ایک نئی تحقیق کے مطابق گزشتہ 20 سال کے عرصے میں سمندروں کے رنگ میں واضح تبدیلی واقع ہوئی ہے اور اس کی ممکنہ وجہ انسانی سرگرمیوں کے سبب ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کو قرار دیا جارہا ہے۔برطانیہ کے نیشنل اوشیئنوگرافی سینٹر اور امریکہ کے میساچوسٹس اِنسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے محققین کی ایک ٹیم نے ایک بیان میں بتایا کہ عالمی سمندروں کے 56 فی صد سے زائد حصے کا رنگ بدل چکا ہے جس کو قدرتی تبدیلی نہیں کہا جاسکتا۔گزشتہ بدھ کو جرنل نیچر میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ٹراپیکل سمندر جو خطِ استوا سے قریب ہیں، کا رنگ گزشتہ دو دہائیوں میں بدل کر ہرا ہوا ہے۔ یہ تبدیلی ان کے ماحول کے اندر ہونے والی تبدیلی کو بھی واضح کرتی ہے۔سمندر کا رنگ درحقیقت اس کے اوپر کی تہہ پر موجود مواد کی وجہ سے آتا ہے۔ مثال کے طور پر گہرے نیلے سمندر کے اندر بہت محدود زندگی پائی جاتی ہے جبکہ ہرے رنگ کا مطلب ہوتا ہے کہ وہاں ایک ماحولیاتی نظام موجود ہے جو فائٹو پلینکٹن (پودے جیسے مائیکروبز جن میں کلوروفل ہوتا ہے) پر مبنی ہوتا ہے۔یہ فائٹو پلینکٹن غذائی جال کی بنیاد ڈالتے ہیں جو کِرل، مچھلیوں، آبی پرندوں اور سمندری ممولوں کی غذا کا سبب بنتے ہیں۔تحقیق کی شریک مصنفہ اسٹیفنی ڈُٹکی وچ کا کہنا تھا کہ یہ واضح نہیں کہ یہ ماحولیاتی نظام کیسے تبدیل ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام تبدیلیاں ماحول کی قدرتی ترتیب کے توازن کو خراب کررہی ہیں۔ اگر ہمارے سمندروں کا درجہ حرارت بڑھتا گیا تو وقت کے ساتھ توازن میں یہ خرابی مزید بدتر ہوتی جائے گی۔