حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے کہا یا رسول اللہ !میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے پہلے میں کس کو حصہ بھیجوں ؟ آپ ﷺ نے فر مایا:
” جس کا دروازہ تجھ سے زیا دہ نزدیک ہو “۔
( بخاری، جلد اول کتاب الشفعہ حدیث نمبر :2115)
دین کا صحیح شعور ہو یا نہ ہو‘ تاہم یہ حقیقت ہے کہ خواتین میں دینی احساس مردوں کے مقابلے کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ میلاد کی محفلیں‘ نعت خوانی کی مجلسیں‘ نذرونیاز‘ تیجا‘ چالیسواں‘ نوحہ خوانی‘ یہ سب دراصل خواتین ہی کے دم سے قائم ہیں اورمسلمان معاشروں میں ان کے چرچے خواتین ہی کی بدولت ہیں یہی خواتین اگر دین کا صحیح شعورحاصل کرلیں‘ قرآن و سنت کی صحیح تعلیم سے واقف ہوجائیں‘ دین کے صحیح تصور اور صحیح فہم سے آشنا ہوجائیں اورانھیں واقعی یہ احساس ہوجائے کہ وہ بھی خیراُمت کا حصہ ہیں‘ تو ہمارے گھروں کی فضا‘ خاندانوں کے حالات اور معاشرے کے طورطریق سب بدل جائیں۔
خداکی کتاب کا یہ خطاب کہ مسلمانو! تم خیر اُمت ہو‘ تمھیں لوگوں کی فلاح و ہدایت کے لیے اٹھایا گیا ہے‘ تم نیکیوں کا حکم دیتے ہو‘ برائیوںسے روکتے ہو اور تم واقعی خدا پرایمان رکھتے ہو یقیناً تمام مسلمانوں سے ہے۔ یہ خطاب صرف مردوں سے نہیں عورتوں سے بھی ہے۔ لازمی طور پر خواتین بھی اس حکم کی پابند ہیں‘وہ بھی دین کی نمایندہ اور دین کی ترجمان ہیں اور دین کی دعوت و تبلیغ ان کا بھی دینی فریضہ ہے۔ بے شک ہر وہ خاتون جو خدا پر ایمان رکھتی ہے اس کا یہ فرض ہے کہ اپنے حلقۂ کار میں دینِاسلام کی تبلیغ کرے۔ اپنے محرم مردوں کو دین سمجھنے اور دین پر عمل کرنے کی تلقین کرے اور خواتین میں عمومی حیثیت سے دین کی اشاعت کے لیے جدوجہد کرے۔ اگر خواتین میں اپنے منصب کا یہ احساس بیدارہوجائے تو گھروں میں اسلامی زندگی اور اسلامی روایات و تہذیب کا چرچا رہے‘ اسلامی تعلیمات تازہ رہیں‘ اور ہمارے گھرواقعی اسلام کے لیے فداکار سپاہی تیار کرنے کا مدرسہ بن جائیں۔
مغربی تہذیب کے زبردست غلبے نے اور پھر موجودہ تعلیم و تربیت نے دین سے دُوری اور بے گانگی کی عام فضا پیدا کردی ہے۔ اس بے دینی اور جاہلیت کا مقابلہ اگر کیا جاسکتا ہے تو صرف اس طرح کہ ہم اپنے گھروں کی طرف توجہ دیں‘ گھر میں ایسا ماحول پیدا کریں کہ ہماری خواتین دین کو سمجھنے‘ دین کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنے‘ دین کی روشنی میں اپنے گھر کے ماحول کو سدھارنے اوردین ہی کے مطابق بچوں کی تربیت اور پرورش کرنے کو اپنی زندگی کا سب سے عزیز مقصدسمجھنے لگیں۔ گھروں میں دینی فضا قائم رکھنے کا اہتمام اور بچوں کو دین کے مطابق اٹھانے کا اہم کام خواتین ہی انجام دے سکتی ہیں۔
دورِ سابق میں جب اسلامی تعلیمات کا چرچا تھا‘ عورتیں شروع ہی سے بچوں میں اسلام کی رغبت پیدا کردیتی تھیں۔ بچے دین کی معلومات اور دینی عبادات میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ قرآن پاک پڑھنے پڑھانے کا عام چرچا تھا۔ بچوں کوعام طور پر دعائیں یاد ہوتی تھیں: سوتے وقت کی دعا‘اُٹھتے وقت کی دعا‘ مسجد میں داخل ہوتے وقت کی دعا‘ مسجد سے نکلتے وقت کی دعا‘ کھانا شروع کرتے وقت کی دعا‘ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد کی دعا‘ پھل کھاتے وقت کی دعا‘ نیا لباس پہنتے وقت کی دعا‘ آئینہ دیکھتے وقت کی دعا‘ غرض بچوں کو یہ دعائیں اس طرح یاد ہوتی تھیں کہ وہ شوق اوردل بستگی کے ساتھ ان کو رٹتے رہتے تھے اور یہ معمولی بات نہ تھی۔ دراصل ان سادہ لوح بچوں کے پاک ذہنوں میں اس وقت جو نقوش ثبت ہوجاتے تھے ان کی آیندہ زندگی انھی نقوش کی آئینہ دار ہوتی تھی اور یہ زندگیاں اسی لیے اسلام کا پیکر ہوتی تھیں۔
