سیرتِ محبوبِ رب العالمینؐ

ایسی شخصیت کی سیرت نگاری جو بہترین نمونہ ہو اور جنہیں خود اللہ تعالیٰ نے رحمت اللعالمین کا لقب دیا ہو بلاشبہ وہی کرسکتا ہے جسے ذاتِ محمدیؐ سے دلی عقیدت ہو اور جو تحقیق کے تحفظات سے واقف ہو، اور جسے حقیقت نگاری کا ہنر آتا ہو۔
بشریٰ رحمٰن جو لفظ شناسی اور جذبات کی عکاسی کے ہنر سے بہ خوبی آشنا ہیں انہوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی 23 سالہ نبوی زندگی کا احاطہ اپنی تصنیف ’’سیرتِ محبوبِ رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ میں نہایت عرق ریزی سے کیا ہے۔ یوں تو سیرتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت سی کتابیں آچکی ہیں اور ہر مؤلف نے اپنے اپنے انداز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی زندگی اور سیرت کو بیان کیا ہے جس میں اب بشریٰ رحمٰن نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کئی پیغمبر آئے جنہوں نے اپنی اپنی قوم اور معاشرے کی اخلاقی طور پر اصلاح کی، لیکن ایک نئی تہذیب اور ریاست کی بنیاد سوائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی نے نہیں رکھی۔ یہ اس لیے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوجانا تھا۔ اس لیے آخری نبیؐ ہی کو یہ فریضہ سونپا گیا کہ وہ ایک ایسے معاشرے، تہذیب اور ریاست کی بنیاد قائم کر جائیں جو انؐ کی وفات کے بعد نسل در نسل اس کی انقلابی روح کو قائم رکھ سکے۔ تاریخِ اسلام میں جو مقام میثاقِ مدینہ کو حاصل ہوا اس کا ذکر بشریٰ رحمٰن نے تفصیل سے کیا ہے جس کے بعد ہی ریاست مدینہ کی اصطلاح عام ہوئی۔ سیاسی نقطہ نظر سے میثاقِ مدینہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں اجتماعیت کا کیا مقام ہے، اور یہ کہ ریاست مدینہ میں غیر مسلم بھی برابر کے شہری ہوسکتے ہیں۔
اسی طرح صلح حدیبیہ بھی ایک سیاسی کامیابی تھی جس کا ذکر بشریٰ رحمٰن نے یہ کہہ کر کیا کہ اس سے جنگ کا خطرہ جاتا رہا۔ دراصل جو بات اُس وقت مسلمانوں کو بظاہر باعثِ اعزاز دکھائی نہ دی تھی اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوررس نگاہوں نے بھانپ لیا تھا کہ مسلمانوں نے مکہ سے ہجرت کرکے جو ریاست مدینہ قائم کی تھی وہ ریاست اب قریش مکہ کے ساتھ برابر کی حیثیت اختیار کرچکی تھی۔ یعنی ایک عام عرب کی نظر میں قریشِ مکہ اور ریاست مدینہ کی حیثیت برابر ہوچکی تھی جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلنا تھا کہ عرب کے عوام کا رجحان اسلام کی جانب ہو کہ یہ کون سا نظام ہے جس کے ساتھ قریش کو صلح کرنی پڑی؟ اسی لیے امام عسقلانیؒ نے واقعہ صلح حدیبیہ کو فتح مبین قرار دیا جو کہ بعد میں فتحِ مکہ کا باعث بنی۔
امید کی جاتی ہے کہ بشریٰ رحمٰن کی تصنیف ان کے مخصوص انداز کی وجہ سے قارئین کو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے متعلق آگاہی فراہم کرسکے گی، اہلِ علم اس سے استفادہ کرسکیں گے اور سیرت نگاری پر شائع ہونے والی کتابوں میں اسے اہم تصور کیا جائے گا۔