بچوں کا تحفظ مگر کیسے؟

بچوں کو جسمانی بیماریوں اور سماجی برائیوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو اپنے بچوں کو وقت دیں

بطور والدین، ہم سب اپنے بچوں کو محفوظ اور صحت مند رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ان کو مختلف بیماریوں سے بچانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں جو انھیں متاثر کرسکتی ہیں۔ اگرچہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ آپ کے بچے کبھی بیمار نہیں ہوں گے۔ لیکن بہت سی چیزیں ہیں جو والدین اپنے بچوں کے بیمار ہونے کے خطرے کو کم کرنے کے لیے کرسکتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم بچوں کو جسمانی بیماریوں سے بچانے کے ساتھ سماجی بیماریوں سے مفحوظ رکھنے میں والدین کے کردار پر بھی بات کریں گے۔

پہلی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ والدین کے لیے یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ ان کے بچوں کو اُن تمام بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے گئے ہیں جو ان پر ممکنہ طور پر اثرانداز ہوسکتی ہیں۔ یہ سب سے اہم قدم ہے جو والدین اپنے بچوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے اٹھا سکتے ہیں، کیونکہ یہ بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ خسرہ، ممپس، روبیلا اور پولیو جیسی مختلف بیماریوں کے لیے ویکسین دستیاب ہیں۔ والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کے نظام الاوقات کو برقرار رکھیں، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ان کے بچے ان بیماریوں کے خلاف بہترین ممکنہ تحفظ حاصل کررہے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ والدین کو یہ یقینی بنانے کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہئیں کہ ان کے بچے حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل کریں۔ اس کا مطلب ہے کہ اپنے بچوں کو یہ سکھائیں کہ اپنے ہاتھ کیسے صحیح طریقے سے دھوئے جائیں، کیونکہ یہ جراثیم اور بیکٹیریا کے پھیلاؤ کو روکنے کے سب سے مؤثر طریقوں میں سے ایک ہے۔ والدین کو یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ ان کے بچے برتن، پانی کی بوتلیں، یا دیگر اشیاء دوسرے بچوں کے ساتھ بانٹ نہیں رہے ہیں، کیونکہ اس سے جراثیم اور بیکٹیریا بھی پھیل سکتے ہیں۔ یہاں والدین کے ساتھ ایک نئی تحقیق بھی شیئر کرنا مناسب ہوگا کہ ہم روزانہ کس طرح اپنے بچوں کی صحت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ یورپین ایسوسی ایشن فار اسٹڈی آف لیور کی تحقیق کے مطابق کچن میں موجود کھانے میں استعمال ہونے والی چیزیں متعدد خطرناک بیماریوں کی وجہ بن سکتی ہیں۔ محققین کے مطابق کچن میں استعمال کیے جانے والے ایلومینیم کے برتنوں سے گردے اور پھیپھڑوں سے متعلق بیماریاں جنم لے سکتی ہیں۔ ایلومینیم گرم ہونے کے ساتھ ہمارے کھانے میں شامل ہوکر نقصان کا باعث بنتا ہے۔

اس کے برعکس ماہرین کی طرف سے ایلومینیم کے بجائے اسٹیل کے برتن استعمال کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ایلومینیم کے برتنوں کے ساتھ ساتھ ایسے برتن جن میں کیمیکل موجود ہو یا جنہیں نان اسٹک برتن کہا جاتا ہے، کا استعمال بھی خطرناک بیماریاں پیدا کرسکتا ہے۔ ان نان اسٹک برتنوں پر پولی ٹیٹرا فلورو ایتھائلین نامی کیمیکل کی کوٹنگ ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کیمیکل کوٹنگ اتنی خطرناک ہوتی ہے کہ اس سے دماغ اور پھیپھڑوں کی بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ ایلومینیم فوائل پیپر ایسی چیز ہے جس کا استعمال تقریباً 90 فیصد گھروں میں عام ہے۔ کھانا گرم رکھنے اور اس کا ذائقہ برقرار رکھنے کے لیے فوائل پیپر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق کھانے کو ایلومینیم فوائل میں لپیٹ کر رکھنے سے کھانا ایلومینیم میں موجود کیمیکلز کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے جو انسانی صحت پر خطرناک اثر کرتے ہیں۔ اسی طرح تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پلاسٹک کے ڈبوں اور بوتلوں کا استعمال نہ صرف ہمارے گھروں بلکہ دفاتر اور تعلیمی اداروں میں بھی عام ہے۔ محققین کی ریسرچ کے مطابق یہ پلاسٹک ’بسفینول اے‘ نامی خطرناک کیمیکل سے بنتا ہے جو ہماری صحت پر اس قدر منفی اثرات مرتب کرتا ہے کہ ہمارے مدافعتی نظام اور ہارمونز کو متاثر کردیتا ہے۔ اگر آپ ان بیماریوں پر قابو پانا چاہتے ہیں تو کچن سے ان تمام چیزوں کا استعمال ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

