او آئی سی کا اجلاس ،پاکستان کی جانب سے قرارداد پیش واقعے کی شدیدمذمت
سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی کے واقعے کی پوری دنیا کے مسلمانوں نے شدید مذمت کی ہے اور سراپا احتجاج ہیں۔ اسلام آباد سمیت ملک بھر میں جماعت اسلامی کی لیڈرشپ اور ہر شہر میں اس کے کارکنوں اور راہنمائوں نے ریلیاں نکالیں، اور اس مہم کو ’’قرآن میری جان‘‘ کا نام دیا۔
سویڈن واقعے پر اسلام آباد میں تاجر راہنما کاشف چودھری کے علاوہ مدثر فیاض چودھری، بلال احمد، عمران شبیر، کامران عباسی، احسان عباسی اور اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے صدر سجاد سرور، اسرارالحق مشوانی، ذوالقرنین عباسی نے بھی تاجروں کے احتجاج کے لیے پروگرامات ترتیب دیے اور شرکت کی۔ ہر شعبۂ زندگی کے افراد نے احتجاج کیا اور اس میں حصہ لیا۔ صورتِ حال کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جس میں ایک قرارداد منظور کی گئی۔ اب اگلے مرحلے میں پاکستان اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں بحث کے لیے مذہبی منافرت کے خلاف ایک قرارداد پیش کرے گا، تاہم کچھ مغربی ممالک نے اس کی مخالفت کی ہے۔ پاکستان کی طرف سے قرارداد کا مسودہ او آئی سی کی ایما پر پیش کیا گیا۔ او آئی سی نے قرآن نذرِ آتش کرنے کو جارحانہ اور اشتعال انگیزی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس سے نفرت کو ہوا ملتی ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ مسودے میں یورپی اور دیگر ممالک میں قرآن کو نذرِ آتش کرنے کی مذمت کی گئی ہے، لیکن کچھ مغربی ممالک کے سفارت کاروں نے اس کی مخالفت کی اور اسے انسانی حقوق کے بجائے مذہبی علامت کا تحفظ قرار دیا ہے۔ یہ ایک عجیب پیمانہ ہے، جہاں مغرب کا اپنا مفاد ہو وہاں اس کا رویہ مختلف ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کونسل میں او آئی سی کے ممبر ممالک کی تعداد زیادہ ہے جس پر مغربی ممالک کو تشویش ہے۔ انسانی حقوق کونسل کے 47 ممبر ممالک میں سے 19 او آئی سی کے ممبر ہیں۔ اس کے علاوہ چین سمیت دیگر ممالک بھی اس قرارداد کی حمایت کررہے ہیں۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان او آئی سی کے تمام ممبر ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو پائے گا۔
سویڈن میں عدالت کی اجازت کے بعد انتہا پسندوں نے عیدالاضحی کے پہلے روز دارالحکومت اسٹاک ہوم کی سب سے بڑی اور مرکزی مسجد کے باہر قرآن پاک کی بے حرمتی کی۔ اس واقعے سے دنیا بھر کے مسلمان مغموم ہی نہیں گہرے غم و غصے میں ہیں۔ یہ واقعہ پولیس کی جانب سے اجازت یافتہ احتجاج کے دوران ایک شخص نے انجام دیا تھا۔ ایک بین الاقوامی اسلامی ادارے کی جانب سے مستقبل میں مسلمانوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی سے بچنے کے لیے اقدامات پر زور دینے کے بعد سویڈش حکومت نے ’’اسلام فوبک‘‘ ایکٹ کی مذمت کی۔ مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک سمیت کئی ممالک کے حکام نے بھی اس واقعے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسٹاک ہوم سے مذہبی منافرت کے خلاف اقدامات تیز کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں، اس سے پہلے سویڈن میں دائیں بازو کے راہنما راسمس پلوڈن نے دو سے زائد بار قرآن پاک کی بے حرمتی کی ناپاک جسارت کی تھی جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔ لیکن حالیہ واقعہ اس لیے بھی قابلِ مذمت ہے کہ یہ ایک عدالتی فیصلے کی روشنی میں ہوا ہے، اورپولیس نے قرآن کی بے حرمتی پر آواز اٹھانے پر ایک مسلمان نوجوان کو اشتعال انگیزی کا الزام لگا کر گرفتار کرلیا۔ اس واقعے کے خلاف عالم اسلام میں ردعمل پیدا ہونا ایک فطری امر تھا۔
