فلسطینی اپنے وطن میں بے وطن

فلسطینیوں کو بے گھر کرکے بھیڑ بکریوں کی طرح خیموں کی طرف ہنکایا جارہا ہے

اسرائیلی کابینہ نے وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو المعروف بی بی کے حکم پر غربِ اردن کے مقبوضہ عرب علاقوں پر اسرائیلی بستیاں تعمیر کرنے کا مکمل اختیار وزیرخزانہ بیزلل اسموترچ (Bezalel Smotrich) کو دے دیا۔ گفتگو کے آغاز پر جناب اسموترچ کے تعارف سے قارئین کو بی بی سرکار کی نئی قبضہ پالیسی سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

43 سالہ اسموترچ انتہائی متعصب قدامت پسند بلکہ انتہا پسند ہیں اور ماضی میں فلسطینیوں کے خلاف پُرتشدد کارروائیوں میں بنفسِ نفیس شرکت کی بنا پر کئی بار ان کے خلاف پولیس پرچہ کاٹ چکی ہے۔ دو دہائی پہلے جب اسرائیلی فوج کو غزہ میں بھاری نقصان کا سامنا ہوا تو وزیراعظم ایرل شیرون نے وہاں سے فوج واپس بلالینے کا فیصلہ کیا۔ جناب اسموترچ نے جو اُس وقت ایک نوجوان سیاسی کارکن تھے، زبردست ہنگامہ کھڑا کردیا اور ایرل شیرون پر نامرد وزیراعظم کی پھبتی کستے ہوئے ”دفاعِ غزہ“ کے لیے عوامی فوج بنانے کا اعلان کیا۔ لیکن اُس وقت موصوف کا قد کاٹھ اتنا نہ تھا کہ کچھ کرپاتے۔ چنانچہ وہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاکر رہ گئے۔ فروری 2005ء میں کنیسہ (پارلیمان) نے Disengagement from Gaza کے عنوان سے ایک قرارداد منظور کرلی۔

پسپائی منصوبے کے تحت اسرائیل نے غزہ میں اپنی 21 بستیوں کو مسمار کرکے وہاں سے تمام فوجی اور شہری واپس بلالیے۔ اسی کے ساتھ مغربی کنارے کے شمالی حصوں میں تعمیر کی گئی چار بستیاں صنور، حومش، غنیم اور قدیم کو مسمار کرکے ان علاقوں میں اسرائیلیوں کے جانے پر پابندی لگادی گئی۔ یعنی جنین کا مضافاتی حصہ اور سارا غزہ اسرائیلیوں کے لیے علاقہ ممنوعہ یا no go areaبن گیا۔ پسپائی کے خلاف اسموترچ نے احتجاجی تحریک منظم کی اور موصوف شرپسندی کے الزام میں دھر لیے گئے۔ جب اسباب کی تلاشی لی گئی تو ان کے قبضے سے 700 لیٹر پیٹرول برآمد ہوا، تفتیش پر اسموترچ نے اعتراف کیا کہ وہ غزہ سے واپسی مسدود کرنے کے لیے وہاں سے نکلنے والے راستوں پر آگ بھڑکانا چاہتے تھے۔ سیاسی اثررسوخ کی بنا پر تین ہفتے بعد بغیر مقدمہ درج کیے انھیں رہا کردیا گیا۔

اس کے بعد سے انھوں نے فلسطینیوں کی زمین پر نئی اسرائیلی بستیوں کے قیام کو زندگی کا مقصد بنالیا۔ اس مقصد کے لیے 2006ء میں اسموترچ نے Regavim کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ رقبے کا عبرانی تلفظ Regavہے اور عام بول چال میں چھوٹے قطع زمین کو رقب کہا جاتا ہے۔ ایک عبرانی نظم ”دونم و دونم، رقب و رقب“ اس تنظیم کا ترانہ ہے۔ دونم (dönüm) رقبہ ناپنے کی ترک اکائی ہے جو 1000 مربع میٹر کے برابر ہے۔ اس ترانے کا لب لباب یہ عزم ہے کہ بڑا ہاتھ مارنے کے بجائے ہر ہلّے میں گز دوگز زمین ہتھیالی جائے۔