والدین کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی بھی بیماری یا بیماری کی علامات سے آگاہ رہیں جو ممکنہ طور پر ان کے بچوں کو متاثر کرسکتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین کو اپنے بچوں کے رویّے یا صحت میں کسی بھی غیر معمولی تبدیلی پر نظر رکھنی چاہیے۔ اگر انہیں کوئی غیر معمولی چیز نظر آتی ہے تو بچے کو چیک اَپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہیے۔ یہ اس بات کو یقینی بنانے کا بہترین طریقہ ہے کہ کسی بھی بیماری کو برقت پکڑ لیا جائے، اس کا علم ہوجائے اور بروقت علاج کیا جاسکے۔ کیونکہ کئی ایسی خطرناک بیماریاں ہیں جن کا بروقت پتا چل جائے تو وہ علاج سے ختم ہوسکتی ہیں۔

اسی طرح اس ڈیجیٹل دور میں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ والدین کو اپنے بچوں کو صحت مند کھانے اور ورزش کی اہمیت کے بارے میں بھی آگاہ کرنا چاہیے۔ غذائیت سے بھرپور اور متوازن غذا کھانے کے ساتھ ساتھ باقاعدگی سے جسمانی سرگرمیاں مدافعتی نظام کو بڑھانے اور بچوں کو بیماریوں سے بچانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ والدین کو خود بھی مثال بننا چاہیے، کیونکہ جب صحت مند طرزِ زندگی کے انتخاب کی بات آتی ہے تو بچوں کے اپنے والدین کے نقشِ قدم پر چلنے یا عادات کو اپنانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے، اور ویسے بھی یہ بات تجربے اور مشاہدے کی ہے کہ بچے والدین سے زیادہ سیکھتے ہیں۔

بچوں کو محفوظ بنانے کے ضمن میں ایک بات اور اہم ہے کہ حادثات دنیا بھر میں بچوں میں چوٹ اور اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ بچے متجسس اور بہادر ہوتے ہیں، اور ان کا فطری تجسس انہیں اکثر خطرناک حالات میں لے جاتا ہے۔ بحیثیت والدین ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کو حادثات سمیت نقصان سے بچائیں۔ بچوں کو ان کے ماحول میں موجود ممکنہ خطرات اور ان سے بچنے کے طریقوں کے بارے میں سکھانے کی ضرورت ہے۔ یہ تعلیم چھوٹی عمر سے شروع ہونی چاہیے اور بچے کے بڑے، اور خودمختار ہونے تک جاری رہنی چاہیے۔ والدین اپنے بچوں کو سڑک پار کرنے، ماچس کے ساتھ کھیلنے، گرم چولہے کو چھونے، اور گھر اور باہر دیگر خطرات کے بارے میں آگاہ کرسکتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو حفاظتی ہیلمٹ، سیٹ بیلٹ اور لائف جیکٹس پہننے کی اہمیت کے بارے میں بھی سکھا سکتے ہیں۔

ایک اور اہم کردار جو والدین اپنے بچوں کو حادثات اور برے لوگوں سے بچانے میں ادا کرسکتے ہیں وہ ہے ان کی نگرانی۔ والدین کو ہمیشہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھنی چاہیے

خاص طور پر جب وہ بڑے ہورہے ہوں، اور حادثات کا زیادہ خطرہ اور بری صحبت میں جانے کا امکان بھی اسی عمر میں زیادہ ہوتا ہے۔

آخر میں سب سے اہم بات… اپنے بچوں کو جسمانی بیماریوں اور سماجی برائیوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو والدین انہیں وقت دیں، ان کے ساتھ کھیلیں، کودیں، ان کے مسائل سنیں، روزمرہ کے معاملات کو ڈسکس کریں۔ کیونکہ جو بچے والدین کی بھرپور توجہ نہیں پاتے اُن کی شخصیت متاثر ہوتی ہے۔ ایسے بچے والدین کی محبت اور ان کی تربیت سے محروم رہ جاتے ہیں۔

ایسے بچے جو والدین کی نگرانی سے محروم ہوں وہ اکثر صحت کے مسائل سے دوچار رہتے ہیں۔