پاکستان، ترکیہ، اردن، فلسطین، سعودی عرب، ایران اور روس سمیت متعدد ممالک کی جانب سے بھی اس اقدام کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ ردعمل اس قدر شدید تھا کہ مراکش نے اپنا سفیر واپس بلالیا، اور اس واقعے کی شدید مذمت کی اور اس ناقابلِ قبول عمل کو مسترد کردیا۔ عراق میں بھی مظاہرے ہوئے، بغداد میں سویڈن کے سفارت خانے پر دھاوا بول دیا گیا، ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ ہم متکبر مغربی لوگوں کو سکھائیں گے کہ مسلمانوں کی مقدس اقدار کی توہین کرنا اظہارِ رائے کی آزادی نہیں ہے۔ ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے کہا کہ وہ اس لیے فکرمند ہیں کیونکہ سویڈن اشتعال انگیزی کو روکنے میں ناکام ہے، توقع ہے کہ سویڈن گزشتہ سال نیٹو میڈرڈ سربراہی اجلاس میں طے پانے والے معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کو پورا کرے گا، تاکہ فوجی اتحاد میں شامل ہوسکے۔
پاکستان کی درخواست پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے سویڈن میں مسجد کے باہر قرآن مجید کو نذرِ آتش کرنے کے معاملے پر ہنگامی اجلاس منعقد کیا۔ اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی نے کہا ہے کہ قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف سخت ترین اقدامات کی ضرورت ہے، متعلقہ حکومتیں گھنائونے حملے روکیں۔ او آئی سی کے ہنگامی اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ایسے واقعات باہمی احترام اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتے ہیں، انسانی حقوق کے عالمی قوانین کے مطابق آزادیِ اظہار کا حق استعمال کیا جائے۔ اعلامیے میں مسلم ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مستقبل میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات کے تدارک کے لیے اجتماعی اقدامات کریں۔ عالمی ردعمل کا ایک بڑا اسکیل دیکھ کر سویڈن کی حکومت نے اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر قرآن پاک کی بے حرمتی کی مذمت کی اور سویڈش وزارتِ خارجہ نے مؤقف دیا کہ توہین آمیز واقعے سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں، قرآن پاک یا کسی مقدس کتاب کی توہین اشتعال انگیز، جارحانہ اور گستاخانہ اقدام ہے، ایسے واقعات حکومت کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتے، ان کی حکومت اسلاموفوبیا کے اقدامات کو سمجھتی ہے جس کا ادراک سویڈن میں مظاہروں کے دوران کچھ افراد نے انفرادی طور پر کیا ہے اور یہ مسلمانوں کی نظر میں اشتعال انگیز ہوسکتے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم ایسے اقدامات کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور ان کا سویڈش حکومت کے نظریات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سویڈن کی حکومت کی جانب سے یہ مذمت اُس وقت سامنے آئی ہے جب 57 رکنی مسلم ممالک کی آرگنائزیشن اسلامی تعاون تنظیم نے مستقبل میں قرآن پاک کی بے حرمتی کو روکنے کے لیے اجتماعی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم نے سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی پر اپنے ردِعمل میں کہا کہ قرآن پاک کی بے حرمتی کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے اور مذہبی بنیادوں پر نفرت کو روکنے کے لیے بین الاقوامی قانون کا استعمال کیا جانا چاہیے۔ تنظیم کے ایک غیر معمولی اجلاس میں سویڈن میں عیدالاضحی کے موقع پر قرآن مجید کی بے حرمتی کے واقعے اور اس کے مضمرات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اعلامیے میں متعلقہ ممالک کی حکومتوں پر زور دیا گیا کہ وہ ان ’گھنائونے حملوں‘ کی روک تھام سمیت قرآن اور دیگر اسلامی اقدار، علامتوں اور مقدسات کی بے حرمتی کی تمام کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے ایسے واقعات کے سلسلے کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت نسل، جنس، زبان یا مذہب کی تفریق کے بغیر انسانی اور بنیادی حقوق کا احترام اور ان کی پابندی کا فروغ تمام ریاستوں پر فرض ہے۔ ذمہ داری کے ساتھ اور متعلقہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق آزادیِ اظہار کے حق کا استعمال کیا جائے۔ او آئی سی نے عالمی امن اور ہم آہنگی کے لیے مذاہب، ثقافتوں اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے، افہام و تفہیم اور تعاون کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا۔ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طہٰ نے کہا کہ ہمیں بین الاقوامی قانون کے فوری اطلاق کے بارے میں بین الاقوامی برادری کو مسلسل یاددہانی کرانی چاہیے، یہ قانون واضح طور پر مذہبی منافرت کی وکالت کی ممانعت کرتا ہے۔