جناب اسموترچ، مذہبی صہیونی جماعت یا Religious Zionist Partyکے سربراہ ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ان کی جماعت نے کنیسہ کی 7 نشستیں جیتیں جو 120 رکنی ایوان میں کوئی قابل ذکر تعداد نہیں، لیکن بی بی کی حکومت 64 ارکان کی حمایت پر کھڑی ہے اور اقتدار برقرار رکھنے کے لیے کم ازکم 61 ارکان کی حمایت ضروری ہے۔ اس تناظر میں 7 غیر اہم عدد نہیں۔ اسموترچ کی جماعت پارلیمانی حجم کے اعتبار سے حکمراں اتحاد کی تیسری بڑی پارٹی ہے۔

فلسطینی اراضی کو ہتھیانے کا سلسلہ 1920ء میں برطانوی قبضے (British Mandate)سے جاری ہے۔ اس حوالے سے پہلا بڑا ہاتھ قیامِ اسرائیل کے وقت مارا گیا جب 7لاکھ فلسطینیوں کو غزہ کی طرف دھکیل کر ان کی 2 کروڑ مربع میٹر اراضی ہتھیالی گئی، پھر وقتاً فوقتاً نئی مہمات کے ذریعے سو، ڈیڑھ سو ایکڑ کی قسطیں وصول کی جارہی ہیں۔ اس دوران محترمہ گولڈامائر جیسی بزعمِ خود معتدل، اور بائیں بازو کی طرف مائل اسحاق شامیر بھی برسراقتدار آئے لیکن فلسطینیوں کو آبائی گھروں سے بے دخل کرکے ان کی زمینوں پر قبضے کا سلسلہ جاری رہا۔ آزاد ذرائع کے مطابق 1967ء سے 2021ء تک فلسطینیوں کی 2783 مربع کلومیٹر اراضی ان سے چھین لی گئی۔ ہتھیایا گیا رقبہ کتنا بڑا ہے اس کا اندازہ اس طرح کیجیے کہ سارے امریکہ میں صرف چار شہروں کا کُل رقبہ 2000 مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ ہندوستان میں دلی کا رقبہ سب سے زیادہ یعنی 1484 مربع کلومیٹر ہے، جبکہ پاکستان میں کراچی کے سوا کسی بھی شہر کا رقبہ 2000 مربع کلومیٹر سے زیادہ نہیں۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہتھیائی جانے والی زمینوں پر صرف مکانات ہی تعمیر نہیں کیے گئے بلکہ سڑکیں، بڑی شاہراہیں، باغات، لائبریری، اسپتال اور ذخائرِ آب پاشی و آب نوشی بھی انہی ہڑپ شدہ اراضی پر تعمیر ہوئے۔ غربِ اردن کو صہیونی ریاست کا اٹوٹ انگ ثابت کرنے کے لیے علاقے کا نام ”يہودا والسامر“ (Judea and Samaria) کردیا گیا جو دراصل سلطنتِ سلیمانؑ تھی۔ اقوام متحدہ نے نام کی تبدیلی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اپنی دستاویزات میں علاقے کا نام اب بھی الضفۃ الغربیہ یا West Bank لکھ رکھا ہے۔

دسمبر 2016ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کے خلاف مذمتی قرارداد بھی منظور کرچکی ہے، اور یہ غالباً تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ امریکہ نے اسرائیل کے خلاف قرارداد کو ویٹو نہیں کیا۔ حسبِ توقع سلامتی کونسل کی اس قرارداد سے کوئی ٹھوس نتیجہ نہ نکلا اور فلسطینی اراضی پر قبضے کا سلسلہ جاری رہا، کہ انصاف مذمت سے نہیں ظالم کی مرمت سے نصیب ہوتا ہے۔ بستیوں پر اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے سابق اسرائیلی وزیرداخلہ محترمہ ایلٹ شیکڈ نے کہا کہ یہودا اور سامرہ میں یہودیوں کی آبادکاری ہماری فطری ضرورت اور بنیادی حق ہے جس پر بات چیت کی کوئی ضرورت یا گنجائش نہیں۔