ماں کی محبت بھری گود میں بیٹھ کر جو کچھ وہ رٹ لیا کرتے تھے‘ پھر زندگی بھر اُسے کبھی نہ بھولتے تھے۔ انھی بنیادوں پر ان کی زندگیاں استوار ہوتی تھیں‘ پھر نہ انگلستان کی فضا اُنھیں بدل سکتی تھی‘ نہ زمستانی ہوائیں ان پر اثر کرتی تھیں‘ اور نہ کوئی خوف اور لالچ ان پر اثرانداز ہوسکتا تھا۔ وہ جہاں رہتے تھے دین کے دردمند اور دین کے داعی اور حامی بن کر رہتے تھے۔ تاریخ اسلامی کی جن عظیم ہستیوں پر ہم فخر کرتے ہیں اور ان کے کارناموں کو یاد کرکے سردُھنتے ہیں وہ دراصل کارنامے ہیں ان گودوں کے جن میں یہ عظیم ہستیاں پل کرجوان ہوئی تھیں۔ اگر آپ اپنی تاریخ دُہرانا چاہتے ہیں اور اپنی عظمت رفتہ کو آواز دینا چاہتے ہیں‘ توضرورت ہے کہ آپ ایسی گودیں مہیا کرنے کے لیے کوشش و کاوش کریں۔ اگر ہم واقعی یہ آرزو رکھتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرہ بنے اور ہمارے سماج میں اسلامی اقدارو روایات کا چرچا ہو‘ ہر طرف اسلامی روایات اور تعلیمات کا تذکرہ ہو‘ تو اس کا کامیاب طریقہ یہی ہے کہ ہم اپنی عورتوں میں دین کا شعور پیدا کریں۔ گھر کے ماحول کو دین کے لیے سازگار بنائیں اور اپنی خواتین کو متوجہ کریں کہ وہ اپنے گھروں کو دین کا مدرسہ بنائیں۔ اگر ہمارے گھر دین کا مدرسہ بن جائیں تو پھر باہر کاماحول ہمارے گھروں میں ہرگز کوئی انقلاب لانے کی جرأت نہ کرسکے گا‘ بلکہ گھر کی یہ فضائیں باہر کے ماحول میں خوش گوار انقلاب لائیں گی اور اس انقلاب کا مقابلہ آسان نہ ہوگا۔
گھر کے ماحول پرسب سے زیادہ جو چیز اثرانداز ہوتی ہے‘ وہ ایک نیک دل‘ وفاشعار‘ دردمند‘ عالی حوصلہ اور دین دار خاتون کا اعلیٰ کردار اور پاکیزہ سیرت ہی ہوتی ہے۔ خواتین کی مدد اورتعاون کے بغیر نہ گھر کے ماحول میں سدھار آسکتا ہے اور نہ باہر کی فضا میں کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ کوئی ایسا خوش گوار پاکیزہ انقلاب جس کی جڑیں بہت مضبوط ہوں اور جو واقعی انسانوں کے قلب و دماغ کو بدل سکے، اسی وقت لایا جاسکتا ہے جب خواتین اس کی داعی بن جائیں اور وہ اپنے شب وروز اس کے لیے وقف کردیں۔
گھروں میں اسلامی تعلیم کی آسان کتابیں ضرور رکھیے۔ ان کے پڑھنے پڑھانے کا اہتمام کیجیے۔قرآن پاک کی تفسیر و ترجمے‘حدیثِ رسولؐ کے ترجمے‘دعاؤں کی کتابیں اور اسلام کی بنیادی تعلیمات سے متعلق کتابیں ضرور گھروالوں کے لیے فراہم کیجیے۔ پھر اپنے اوقات میں سے کچھ وقت ضرور فارغ کیجیے کہ گھر کے سارے افراد بیٹھ کر اجتماعی طور پر کچھ مطالعہ کریں‘ غوروفکر کریں‘ تبادلۂ خیال کریں‘ اور پھر یہ کوشش بھی کریں کہ دین کا جو علم و شعور حاصل ہوتا جائے اس کے مطابق دھیرے دھیرے زندگیوں میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے۔ تھوڑے ہی عرصے میں آپ دیکھیں گے کہ آپ کے گھر کی فضا بدلی ہوئی ہے اور یقین کیجیے کہ اس سے بڑی نعمت اور کوئی نہیں ہے کہ آپ کے گھر اسلامی زندگی کا حسین نمونہ بن جائیں اور آپ کے گھر والے اسلام کے داعی اور نمایندہ بن کر زندگی گزارنے لگیں۔