بے حال و بدحال کراچی کیا صورتِ حال بدلے گی…؟

جماعت اسلامی محدود وسائل کے ساتھ بھی شہر کے لوگوں کی خدمت میں مصروفِ عمل ہے

کراچی آج بھی اجڑا ہوا ہے۔ مستقبل میں شہر کا نظام کیسا چلے گا؟ کچھ واضح نہیں۔ پیپلز پارٹی نے جس طرح شہر پر ایک منظم ریاستی جبر کے ساتھ قبضہ کیا ہے اس میں نظر یہ آرہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے میئر کے پاس کوئی وژن یا پلان نہیں ہے، اگر ہوتا تو اب تک سامنے آچکا ہوتا۔ اس وقت شہر کا حال یہ ہے کہ جہاں جہاں دس، بارہ منٹ کی بارش بھی مختلف وقفوں میں ہوئی ہے وہاں پانی جمع اور تعفن پھیلتا رہا۔ اہم بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے بغیر کسی مربوط پلان کے جو سڑکیں بنائی تھیں وہ چند مہینوں میں ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہی ہیں اور معمولی بارش میں بھی جگہ جگہ ان میں پانی کھڑا نظر آیا۔ اسی طرح شہر میں لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ کے الیکٹرک کی اذیت اپنی جگہ موجود ہے، اس وقت شہر کے کئی علاقوں میں آٹھ سے دس گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ اسٹریٹ کرائمز کم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ اس صورتِ حال اور بدترین گورننس میں سوال یہ بنتا ہے کہ کیا کراچی کے لوگ پیپلز پارٹی کی موجودہ کارکردگی پر اس کو ووٹ دے سکتے ہیں؟ تو جواب یقیناً ”نہ“ میں ہی آئےگا۔ کیونکہ کراچی میں پیپلز پارٹی کو کچھ اچھا کرنا ہوتا تو برسوں سے اقتدار میں رہنے کی وجہ سے اب تک کرچکی ہوتی، لیکن اس نے نمائشی اقدامات اور شہر سے پیسے بنانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ گزشتہ بارشوں میں نالوں کا پانی سڑکوں پہ آنے کی وجہ سے شہریوں کو شدید آزمائش کا سامنا کرنا پڑا اور قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوا۔ شادمان نالہ بھر جانے کے باعث فیملی نالے میں گرگئی جس میں معصوم بچے کی لاش بہت دن تک نہیں مل سکی تھی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق بڑے نالوں کی صفائی کے لیے 80 کروڑ روپے کا ٹھیکہ دیا گیا ہے، تاہم شہر کے اکثرنالے اب بھی کچرے سے بھرے ہوئے ہیں اور ان کی صفائی کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔

جماعت اسلامی اس وقت اپنے محدود وسائل کے ساتھ پورے شہر کی خدمت میں مصروفِ عمل ہے۔ امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کی زیر صدارت گزشتہ دنوں ادارہ نورحق میں جماعت اسلامی کے 9 نومنتخب ٹاؤن چیئرمینز اور وائس چیئرمینز کا اجلاس منعقد ہوا جس میں حالیہ مون سون بارشوں اور شہر میں صفائی ستھرائی کی صورتِ حال سمیت نالوں کی صفائی کے نظام کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ ٹاؤن چیئرمینز نے بتایا کہ ڈیڑھ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن اب تک ٹاؤن چیئرمینز کو اختیارات منتقل نہیں کیا گیا اور نہ گاڑیاں اور نہ ہی وسائل دیے جارہے ہیں، سرکاری افسران عبوری مدت کے نام پر کرپشن کررہے ہیں جس کے باعث ہمیں کام کرنے میں دشواری کا سامنا ہے، خدشہ ہے کہ شہر کے بڑے نالوں کی بروقت صفائی نہ ہونے کے باعث شہر کے مضافاتی علاقے زیر آب آسکتے ہیں۔ اس وقت شہر کی صورتِ حال ناگفتہ بہ ہے۔

امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن مسلسل اس بات کا مطالبہ کررہے ہیں کہ فوری طور پر بلدیہ عظمیٰ کراچی کی سٹی کونسل کا اجلاس طلب کیا جائے اور بلدیہ کا بجٹ عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے سے ہی منظور کروایا جائے، ٹاؤن کے چیئرمینز کو بلاتاخیر چارج منتقل کیا جائے۔ ٹاؤنز اور اضافہ شدہ یوسیز چیئرمینز کو دفاتر دیے جائیں۔ حافظ نعیم کا کہنا ہے کہ ”پی ایف سی ایوارڈ اور موٹروہیکل ٹیکس سے کراچی کو اس کا جائز اور قانونی حصہ دیا جائے، 15 جون کو میئر کا انتخاب عمل میں آیا جبکہ 17 جون کو بلدیہ عظمیٰ کراچی کے لیے پیش کیے جانے والے بجٹ پر پرانی تاریخ میں سابق ایڈمنسٹریٹر سے دستخط کروائے گئے جو کسی صورت قبول نہیں۔ بلدیہ کے مالی و انتظامی معاملات سندھ حکومت کے پاس ہی ہیں، عبوری مدت کے نام پر بڑے پیمانے پر کرپشن کی جارہی ہے۔ جماعت اسلامی عوامی خدمت اور شہر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتی ہے، اگر رکاوٹ ڈالی گئی تو بھرپور مزاحمت کریں گے اور رکاوٹ ڈالنے اور کرپشن کی تمام سازشیں ناکام بنادیں گے، بلدیاتی انتخابات اور میئر شپ پر قبضے کے خلاف بھی آئینی و قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھیں گے۔“

ادارہ نورِحق میں شہر کی ابتر حالت، پانی کے بحران و دیگر عوامی مسائل اور منتخب بلدیاتی قیادت کو تاحال چارج کی عدم منتقلی کے حوالے سے جماعت اسلامی کے نومنتخب ٹاؤن چیئرمینز اور وائس چیئرمینز کے ہمراہ جائزہ بھی لیا گیا اور اس موقع پرجماعت اسلامی کے 9 ٹاؤن چیئرمینز نے اپنے اپنے ٹاؤن کی موجودہ صورتِ حال پر تفصیلی رپورٹ بھی پیش کی جس میں یہ بات سامنے آئی کہ ابھی تک ٹاؤن چیئرمینز کو چارج منتقل نہیں کیا گیا اور نہ ہی انہیں دفاتر اور گاڑیاں دی جارہی ہیں۔ سرکاری افسران گاڑیوں پر قبضہ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال کس کس مد میں کتنے روپے خرچ کیے گئے اور کتنے لوگوں کو تنخواہیں دی گئیں اس کا کوئی بھی ریکارڈ ٹاؤنز کے چیئرمینز کو نہیں دیا جارہا، کے ایم سی کے ملازمین کو ہٹا کر اُن کی جگہ اندرونِ سندھ سے لائے گئے نئے لوگوں کو تعینات کیا جارہا ہے۔

پیپلز پارٹی کس طرح کراچی کے وسائل پر قبضہ کیے ہوئے ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بلدیاتی نظام کے باوجود قائم کیا گیا اور آج بھی موجود ہے، جس پر حافظ نعیم الرحمٰن نے سوال بھی اٹھایا ہے کہ ”بلاول بھٹو زرداری وزیر خارجہ ہیں اور ناکام بلاول پروجیکٹ کے تحت دوسرے ممالک کا دورہ کرنے میں مصروف ہیں، وہ بتائیں کہ دنیا کا کون سا ایسا ملک ہے جس نے اپنے شہری اداروں کو اختیارات نہ دیے ہوں؟ سلیکٹڈ میئر مرتضیٰ وہاب بار بار اس بات کا اعادہ کرتے پھرتے ہیں کہ میں میئر ہوں، وہ بتائیں کہ صوبے میں بھی آپ کی پارٹی کی حکومت ہے، منتخب عوامی نمائندوں کو چارج اور بلدیاتی اختیارات کی منتقلی کیوں نہیں کی جارہی؟ کیا وہ ٹاؤن اور یوسیز کے بغیر خود کراچی کا کچرا صاف کروائیں گے؟ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن بننے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، اختیارات اور وسائل کی منتقلی سے مسئلہ حل ہوگا“۔ اُن کا ایک پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ ”عیدالاضحی کے موقع پر بھی جماعت اسلامی کے 9نومنتخب ٹاؤن چیئرمینز نے اپنی مدد آپ کے تحت شہر میں صفائی ستھرائی کے نظام کو بہتر بنایا، اور وہ ٹاؤنز جو پیپلز پارٹی کے پاس ہیں، ان کی صورتِ حال عوام کے سامنے ہے۔ پیپلز پارٹی نے کمپنیوں کو ٹھیکے دیے ہوئے ہیں جس کے پیسے عوام سے وصول کیے جارہے ہیں، اس کے باوجود کچرا نہیں اٹھایا جارہا ہے۔ پیپلزپارٹی نے کے بی سی اے کو ایس بی سی اے بناکر لوٹ مار کا دھندا جاری کیا ہوا ہے۔“ انہوں نے کہا کہ ”پیپلزپارٹی 15 سال سے سندھ پر حکومت کررہی ہے اور اب کراچی پر بھی سلیکٹڈ میئر کے ذریعے قبضہ کیا ہوا ہے۔ ٹینکروں سے تو پانی مل جاتا ہے لیکن نلکوں میں پانی نہیں آتا۔ موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ پورا کا پورا سسٹم منجمد کیا ہوا ہے۔ عبوری مدت ختم کرنے کے حوالے سے حتمی تاریخ ہی نہیں بتائی جارہی۔ پیپلزپارٹی کراچی پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتی ہے، جماعت اسلامی کسی صورت میں بھی کراچی پر قبضہ نہیں کرنے دے گی اور اختیارات کی منتقلی و دیگر مسائل کے حل کے حوالے سے آئینی، قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھے گی۔“

