سیاسی بے چینی عروج پر

پہلی بار ایسا ہوا کہ آئی ایم ایف نے معاہدے پر عمل درآمد سے پہلے حکومت کے بجائے اپوزیشن اور تمام پارلیمانی جماعتوں سے اس کی توثیق کرانا ضروری سمجھا ہے

موجودہ پارلیمنٹ کی مدت کے آخری57 دن باقی رہ گئے ہیں۔ اس کے بعد وفاق، صوبہ سندھ اور بلوچستان میں ایک نگران سیٹ اپ کم و بیش ایک نکاتی ایجنڈے کے ساتھ اقتدار سنبھالے گا اور وہ ہوگا: ملک میں انتخابات۔ ہوسکتا ہے کہ قومی اسمبلی اپنی آئینی مدت سے دو تین روز قبل ہی تحلیل کردی جائے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں پہلے سے نگران حکومتیں کام کر رہی ہیں۔ قومی اسمبلی کی آئینی مدت مکمل ہونے کے بعد ملک میں بہت اہم تبدیلیاں بھی ہونے جارہی ہیں، ستمبر میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال ریٹائر ہورہے ہیں، اسی ماہ چار جرنیل بھی اپنی ملازمت کی مدت مکمل کرکے ریٹائر ہوجائیں گے۔ قومی سلامتی کے ادارے کے سربراہ بھی ریٹائر ہونے والے متوقع افسروں میں شامل ہیں۔ وزیراعظم اگر چاہیں تو انہیں توسیع کی پیشکش کرسکتے ہیں۔ اگر انتخابات آئینی مدت میں ہوگئے تو ملک میں آرمی چیف کے پاس بھی ٹیم میں نئے چہرے ہوں گے اور اعلیٰ عدلیہ میں جسٹس فائز عیسیٰ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھال چکے ہوں گے۔ یوں سیاست، فوج اور عدلیہ میں بدلا ہوا منظر ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ نگران وزیراعظم کون ہوگا؟ بہت سے نام گردش میں ہیں، تاہم عین ممکن ہے اسٹیٹ بینک کی سابق گورنر شمشاد اختر کا قرعہ نکل آئے۔ تاہم فی الحال کوئی حتمی نام نہیں ہے۔ اس وقت سب سے بڑا سوالیہ نشان اس بارے میں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد سابق وزیر اعظم نوازشریف کب پاکستان واپس آئیں گے؟ خیال ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے پر واپس آئیں گے۔ اگرچہ پارلیمنٹ کی آئینی مدت پوری ہونے جارہی ہے، اس کے بعد ملک میں عام انتخابات ہی ہونے ہیں، تاہم اس وقت ملک میںسیاسی بے چینی عروج پر ہے۔ ایسی کیفیت کسی حقیقی قیادت کی محتاج ہوتی ہے جو عوام کو کسی فلاحی تحریک کی طرف لے جائے اور انقلاب برپا ہوجائے۔ اس وقت مہنگائی، غربت، ناانصافی اور ملک میں لاقانونیت سے تنگ آئے ہوئے لوگ حقیقی تبدیلی کے متمنی ہیں، اگر انہیں کوئی سیاسی قیادت نہ ملی تو پھر خدشہ یہ ہے کہ عوام کی اس سیاسی بے چینی کو وہی قوتیں اپنے حق میں استعمال کرلیں جنہوں نے ملک کو اس نہج تک پہنچایا ہے، اور یہ قوت اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی چہرہ بھی ہوسکتی ہے۔ یوں اسٹیبلشمنٹ میز کے دونوں جانب ہوگی۔ کوئی مانے نہ مانے، 9مئی کے واقعات انتخابی بیانیہ بھی ہوں گے اور اس وجہ سے معاشرے میں ایک لکیر کھنچ گئی ہے کہ کون کس کے ساتھ ہے۔ پیپلز پارٹی بہت محتاط انداز میں اور مسلم لیگ (ن) نو مئی کو جارحانہ انداز میں اپنا انتخابی بیانیہ بنائے گی۔ یہ دونوں جماعتیں دبئی پلان پر عمل کرکے ووٹ اور امیدوار باہم بانٹنے کی حکمت عملی اپنا رہی ہیں، اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کے لیے دبئی پلان میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ اس سیاسی بے چینی کو کسی نئے ہدف کے لیے کوئی رخ دیاجائے ملک کی تمام سیاسی، مذہبی اور قوم پرست قوتوں کو مل بیٹھ کر ایک جامع سیاسی اور معاشی میثاق پر بات کرنا ہو گی کہ معیشت سدھرے گی تو ملک میں سیاست ہوگی۔

حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین طے پانے والا تین ارب ڈالر کا اسٹینڈ بائی معاہدہ اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ اس سے پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ اس معاہدے کے لیے دوست ممالک کی کوششیں لائقِ تحسین ہیں۔ اس معاہدے کے بعد درآمدات پر عائد غیر ضروری پابندیاں ختم ہوجائیں گی، صنعتوں کے لیے درکار خام مال میسر ہوگا اوربرآمدات بڑھ جائیں گی، جس سے زرمبادلہ کا مسئلہ بھی حل ہوگا۔ معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حکومت نے آئی ایم ایف سے بہت سے نئے ٹیکس لگانے کا بھی وعدہ کیا ہے جس کا لازمی اثر عام آدمی کی زندگی پر پڑے گا۔ معاہدے میں بجلی کی قیمت میں اضافہ بھی شامل ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت حکومت پہلے ہی بجلی اور گیس کے نرخ بڑھا چکی ہے، اضافی ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے تنخواہ دار طبقے اور پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی مد میں بھی ٹیکس بڑھایا گیا ہے، جبکہ شرح سود بھی 22 فیصد تک بڑھائی جا چکی ہے۔ ان حالات میں جہاں عام آدمی، تنخواہ دار اور کاروباری طبقہ ملک کی خاطر قربانی دے رہا ہے وہیں حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے غیر ضروری اخراجات کنٹرول کرے۔ اب یہ کھلا راز ہی نہیں برہنہ سچ ہے کہ 76 سالہ پاکستانی تاریخ کے مسلسل عدم استحکام کی اصل وجہ عوام کی رائے کا احترام نہ کرنا ہے، جو سیاسی جماعت بھی اقتدار میں آئی اُس نے پارلیمنٹ کو اہمیت دی نہ آئین اور قانون کے سامنے خود کو سرنگوں رکھا، بلکہ خلافِ آئین عمل سے ’’سیاسی فتوحات‘‘ کے خبط میں مبتلا رہی اور ہر دور میں کرپشن کے نئے ریکارڈ بنے۔ رینگتے ہوئے حکومت آئی ایم ایف معاہدے تک جا پہنچی ہے، نو ماہ کے لیے تین ارب ڈالر کے عارضی انتظامات کے تحت معاہدہ ہوا ہے، اس رقم میں سے ایک ارب پی ڈی ایم حکومت، ایک ارب نگران اور ایک ارب نئی منتخب حکومت کو ملیں گے۔ معاہدے کی اس پیش رفت کو اچھا سمجھا جائے یا برا، یہ بہر حال مجبوری کا سودا ہے، لیکن اگر ہمارے پالیسی ساز ادارے اس معاہدے سے سبق سیکھ جائیں اور اپنی اصلاح کی جانب بڑھنا شروع کردیں تو یہ سودا مہنگا نہیں۔

پہلی بار ایسا ہوا کہ آئی ایم ایف نے معاہدے پر عمل درآمد سے پہلے حکومت کے بجائے اپوزیشن اور تمام پارلیمانی جماعتوں سے اس کی توثیق کرانا ضروری سمجھا ہے۔ اب ملک میں ایک نئی روایت ڈال دی گئی ہے کہ حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو، آئی ایم ایف معاہدے سے قبل اپوزیشن سے حمایت مانگے گا۔ اسے داخلی خودمختاری میں مداخلت کا نام دیا جائے یا کچھ اور، بہرحال اس کی باقاعدہ بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ ان ملاقاتوں کا ایک جواز تو یہ بتایا گیاکہ پی ڈی ایم کی حکومت پارلیمنٹ کی آئینی مدت مکمل ہونے پر ختم ہوجائے گی جس میں اب بمشکل پانچ، چھ ہفتے باقی ہیں، جس کے بعد وفاق، سندھ اور بلوچستان میں نگران حکومتیں معاملات سنبھالیں گی، کے پی کے اور پنجاب میں پہلے ہی نگران حکومتیں کام کررہی ہیں۔ نگران حکومتوں کا کام انتخابات کرانا ہے لیکن انتخابات کب ہوں گے؟ یہ کسی کو علم نہیں ہے۔

پارلیمنٹ نے حال ہی میں قانون سازی کی ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام ہے، اب اس پر منحصر ہے وہ کب کیا فیصلہ کرتا ہے۔ عین ممکن ہے اس قانون کی تشریح کے لیے کسی وقت سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑ جائے۔ بہرحال آج نہیں تو کل انتخابات تو ہونے ہی ہیں، جس کے بعد نئی منتخب قومی و صوبائی حکومتیں تشکیل پائیں گی۔ اس طرح آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کی ذمہ داری موجودہ حکومت ہی کو نہیں بلکہ آئندہ منتخب حکومتوں کو بھی پوری کرنی ہوگی جن کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کس تناسب سے کن سیاسی جماعتوںپر مشتمل ہوں گی۔ پی ڈی ایم کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے تین ارب ڈالر کے اسٹینڈبائی معاہدے سے جڑی پالیسیوں کی حمایت کردی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) موجودہ اتحادی حکومت میں وزارتِ عظمیٰ اور وزارتِ خزانہ کی ذمے داریاں رکھنے کی وجہ سے آئی ایم ایف سے اسٹینڈ بائی بندوبست کے مقاصد کی پابندی کا معاہدہ پہلے ہی کرچکی ہے۔ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی نمائندہ ایسٹرپیریز نے وضاحت کی ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے ملاقاتوں کا مقصد قرض پروگرام کی پالیسیوں پرعمل کی یقین دہانی حاصل کرنا ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما اور وفاقی وزیر تجارت سید نوید قمر اور سینیٹر سلیم مانڈوی والا سے آئی ایم ایف کی نمائندہ ایسٹر پیریز نے ملاقات کی جس میں آئی ایم ایف کے اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا اور پیپلزپارٹی نے وسیع تر قومی مفاد میں آئی ایم ایف پروگرام کی حمایت کا اعلان کیا۔ عالمی مالیاتی فنڈ کے وفد نے پی ٹی آئی چیئرمین اور ان کی ٹیم سے بھی ایک گھنٹہ طویل ملاقات کی۔ سابق وزیرخزانہ شوکت ترین ملاقات میں ویڈیو لنک پر شریک ہوئے، اورآئی ایم ایف وفد کو اپنی آراء سے آگاہ کیا۔ آئی ایم ایف کے کنٹری چیف نیتھن پورٹر نے واشنگٹن سے ورچوئل شرکت کی۔ یہ کسی ملاقات میں اہم شرکت تھی۔ پی ٹی آئی نے بھی معاہدے کا خیرمقدم کیا اور کلیدی نکات پر مبنی پالیسیوں کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