’’مولانا ہمارے عوام خود اسلام کے راستے سے بہت دور چلے گئے ہیں، انہیں اسلام سے جذباتی لگائو تو ہوسکتا ہے، مگر غالباً ذہنی اور اخلاقی تربیت کے فقدان سے ان میں وہ جوہر نظر نہیں آتا جو اسلامی لیڈرشپ کو جنم دے سکے۔ ایسے میں جمہوری نظام قائم کرنے سے صالح قیادت کیسے بروئے کار آسکے گی؟‘‘
مولانا نے ایک بلند پایہ مفکر کے انداز میں فرمایا:
’’ان دونوں کی حالت میں ایک بنیادی فرق ہے۔ عوام کی اخلاقی حالت ضرور بگڑی ہوئی ہے اور ان میں جہالت بہت عام ہے، لیکن ان کی قدریں (Values) نہیں بدلیں۔ کسی بڑے سے بڑے بدکردار آدمی سے آپ بات کریں، تو تھوڑی دیر بعد محسوس ہوجائے گا کہ اس کی قدریں ابھی وہی ہیں جو ایک مسلمان کی ہونی چاہئیں۔ اپنی بدکرداریوں کے بارے میں اسے یہ تسلیم کرنے میں بھی تامل نہیں ہوگا کہ وہ جو کچھ کررہا ہے، برا کررہا ہے۔ برائی کو بھلائی کہنے والے لوگ عوام کے اندر آپ کو مشکل ہی سے ملیں گے۔
اس کے برعکس مغرب زدہ طبقے کی قدریں تبدیل ہوگئی ہیں۔ ان کا فلسفہ زندگی بدل گیا ہے۔ اسلام جن چیزوں کو برا کہتا ہے، وہ انہیں اچھا سمجھتے ہیں، اور اسلام جن چیزوں کو نیکیوں سے تعبیر کرتا ہے، ان کی کوئی وقعت اُن کی نگاہ میں نہیں۔ اسلامی روایات سے وہ منحرف ہوچکے ہیں، بلکہ ان کے اندر ان روایات کے لیے کوئی احترام نہیں پایا جاتا۔ ہماری یونیورسٹیوں میں جو پروفیسر تعلیم دے رہے ہیں، ان میں سے اکثر اس خیال کے حامی ہیں کہ تاریخِ انسانی میں مسلمانوں نے کوئی قابلِ ذکر کارنامہ سر انجام نہیں دیا۔ ایسے استاد بھی ہماری درس گاہوں میں موجود ہیں جو فرائڈ کے نظریات کے مطابق انبیائے کرام اور ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کی تصریح فرماتے ہیں۔ اونچے سرکاری مناصب پر ایسے لوگ رکھے جاتے ہیں جو شراب اور سود کو حلال ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے اور رقص و سرود کو اسلامی تہذیب و ثقافت قرار دیتے ہیں۔ ان لوگوں کے عقائد اور عوام کے عقائد کے درمیان کوئی مماثلت نہیں۔ اگر اقتدار اسلامی ذہنیت رکھنے والوں کے ہاتھ میں ہو، تو عامۃ المسلمین صرف چند برسوں میں یکسر تبدیل کیے جاسکتے ہیں، کیونکہ ان کے رگ و ریشے میں اسلامی تصورات اور اقدار موجود ہیں جنہیں ابھارکر عملی شکل دینے کی ضرورت ہے‘‘۔
(’’ملاقاتیں کیا کیا!‘‘ الطاف حسن قریشی: صفحہ 86)
مجلس اقبال
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
یہ شعر کل کی طرح آج بھی اہلِ مغرب کی حکومتوں کی منافقانہ پالیسی بیان کرتا ہے کہ ان کی حکومتیں علم و حکمت اور فلسفہ کی تعلیم کے دعوے تو بہت کرتی ہیں، جس طرح برصغیر میں برطانوی راج میں ہورہا تھا کہ اصل میں تو وحشی اور ظالم مگر زبان پر حقوق، محبت، انسانیت اور مساوات جیسے دعوے ہوتے تھے۔ آج کے حالات میں عراق، افغانستان، لیبیا اور شام وغیرہ مسلمان ممالک میں مغربی وحشت و دہشت اور درندگی کا منظر دیکھیں اور ان کی زبانوں پر امن و حقوقِ انسانی جیسے دعوے، تو ان کی منافقانہ روش سامنے آجاتی ہے۔ کس قدر غضب کا مقام ہے کہ پورے عالمِ اسلام پر ننگی جارحیت کے ارتکاب اور آگ و بارود کی موسلادھار بارش کے باوجود عالمی سلامتی کونسل کے مالکان بنے ہوئے ہیں۔ یوں ’’پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات‘‘۔ حقیقت میں علامہ کے الفاظ میں گویا مستقبل کی پالیسی ہے۔