چیئرمینز نے جب اپنی اپنی رپورٹ پیش کی تو چیئرمین گلشن اقبال ٹاؤن ڈاکٹر فواد احمد جو پیشے کے لحاظ سے ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں اور سماجی کاموں میں خاصے متحرک ہیں اُن کا کہنا تھا کہ بلدیاتی اداروں کی تشکیل 2022ء میں ہوجانا تھی لیکن 2023ء میں بھی بلدیاتی نظام پوری طرح فعال نہیں ہوسکا۔ مالیاتی معاملات،ٹائونز میں وسائل کی تقسیم کی کیا صورتِ حال ہوگی، واضح نہیں۔ سرکاری افسران کی جانب سے مالی اختیارات کے استعمال میں منتخب نمائندوں کو بالکل لاتعلق رکھا گیا ہے۔ اسی طرح چیئرمین نیوکراچی ٹاؤن محمد یوسف نے کہاکہ پورے کراچی اور خاص طور پر نیو کراچی میں کئی سالوں سے پانی کی فراہمی کا مسئلہ ہے، ہم دفاتر پہنچتے ہیں تو روزانہ عوامی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، واٹر بورڈ کے افسران اپنے دفاتر کو تالے لگا کر غائب ہوجاتے ہیں، میئر کراچی کو اس صورتِ حال کا جائزہ لینا چاہیے، K-4 کے منصوبے پر سیاست سے بالاتر ہوکر کام کیا جائے، ہمارے دفاتر میں پہلے ہی ملازمین موجود ہیں لیکن اس کے باوجود اندرون سندھ سے مزید ملازمین لائے جارہے ہیں، اگر انہیں ایڈجسٹ کیا جائے گا تو مقامی ملازمین کہاں جائیں گے؟ چیئرمین نارتھ ناظم آباد ٹاؤن عاطف خان نوجوان تو نہیں لیکن جواں جذبہ رکھتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ”ہمیں پہلا واسطہ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ سے پڑا ہے، کچرا زیادہ ہے مشینری کم ہے جس کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے، بلدیاتی حلقہ بندیوں میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں ادارے اس سے ہم آہنگ نہیں ہوسکے“۔ چیئرمین جناح ٹاؤن رضوان سمیع نے کہا کہ جناح ٹاؤن بہت حساس ہے، محرم الحرام میں مزید حساس ہوجائے گا، اِس سال محرم الحرام کے مہینے میں مون سون آرہا ہے، عیدالاضحی کی طرح نہ کیا جائے کہ جن وسائل کی فراہمی کا وعدہ کیا گیا تھا اُن میں سے چوتھائی وسائل بھی نہیں دیے گئے۔

اس موقع پر نائب امیر کراچی عبدالوہاب،سیکریٹری اطلاعات زاہد عسکری،چیئرمین لانڈھی ٹاؤن عبدالجمیل خان، چیئرمین لیاقت آباد ٹاؤن فراز حسیب،چیئرمین گلبرگ ٹاؤن نصرت اللہ،چیئرمین ماڈل کالونی ظفر احمد خان بھی موجود تھے۔

بے حال اور بدحال کراچی اس وقت انتظامی مسائل کے لحاظ سے بدترین صورتِ حال سے گزر رہا ہے، لوگ سوچتے اور کہتے ہیں کہ کیا اس کی صورتِ حال بدلے گی…؟ شہر کو بدلنے کے لیے، اس کی حقیقی روشنی کو بحال کرنے کے لیے اسے اس کے حقیقی نمائندوں کو سونپنے کی ضرورت ہے، ورنہ یہ شہر اور اس کے لوگ اسی طرح بے یارو مددگار رہ کر مشکل حالات کے ساتھ جیتے رہیں گے اور کچھ نہیں بدلے گا۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ معاشرتی و سماجی تاریخ میں کئی ایسی نظیریں موجود ہیں کہ جب کسی خاص جگہ ناانصافی، ظلم و زیادتی بڑھ جائے تو وہاں سے ردعمل بہت شدت کے ساتھ اور غیرمنظم آتا ہے جسے ریاستوں کے لیے سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ملک میں کچھ سوچنے، سمجھنے اور غور وفکر کرنے والے لوگوں کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ سوچنا ہوگا۔