اس سانحے کے خلاف پاکستان بھر میں یوم تقدیسِ قرآن منایا گیا کہ ریاستیں اور بین الاقوامی تنظیمیں اسلام سمیت الہامی مذاہب کی علامتوں، مقدس کتابوں، شخصیات اورعبادت گاہوں کی بے حرمتی کو جرم قرار دینے کے لیے قانون سازی کریں اور اجتماعی حکمت عملی مرتب کرکے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔ اسلام آباد سمیت ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں سانحۂ سویڈن کی شدید مذمت کی گئی۔ سیاسی جماعتوں، وکلا، مزدوروں، تاجروں، اساتذہ، طلبہ اور دیگر طبقوں کی تنظیموں نے احتجاجی مظاہرے کیے اور ریلیاں نکالیں اور سویڈن پر معاشی پابندیوں کا مطالبہ کیا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اس واقعے کو ایک سازش قرار دیا اور متنبہ کیا کہ ایسی حرکت کوئی دوبارہ نہ کرے ورنہ جواب آنے پر ہم سے کوئی گلہ نہ کرے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران سویڈن میں قرآن مجید کی توہین کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظورکی گئی جس میں کہا گیا کہ دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے واقعات بڑھ رہے ہیں جنھیں روکنے کے لیے کوئی بھی حکومت نہ تو قانون سازی کررہی ہے نہ سیکورٹی کے ذریعے ایسے واقعات کو روکا جاتا ہے۔ مغرب یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک لبرل معاشرہ ہے جہاں اظہارِ رائے کی مکمل آزادی ہے، جس کے لیے مغرب اقوام متحدہ کے آرٹیکل دس کا سہارا لیتا ہے، آرٹیکل 10 حکومتی مداخلت کے بغیر آپ کو اپنی رائے رکھنے اور آزادانہ طور پر اس کے اظہار کے حق کا تحفظ کرتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس حق پر کوئی پابندیاں ہیں؟ اگرچہ آپ کو اظہارِ رائے کی آزادی ہے، لیکن اس کا استعمال ذمہ داری سے کرنا ضروری ہے کہ دوسرے لوگوں کے حقوق کا احترام کیا جائے۔ اسی بنیاد پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے سویڈن سمیت پوری دنیا پر زور دیا گیا کہ اسلام سمیت تمام مذاہب، مقدس ہستیوں اور عقائد کا احترام کیا جائے۔ ناموسِ قرآن ہمارے ایمان کا حصہ ہے، سویڈن سمیت دنیا بھر میں کہیں بھی قرآن کریم کی بے حرمتی کسی مسلمان کو برداشت نہیں، اس لیے دنیا کی تمام امن پسند، مہذب اقوام اور عالمی ادارے سوا ارب مسلمانوں کے دل دُکھانے، ان کے لیے مقدس اور محترم شعائر اور علامات کے خلاف نفرت پھیلانے اور اسلاموفوبیا کے واقعات روکنے کے لیے کردار ادا کریں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کی گئی قرارداد میں بجا طور پر اس امر کی توقع کی گئی کہ آئندہ اس طرح کے واقعات نہیں ہونے دیئے جائیں گے۔ قرارداد میں اسلامی سربراہی کانفرنس پر زور دیا گیا کہ اسلاموفوبیا کے سدباب اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے اس فورم کو ٹھوس طریقے سے بروئے کار لایا جائے۔ ہم اظہارِ رائے کے خلاف نہیں، مگر اس کی آڑ میں کسی کے مذہب اور مقدس شخصیات کی بے حرمتی، پروپیگنڈا اور زہر پھیلانے کی دنیا کا کوئی قانون اجازت نہیں دیتا۔ ہمیں اسلامی دنیا کے ساتھ مل کر مضبوط آواز اٹھانی ہے۔ مشترکہ اجلاس میں تمام پارلیمانی لیڈرز اور اقلیتی ارکان نے ایک آواز ہوکر سویڈن کے دل آزار واقعے کی مذمت کی اور عالمی برادری بالخصوص لبرل اور سیکولر ممالک سے مطالبہ کیا کہ دنیا میں امن مقصود ہے تو اس طرح کے ملعونوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دینی مقدسات میں سب سے اہم ذاتِ باری تعالیٰ، ذاتِ رسالت مآبؐ اور قرآنِ کریم ہے، مزید تفصیل کا یہ مقام نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ عالی صفات کے ساتھ ساتھ ذاتِ رسالت مآبؐ کی عظمتِ شان اور آداب خود قرآنِ کریم میں بھی بیان کیے گئے ہیں۔ مسلمان عملی اعتبار سے کتنا ہی کمزور ہو، دینی مقدسات کی بے حرمتی پر مشتعل ہوجاتا ہے، اپنے جذبات پر قابو رکھنا اس کے لیے دشوار ہوجاتا ہے اور وہ اپنی جان، مال، آبرو، حتیٰ کہ اپنا سب کچھ ان مقدسات پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور
