقت ذرا اعداد و شمار کی روشنی میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ روس جوکہ سابق سوویت یونین تھا، جب تک عالمی سپر پاور کی دوڑ میں شامل رہا اُس کی آبادی میں اضافے کی شرح 1920ء میں فی عورت 7.5 بچوں کی پیدائش تھی جو کہ 1994ء میں کم ہوکر 1.4 بچے فی عورت تک پہنچ گئی۔ واضح رہے کہ دنیا میں آبادی کا تناسب برقرار رکھنے کے لیے فی عورت 2.1 بچوں کی پیدائش ضروری سمجھی جاتی ہے۔ اس کے علاؤہ اسقاطِ حمل کی تحریک کا انجام یہ ہوا کہ روس میں 1992ء میں اوسط 100 بچوں کی پیدائش کے مقابلے میں 225 اسقاطِ حمل کروائے گئے۔ 1959ء سے 1990ء کے دوران آبادی پر کنٹرول کی تحریک کا روس پر اثر یہ ہوا کہ 60 سال سے زائد عمر کی آبادی کُل آبادی کا 1990ء میں 16 فیصد تھی جو بڑھ کر 2015ء میں 20 فیصد تک پہنچ گئی۔ اور آج ہر تین میں سے ایک فرد کی عمر 60 سے 75 سال کے درمیان ہے۔ آج روس آبادی میں منفی نشوونما کی وجوہات سے شدید پریشان ہے اور اس کی معیشت پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں اور مزید ہوں گے۔ آج روس کی معاشی ترقی صفر اعشاریہ پانچ فیصد ہے۔ اس کی بنیادی وجہ کام کرنے والے لوگوں کا نہ ہونا اور زیادہ افراد کے 60 سال سے زائد عمر کو پہنچ جانے کے بعد ریاست کے وسائل پر ایک بوجھ بن جانا ہے۔ اِس وقت اس پریشان کن منفی شرح آبادی کو دیکھتے ہوئے روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے اعلان کیا ہے کہ ہر وہ عورت جو دس بچوں کو جنم دے گی اور اس کا دسواں بچہ ایک سال کی عمر تک پہنچ جائے تو نہ صرف ریاست اس عورت کو اعلیٰ ترین اعزاز دے گی بلکہ اسے بطور انعام ایک ملین روبل (روسی کرنسی) بھی دیے جائیں گے۔ اس کے علاؤہ اُس کی اور اُس کے بچوں کی کفالت، تعلیم، صحت، اور گھر کی ذمہ داری بھی ریاست کی ہی ہوگی۔

دنیا کی سب سے بڑی آبادی رکھنے والا ملک چین آج امریکہ کے ساتھ معاشی ترقی کی جس دوڑ میں شامل ہے، دنیا بھر کے ماہرین کا خیال ہے کہ وہ شاید امریکہ کو جلد پیچھے چھوڑ کر پہلی پوزیشن پر نہ آپائے۔ اس کی بنیادی وجہ چین کی آبادی کی شرح نمو میں کمی ہے۔ چین نے بھی آبادی پر کنٹرول کی پالیسی کو ایک عرصے تک اپنائے رکھا کہ جس میں ”ایک خاندان ایک بچہ“ کی پالیسی تھی۔ اس کے منفی اثرات کے بعد ریاست نے دو بچوں اور پھر کئی بچوں کی اجازت تو دے دی لیکن معاشرہ جس نہج پر استوار ہوچکا تھا اس میں اب تبدیلی ممکن نہ تھی۔ لہٰذا اب چین بھی آبادی کی منفی شرح نمو کا شکار ہے۔ اور خبر یہ ہے کہ بھارت اس سال ہی چین کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی سب سے بڑی ابادی بننے جارہا ہے اور ساتھ ہی وہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بھی بن چکا ہے۔ آبادی پر کنٹرول کی پالیسی دور تک اب چین کا پیچھا کرے گی اور تخمینہ یہ ہے کہ سال 2080ء میں چین کی آبادی کم ہوکر ایک ارب رہ جائے گی، جبکہ آج چین کی آبادی 1.4 ارب ہے، اور چین کو مزید ترقی کے لیے اس آبادی کو کم از کم برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ آبادی میں کمی کا منطقی نتیجہ دنیا بھر میں بوڑھوں کی تعداد میں اضافے اور نوجوانوں کی تعداد میں کمی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ معاشی ترقی میں حصہ لینے والے اور ریاست کو آمدن دینے والے افراد کم ہوں اور اور عمر رسیدہ افراد یعنی جو ریاست کو کما کر دینے کے بجائے اس کے وسائل استعمال کرتے ہوں وہ بڑھ جائیں تو جدید معاشی نظام میں کوئی بھی ایسی ریاست کبھی معاشی ترقی نہیں کرسکتی۔