گزشتہ سال اگست میں دریائے اردن کے مغربی کنارے پر جنین میں فلسطینی بستیاں مسمار کرکے 4000 کے قریب نئے گھر تعمیر کرنے کی منظوری دی گئی۔ پالیسی میں بہت صراحت سے درج ہے کہ ان مکانوں کی ملکیت ہی نہیں بلکہ رہائش بھی صرف یہودیوں کے لیے ہوگی۔ انتہائی بے شرمی سے پالیسی متن میں یہ بھی لکھ دیا گیا کہ یہاں آباد فلسطینیوں کو پناہ گزین خیموں میں منتقل کردیا جائے گا۔

سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کیا حیثیت کہ بی بی حکومت، اسرائیلی عدلیہ کے احکامات کو بھی کسی قابل نہیں سمجھتی۔ غزہ سے پسپائی کے وقت غربِ اردن کی جن چار بستیوں کو مسمار کرنے کا فیصلہ ہوا تھا ان میں حومش بھی شامل تھی، یہ بستی 1978ء میں فلسطینیوں سے 700 دونم ( dönüm) یا 173 ایکڑ آراضی چھین کر ایک نجی اسرائیلی ادارے نے تعمیر کی تھی، جو غالباً پہلی قبضہ بستی ہے۔ حومش قبضہ بستی کو اسرائیلی سپریم کورٹ 2005ء میں غیرقانونی قرار دے چکی ہے جس کے بعد یہاں کے اکثر مکانات منہدم کردیے گئے، لیکن 2006ء میں عدالتی احکامات کو روندتے ہوئے حومش کی تعمیرنو کا سلسلہ شروع ہوا اور 2009ء میں اسے یادِ ھناحومش (حومش یادگاری بستی) کا نام دے دیا گیا۔ عدالت نے نئی بستی بھی غیر قانونی قرار دے دی۔ گزشتہ برس دسمبر میں اسرائیلی کنیسہ نے حموش تعمیرِنو کی قرارداد 50 کے مقابلے میں 59 ووٹوں سے مسترد کردی۔ اس کے کچھ ہی دن بعد جب نیتن یاہو دوبارہ برسراقتدار آئے تو انھوں نے سرکاری حکم کے ذریعے حومش کو آئینی تحفظ فراہم کردیا۔ دوسرے ہی دن عدالت نے صدارتی آرڈیننس کے خلاف حکمِ امتناعی جاری کرکے اسے تاحکمِ ثانی معطل کردیا۔ اس کے باوجود حومش کی تعمیرنو کا کام دھڑلے سے جاری ہے۔ حکومت عدالتی حکم ماننے کو تیار نہیں۔ یہی نہیں بلکہ عدلیہ کے منہ پر طمانچہ رسید کرتے ہوئے وزیردفاع Yoav Gallant نے اسرائیلی فوج کے نام اپنے اس مراسلے کی نقل عدالت میں جمع کرادی جس میں فوج کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ حومش میں مکان بنانے کے لیے تعمیری کمپنیوں کو تحفظ فراہم کرے۔

قانون کی پامالی کے خلاف 7 جولائی کو امن پسند اسرائیلیوں نے رام اللہ کے قریب فلسطینی شہر برقہ سے حومش تک جلوس نکالنے کا اعلان کیا۔ امن مارچ کا اہتمام درجن بھر تنظیموں اور مراکزِ دانش (think tanks) نے کیا تھا۔ کنیسہ کے چند عرب ارکان بھی جلوس میں شریک تھے۔ مظاہرے کے آغاز سے پہلے ہی جلوس کے راستے پر فوج نے رکاوٹیں کھڑی کردیں اور مظاہرین کی طرف بندوقیں تان کر منتشر ہوجانے کا حکم دیا۔ منتظمین کو بتایا گیا کہ جلوس کو روکنے کا حکم اسرائیلی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل یہودا فوکس نے دیا ہے۔