مغرب میں جب بھی اس طرح کے واقعات ہوئے، دنیا بھر کے مسلمانوں نے بے اختیار اپنے ردعمل کا اظہار کیا، اس میں وہ مسلمان تارکینِ وطن بھی شامل ہیں جو اُن ممالک کی شہریت اختیار کرچکے ہیں یا قانونی طور پر وہاں مقیم ہیں۔سوال یہ ہے کہ ہم مسلمان اپنے دینی مقدسات کی حرمتوں کا تحفظ کیسے کریں؟ ان دیدہ دانستہ مذموم ابلیسی تحریکات کا سدباب کیسے کریں؟ یہ مسئلہ مسلمانوں کے اہلِ فکر ونظر کے لیے سنجیدہ اور گہرے غورو فکر کا تقاضا کرتا ہے، یہ اہلِ مغرب کی بہت گہری سازش ہے جسے سمجھنا ضروری ہے، مسلم دنیا کے تعلیم یافتہ افراد آگے آئیں اور راہنمائی کریں۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ ’مغربی ممالک میں وقتاً فوقتاً اس طرح کی مذموم حرکات (مثلاً اہانتِ رسول پر مبنی کارٹون چھاپنا، قرآنِ کریم کو جلانا، ہمارے دیگر دینی مقدسات کی بے حرمتی) دیدہ و دانستہ کی جاتی ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اہلِ اسلام اس پر بے اختیار ردعمل کا مظاہرہ کریں گے، اور وہ دوسری سازش کرتے ہوئے ان مظاہروں میں اپنے عناصر داخل کردیتے ہیں جو ان مظاہروں کو تشدد کی جانب لے جاتے ہیں، اسی بنیاد پر وہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ مسلمان انتہا پسند ہیں، عسکریت پسند ہیں، دوسروں کے خلاف نفرت انگیزی کرتے ہیں، دہشت گرد ہیں، ان سے امنِ عالَم کو خطرہ ہے۔ اور یہی نکتہ لبرل حضرات بھی لے کر اس بحث کو طول دیتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کا حل یہی ہے کہ جس ملک میں اسلام کے دینی مقدسات کی اہانت ہو، اقوامِ متحدہ کی سطح پر اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ اقوام متحدہ دینی مقدسات کی اہانت کے خلاف سخت قوانین بنائے، اسے قابلِ تعزیر جرم قرار دے، اور امتیاز نہ برتے۔ اقوامِ متحدہ سے بھی مطالبہ کیا جائے کہ ’’دہشت گردی‘‘ کی ایک جامع، مانع اور اجماعی تعریف کی جائے، کیونکہ ایک یا چند افراد کو زبان، مذہب یا رنگ ونسل کی بنیاد پر جسمانی اذیت پہنچانا اگر دہشت گردی ہے تو ایک یا چند افراد کے ابلیسی حرکت کے ذریعے ڈیڑھ پونے دو ارب مسلمانوں کو ذہنی، روحانی اور قلبی اذیت پہنچانے کو بھی دہشت گردی اور قابلِ تعزیر جرم قرار دیا جائے، اس مسئلے کا یہی ایک حل ہے، کیونکہ درحقیقت یہ سب سے بڑی دہشت گردی ہے۔ حرمتِ قرآن کریم اور ختم نبوت کا تحفظ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے جس کے لیے وہ کٹ مرنے کو بھی ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ذاتِ باری تعالیٰ کی جانب سے نبی آخرالزماں محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائے گئے دینِ اسلام میں سب سے زیادہ شرفِ انسانیت پر زور دیا گیا ہے۔ بلاشبہ یہ انسانیت کی فلاح اور سلامتی کا دین ہے جس کے لیے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین کے مقدس لقب سے سرفراز کیا گیا اور امت کی بخشش کی فضیلت سے نوازا گیا۔ اسلام نے امن و آشتی اور صلہ رحمی کا درس دے کر اسلامی فلاحی ریاست کے تصور کو اجاگر کیا ہے۔ بلاشبہ فلاحِ انسانیت پر مبنی دینِ اسلام کو روزِ قیامت تک قائم و برقرار رہنا ہے اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت و مقام اللہ جل شانہٗ کے آخری رسول کا ہے جس پر مہرِتصدیق مقدس الہامی کتاب قرآن کریم کے ذریعے ثبت کی گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سویڈن میں سرکاری سرپرستی میں کی گئی توہینِ قرآن کی پلید حرکت پر پوری مسلم دنیا او آئی سی کے پلیٹ فارم پر یکسو ہو کر ایسے واقعات کے سدباب کے لیے عملی اقدامات کرے۔