دارالحکومت کوئٹہ انتخابات سے محروم
بلوچستان میں مقامی حکومتوں نے اپنی مدت 2019ء میں پوری کرلی تھی۔ بعد ازاں آئینی مدت کے اندر پھر سے انتخابات کرانے کی ریاست اور حکومتوں نے زحمت ہی گوارا نہ کی اور بلدیاتی انتخابات پس منظر میں چلے گئے۔ مقامی حکومتیں اور یہ نظام اپنی نحیف حالت میں بھی حکمرانوں کو ناگوار ہے۔ جنرل پرویزمشرف کی آمریت میں متعارف کرائے گئے اس نظام میں اختیارات مقامی حکومتوں کو تفویض کیے گئے۔ ان حکومتوں کو ترقیاتی فنڈز دیئے گئے تھے۔ نامور سیاسی لوگ ان حکومتوں میں داخل ہوگئے، گہری دلچسپی لی گئی۔ وہ وقت گزرا تو مقامی حکومتیں سیاسی جماعتوں کی ترجیح نہ رہیں۔ یہاں تو آئین طاقتور کے ہاتھوں بازیچۂ اطفال ہی ہے۔ دستور کوبالادست کہا جاتا ہے مگر یہاں عملاً زیر دست پایا گیا ہے۔ تحریک انصاف نے پنجاب اور خیبر پختون خوا کی حکومتیں توڑ دیں۔ ظاہر ہے عمران خان نے مخالف وفاقی حکومتوں کے آگے سیاسی دائو کھیلا۔ مقصد یہ تھا کہ اس طرح عام انتخابات کی طرف جایا جائے۔ مگر معاملہ الٹ ہوا۔ دونوں صوبوں کی نگران حکومتیں منتخب حکومتوں کی طرح مسلط کردی گئیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب کے اندر 90 روز یعنی14 مئی 2023ء کو انتخابات کرانے کا حکم دیا جس کی تعمیل نہ ہوئی۔ کسی نے ملک کے حالات کے پیش نظر سیکورٹی دینے میں مشکلات کا عذر تراشا، کسی نے فنڈزکا۔ المیہ ہے کہ بعض ادارے جیسے قومی احتساب بیورو اور الیکشن کمیشن تو برسراقتدار طبقے کے باج گزار ٹھیر جاتے ہیں، یعنی دستور بھی پامال ہوا اور سپریم کورٹ کا حکم بھی ہوا میں تحلیل ہوا، اور ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا محاورہ حقیقت ثابت ہوا۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات بھی عدالتوں کے حکم پر منعقد کرائے گئے، وگرنہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے قانون سازوں کے نزدیک ان کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ اب جب انعقاد ہونا تھا تو یقینی طور پر اپنی شرکت سے لاتعلق نہیں رہ سکتے، انہیں نچلی سطح کے اندر سیاسی بقا کے لیے جڑیں مضبوط کرنا ہوتی ہیں۔ ایسا بلوچستان میں بھی ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں، علاقائی اتحاد اور شخصیات ان انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں تاکہ ان کی سیاسی و قبائلی ساکھ کو ضعف نہ پہنچے۔ کراچی میں جمہوریت کی علَم بردار پیپلز پارٹی نے دن دہاڑے ڈاکا مار کر جماعت اسلامی سے میئر شپ ہتھیا لی۔ پیش ازیں ابتدائی مراحل کے انتخابات میں سرکاری مشنری استعمال کرتے ہوئے کراچی کے انتخابات پر اثرانداز ہوئی اور آخرکار کراچی کی حکمرانی بھی چھین لی۔ یہ راہزنی الیکشن کمیشن، اسٹیبلشمنٹ اور پی ڈی ایم کی آنکھوں کے سامنے کی گئی۔ یقینی طور پر انتخاب چرانے کی اس واردات کے حوالے سے ان سب کی رضا شامل سمجھی جاتی ہے۔ بلوچستان میں بھی بلدیاتی انتخابات کا تماشا پچھلے سال مئی 2022ء سے جاری ہے۔ 29مئی کو بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کا انعقاد ہوا جس میں کوئٹہ اور لسبیلہ کے ماسوا صوبے کے تمام اضلاع میں میونسپل کمیٹیوں، یونین کونسلز اور چار ہزار 456 دیہی اور شہری وارڈز کے لیے ووٹ ڈالے گئے۔ پھر سات ماہ کے وقفے کے بعد 14دسمبر2022ء کو دوسرے مرحلے کے تحت مخصوص نشستوں پر انتخاب ہوا۔ ضلع لسبیلہ میں بعد میں انتخابات کرا لیے گئے۔ اس کے بعد آخری مرحلے کے لیے آٹھ ماہ بعد6جولائی 2023ء کا دن مقرر ہوا۔ چناںچہ کئی ماہ بعد 35اضلاع کی ضلع کونسل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے انتخابات ہوئے جن میں صوبے کی تمام سیاسی جماعتیں مشغول رہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی،کہیں بلوچستان نیشنل پارٹی تو کہیں قبائلی شخصیات نے کامیابیوں کے ڈنکے بجائے ہیں۔ اب بھی یہ انتخابات تشنہ ہیں کہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں جو کہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن ہے، کوئی بھی مرحلہ سرے سے سر ہی نہیں ہوسکا ہے۔ ظاہر ہے کوئٹہ کے اندر انتخابات کے لیے وقت درکار ہے۔ جب کوئٹہ میں انتخابات ہوں گے تو چوتھا مرحلہ مکمل ہوگا۔ یوں پھر جاکر یہ انتظامی اور مالی طور پر بے اختیار مقامی حکومتیں اور مشنری کام شروع کرے گی۔ اب تک کوئٹہ کے لیے شیڈول بھی نہیں دیاگیا ہے۔