زمینیں خالی کرانے کے لیے انسدادِ دہشت گردی کے نام پر اسرائیلی فوج نے فلسطینی علاقوں میں خونیں آپریشن شروع کررکھے ہیں۔ پیر 3 جولائی کو فوج جنین پر چڑھ دوڑی اور عسکری ترجمان نائب امیرالبحر (ریئر ایڈمرل) ڈینیل حجاری نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ بریگیڈ لیول کی کارروائی ہے۔ حملے میں ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں کے ساتھ ہلکا توپ خانہ اور امریکی ساختہ گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال ہوئے۔ وحشت کو مذہبی رنگ دینے کے لیے اسے مسکن و باغات (عبرانی بیت و واغان) آپریشن کا نام دیا گیا۔ عبرانی انجیل میں جنین کا یہی نام ہے۔ اس بہیمانہ کارروائی میں ایک درجن سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہوئے جو زیادہ تر 18 سال کے کم عمر بچے تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق اسرائیلی ڈرونز نے اسپتالوں اور شفاخانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جس کی وجہ سے شدید زخمی افراد سڑکوں پر ایڑیاں رگڑتے رہے۔ کارروائی کے دوران مایہ ناز چھاپہ مار شکن اسرائیلی دستے Egoz یونٹ کا ایک افسر بھی ہلاک ہوا جس کے انتقام کے لیے جنین کا ایک پورا محلہ نیست و نابود کردیا گیا۔

چند دن پہلے رام اللہ کا مضافاتی علاقہ ترمسعيّا (Turmus Ayya) اسرائیلی انتہا پسندوں نے جلاکر خاک کردیا۔ فروری کے اختتام پر نابلوس کے قصبے حوّارہ میں جو کچھ ہوا اسے خود اسرائیلی فوج نے پوگرم (Pogrom) قرار دیا۔ پوگرم کسی خاص مذہب کے ماننے والوں سے اُن کا آبائی علاقہ خالی کرانے کے لیے برپا کیے جانے والے فساد کو کہتے ہیں۔ اس روسی لفظ کا استعمال پہلی بار 1618ء میں یوکرینی یہودیوں کی نسل کُشی کے لیے ہوا۔ اُس وقت سے یہودیوں کی کسی خاص علاقے میں نسل کُشی کو پوگرم کہا جاتا ہے۔ گویا اسرائیلی فوج نے بھی یہ تسلیم کیا کہ حوّارہ پر حملہ فلسطینیوں سے علاقہ خالی کرانے کی ایک مشق تھی۔

انسانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کی وحشیانہ روایت بہت پرانی ہے، سترہویں صدی کے آغاز پر یورپی نسل پرست، لاکھوں افریقیوں کو ان کے گھروں سے پکڑ کر پابہ زنجیر امریکہ لے آئے۔ سوئے اتفاق کہ 1619ء میں جب افریقی غلاموں سے لدا پہلا جہاز امریکہ اترا، تقریباً عین انہی دنوں برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنا ”کاروبار“ شروع کیا اور کچھ ہی عرصے بعد سارا ہندوستان غلام بنالیا گیا۔ اب 1920ء سے یعنی تجدیدِ رسمِ غلامی کے چار سو سال بعد، فلسطینیوں کو بے گھر کرکے بھیڑ بکریوں کی طرح خیموں کی طرف ہنکایا جارہا ہے۔ اولادِ آدم ان مظالم کا بہت خاموشی سے مشاہدہ کررہی ہے اور اپنے دفاع میں مزاحمت کرنے والے ”مہذب“ دنیا کے لیے دہشت گرد ہیں، کہ بسمل کے تڑپنے اور پھڑپھڑانے سے امنِ عالم متاثر ہورہا ہے۔

…………….

اب آپ مسعود ابدالی کی تحریر و مضامین اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