آج یہی صورتِ حال جاپان، آسٹریلیا، آئس لینڈ، نیوزی لینڈ، کینیڈا، امریکہ اور خود برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک میں ہے جہاں آبادی پر کنٹرول کی مہم معاشی ابتری پھیلا چکی ہے، ان ممالک کے مقامی لوگ اب بچوں اور خاندان سے دور بھاگتے ہیں، اور یہ ممالک اپنی معاشی ترقی کو حاصل کرنے یا برقرار رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً دلفریب پیکیج دے کر دنیا بھر سے مہاجرین کو اپنے پاس بلاتے ہیں جوکہ ان کی ملکی معیشت کا نہ صرف پہیہ چلاتے ہیں بلکہ ان کے مقامی افراد کے بوجھ کو ریاست کے ٹیکس کی صورت میں ہلکا بھی کرتے ہیں۔

مالتھس اگر آج زندہ ہوتا تو شاید اس نظارے کی تاب نہ لا سکتا کہ خود اس کے اپنے ملک برطانیہ میں ایک مہاجر کا بچہ رشی سونک وزیراعظم اور دوسری مہاجر خاتون سوئیلا براومین وزیر داخلہ ہے، اس کے علاؤہ اسکاٹ لینڈ کا فرسٹ منسٹر یعنی وزیراعظم بھی ایک مہاجر کا بچہ حمزہ یوسف ہے۔ یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ وجوہات بہت سی ہوسکتی ہیں لیکن اس کی بڑی اور اصل وجہ مقامی لوگوں کا اپنی آبادی بڑھانے پر توجہ نہ دینا ہے۔ آج بھی برطانیہ کی آبادی میں اضافے کی شرح محض 1.5 بچے فی عورت ہے جوکہ مطلوبہ شرح سے کم ہے، اور اس میں بھی زیادہ ہاتھ ایشیا، مشرقی یورپ اور افریقی نژاد مہاجرین کا ہے جن میں اوسط بچے فی عورت 2.03 ہے، ورنہ صرف گوروں کی شرح نمو ایک بچہ فی عورت اوسط سے بھی کم ہو۔ جبکہ ان کو خود اپنی آبادی برقرار رکھنے کے لیے 2.1 بچے فی عورت کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں جس مقدمے کو بنیاد بناکر تحاریک برپا کی جارہی ہیں وہ دنیا کے متروک نظریات ہیں۔ آج دنیا میں سب سے قیمتی چیز انسان اور انسانی وسائل یا ہیومن ریسورس ہے۔ اس کو پوری دنیا میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ بھارت نے اپنی بڑی ابادی کے باوجود پوری دنیا میں جس طرح افراد کو پہنچاکر ان کو اعلیٰ ترین اداروں کے سربراہوں کے منصب تک پہنچا دیا ہے وہ ابادی کنٹرول کرنے کی تحریک کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مالتھس کا نظریہ کیونکہ خالق سے تصادم کا نظریہ تھا وہ ناکام ہوا، اور ہم آج تک متروک نظریات کا نہ صرف پرچار کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے بلکہ بحیثیت قوم بھی ہم اپنے انسانی وسائل کا بہترین استعمال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ آج دنیا بھر کی سائنس و ٹیکنالوجی بھی انسانوں کی محتاج ہے، دنیا بھر میں آبادی اور بہترین انسانی صلاحیت رکھنے والوں کی شدید قلت ہے۔ اگر ہم بحیثیت قوم متروک نظریات کا پرچار کرنے کے بجائے انسانی وسائل اور اعلیٰ ترین ہنرمند افراد تیار کرنے کی کوئی قومی پالیسی اپنا پائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا کی نویں سب سے بلند شرح پیدائش رکھنے والا پاکستان بھی دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں اپنی جگہ نہ بنا سکے۔ لیکن اس کے لیے انسان اور انسانی وسائل کے درست استعمال کی ضرورت ہے جوکہ حکومت کے کرنے کا اصل کام ہے۔ کیا آئندہ آنے والی حکومت اس ضمن میں کوئی دوررس پالیسی مرتب کرپائے گی؟ اگر یہ ہو پایا تو پاکستان شاید دنیا میں کوئی مقام حاصل کرپائے، ورنہ یہی انسانی وسائل بیرونِ ملک جاکر دنیا بھر کی معیشتوں کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے اور چراغ تلے اندھیرا ہی رہ جائے گا