پاکستان کا سیاسی گرداب، انتخابات اور سیاسی بندوبست کی کہانی
پاکستان مشکل صورتِ حال سے دوچار ہے۔ سیاسی، انتظامی، قانونی، معاشی، جواب دہی اور شفافیت کے تناظر میں ہم عملی طور پر بند گلی میں موجود ہیں۔ آئین اور قانون کی حکمرانی سے زیادہ افراد یا اداروں کی ذاتی خواہشات پر ملک کو چلانے کی روش نے ہمیں داخلی اور خارجی دونوں سطح پر تنہا کردیا ہے، لیکن ملک کی طاقت ور سیاسی اشرافیہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے مسلسل وہی پرانی غلطیاں نئی غلطیوں کے ساتھ دہرا رہی ہے۔ عام آدمی کے مفادات کے مقابلے میں اداروں کی بالادستی کی جنگ اب محض خوش نما نعرے نظر آتے ہیں۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، اور لگتا ہے کہ مجموعی طور پر ہمارا پورا ریاستی نظام ہی طاقت ور طبقات نے یرغمال بنا لیا ہے، اور عام آدمی کے لیے سوائے سیاسی و معاشی استحصال کے کچھ بھی نہیں۔ پوری قوم کو یہ تسلی دی جارہی ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کرلیا ہے، مگر اس معاہدے کے نتیجے میں جو کچھ قوم کے ساتھ ہورہا ہے اس کی کوئی فکر نہیں۔ طاقت ور اشرافیہ نے آئی ایم ایف کے معاہدوں کو بھی اپنی سیاسی و معاشی عیاشیوں کا مرکز بنالیا ہے اور احتساب کا عمل کہیں دب کر رہ گیا ہے۔ جن طاقت ور لوگوں نے سرکاری اور ریاستی خزانے کی کھل کر لوٹ مار کی یا قومی دولت کو ذاتی دولت میں تبدیل کیا وہ قانون، عدالتوں اور احتساب سے جڑے اہم ادارے نیب اور اینٹی کرپشن جیسے اداروں کی موجودگی میں کلین چٹ پہلے بھی لیتے رہے ہیں اور آج بھی ان کو دھوم دھام کے ساتھ کلین چٹ دی جارہی ہے۔ سیاسی انتقام کے لیے احتساب محض سیاسی مخالفین کا ہوتا ہے۔ اس کا مقصد بھی سیاسی وفاداریاں اپنے حق میں تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا مجموعی مزاج جذباتی نعروں اور بڑے بڑے دعووں کا ہے جبکہ عملی طور پر ہماری سیاسی اورمعاشی حیثیت پر کئی طرح کے سوالیہ نشان ہیں۔
ایک عمومی رائے سیاسی حلقوں یا سیاسی پنڈتوں میں موجود ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت کی جانب سے 12اگست تک قومی اسمبلی اور سندھ اور بلوچستان اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں گی اور نگران حکومتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں پہلے ہی پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت نے اپنے وقت سے قبل تحلیل کردی تھیں، لیکن 90روز میں ان دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات جو آئینی تقاضے کے تحت ہونے تھے، نہیں ہوسکے۔ سپریم کورٹ بھی اس معاملے میں حکومت اور الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات نہ کروانے پر کوئی بڑا قانونی فیصلہ نہیں کرسکی۔ اب اگر 12اگست تک اسمبلیوں کو تحلیل ہونا ہے تو سوال یہ ہے کہ نگران حکومتیں کیسے بنیں گی اور کون نگرانوں کا فیصلہ کرے گا؟ کیا پنجاب اور خیبر پختون خوا میں پہلے سے موجود نگران حکومتیں ہی کام کریں گی؟ یا وفاق میں نگران حکومت بننے کے بعد وہاں نئی نگران حکومتیں تشکیل دی جائیں گی؟ دبئی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سے یہ تو فیصلہ سننے کو ملا کہ انتخابات ہر صورت اسی سال نومبر میں ہوں گے اور انتخابات میں تاخیر کی کسی بھی طور پر حمایت نہیں کی جائے گی۔ لیکن نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ پر کوئی اتفاقِ رائے سامنے نہیں آسکا۔ کچھ نام نگران وزیراعظم کے طور پر سیاسی حلقوں اور میڈیا میں گردش کررہے ہیں جن میں مشاہد حسین سید، نجم سیٹھی، زبیدہ جلال، محسن بیگ، محمد مالک، حفیظ شیخ، جگنو محسن شامل ہیں۔ لیکن ان میں کوئی بھی نام ایسا نہیں جسے حتمی طور پر پیش کیا جاسکے۔ کچھ نام تو شوق میں سامنے لائے گئے ہیں تاکہ ان کی کچھ میڈیا تشہیر ہوسکے۔ سب سے بڑھ کر یہی سوال ہے کہ نگران وزیراعظم کا فیصلہ کون کرے گا؟ کیا یہ حق واقعی حقیقی معنوں میں سیاسی جماعتوں کو دیا جائے گا کہ وہ حکومت اوراپوزیشن کے طور پر نگران وزیراعظم کا فیصلہ کریں؟ موجودہ حالات میں جب سیاست دانوں یا حکمران طبقے کے پاس کوئی زیادہ سیاسی طاقت نہیںاور ان سب نے طاقت کا مرکز بھی اسٹیبلشمنٹ کو تسلیم کرلیا ہے، ایسے میں نگران وزیراعظم کا حتمی فیصلہ بھی طاقت کے مراکز سے کیسے باہر ہوسکے گا! اسی لیے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ حقیقی فیصلہ پنڈی میں ہی ہوگا۔ نوازشریف اور زرداری مل کر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کے کارڈ بھی ان سے زیادہ کسی اورکے پاس ہیں۔
نگران حکومت جو شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے تین ماہ کے لیے تشکیل دی جائے گی، کیا واقعی بروقت انتخابات کرا سکے گی؟ کیونکہ اس وقت بھی اسلام آباد کے سیاسی حلقے انتخابات کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ ان کے بقول 12اگست تک اسمبلیاں ضرور تحلیل ہوں گی اور نئی نگران حکومتیں بھی بن جائیں گی، مگر اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ نگران حکومت کو ہی عبوری حکومت کا درجہ دے دیا جائے گا اوراس کی مدت بڑھاد ی جائے گی۔ یہ سب کچھ کیسے ہوگا؟ یقینا آئین میں تواس کی کوئی گنجائش نہیں، لیکن یہاں کون سا آئین بالادست ہے اور کون آئین پر عمل درآمد کرنا چاہتا ہے؟ یہاں تو مسلمہ اصول طاقت کی حکمرانی ہے، اور طاقت ور جو بھی فیصلہ کریں گے اسی کی بنیاد پر آئین اور قانون یا عدالتوں کو اپنے حق میں استعمال کیا جائے گا۔اگرچہ پی ٹی آئی کے قائد عمران خا ن اور آئی ایم ایف کے درمیان جو ملاقات ہوئی ہے اس سے یقینی طو رپر حکمران طبقہ زیادہ خوش نہیں، اور ان کو گلہ ہے کہ آئی ایم ایف نے عمران خان سے ملاقات کیوں کی۔ کیونکہ ان کے بقول اس ملاقات سے حکمران طبقے کا مقدمہ کمزور ہوا ہے۔ یہ دلیل کہ عمران خان طاقتور حلقوں میں غیر اہم ہوگئے ہیں وہ غلط ہی ثابت ہوئی، اور اس ملاقات نے یقینی طو رپر پی ٹی آئی کی اہمیت کو پیدا کیا ہے۔ عمران خان نے اگرچہ آئی ایم ایف کے پروگرام کی غیر مشروط حمایت کی ہے لیکن اُن کا اس ملاقات میں بروقت انتخابات اور شفاف انتخابات پر ہی زور تھا۔ ان کے بقول آئی ایم ایف سے جو بھی معاہدہ آگے بڑھے گا اس کے لیے پانچ برس کے نئے سیاسی مینڈیٹ کی ضرورت ہے، اوراس کا حل نئے صاف اور شفاف انتخابات ہی ہیں، اور ان کو پسِ پشت ڈالنا ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ کچھ لوگ اس ملاقات کو ملکی معاملات میں مداخلت کہہ رہے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ خود آئی ایم ایف نے کچھ دن قبل حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ملک میں سیاسی اورمعاشی نظام کی مضبوطی کے لیے آئین پر عمل درآمد کرے۔ اس بیان پر بھی حکمران طبقے کی جانب سے آئی ایم ایف پر سخت تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ یہ ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت کے زمرے میں آتا ہے جو ہمیں قبول نہیں۔ سوال یہ ہے کہ عام انتخابات کے بروقت ہونے پر کیوں شکوک و شبہات یا خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے؟ اورکیا یہ عملاً واقعی کسی کا ایجنڈا ہے اور فیصلہ کرنے والے انتخابات کے مقابلے میں پلان بی پر عمل کرنا چاہتے ہیں؟کیا یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ آئی ایم ایف بھی پاکستان میں بروقت انتخابات چاہتا ہے؟ اسی طرح کیا آئی ایم ایف کی عمران خان سے ملاقات میں امریکی رضامندی بھی شامل ہے؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں انتخابات کے نام پر جو نیا سیاسی بندوبست کیا جارہا ہے اس میں اصل لڑائی امریکہ اور چین کے تناظر میں پاکستان کے کردار پر ہے۔چار دن پہلے مسلم لیگ (ن) کے اہم راہنما احسن اقبا ل نے 2018ء کے انتخابات کے حوالے سے ایک ٹی وی انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ ان انتخابات سے پہلے چین نے مداخلت کی تھی کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی حمایت اور انہیں اقتدار میںلانے سے گریز کرے۔ ان کے بقول دونوںملکوں کے معروف صنعت کاروں نے بھی یہی پیغام دیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ہی آگے بڑھنے دیا جائے تاکہ سی پیک منصوبہ تیزی سے آگے بڑھے۔اس پر پی ٹی آئی کا ردعمل شدید ہے لیکن چینی سفارت کار نے ان باتوں کی تردید کی ہے جو احسن اقبال نے کہی تھیں۔ ان کے بقول عمران خان کی سابقہ حکومت میں چین کو سی پیک کے حوالے سے کوئی بھی تحفظات نہیں تھے بلکہ ان کے منصوبے کامیابی سے چلتے رہے ہیں۔ اب اس پر احسن اقبا ل نے تردید کی اورکہا کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر چلایا گیا ہے۔ویسے آج تک عمران خان حکومت پر سی پیک کے تناظر میں چین نے کوئی بھی رسمی تنقید یا تحفظات پیش نہیںکیے۔ ویسے بھی سی پیک پر ہماری حکومتوں سے بڑا کردار اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔
اس وقت امریکہ، چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی باتیں خوب ہورہی ہیں اورکہا جارہا ہے کہ یہ بڑی قوتیں بھی معاشی ترقی کو بنیاد بناکر ہمارے سیاسی نظام میں اپنی مرضی کے فیصلے چاہتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کسے کرنا ہے؟ اورکیا یہ سب کچھ کسی طے شدہ حکمت عملی کے تحت سیاسی بندوبست کے طور پر کیا جائے گا، یا اس میں واقعی عوام کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اپنی مرضی کی حکومت کا انتخاب کرسکیں۔ داخلی سیاست اور انتخابات کے تناظر میں چند باتیں بہت اہم ہیں جنہیں سمجھے بغیر ہم داخلی سطح پر فوری انتخابات کی بحث کو بھی نہیں سمجھ سکیں گے:
(1) کیا نئے انتخابات عمران خان پر پابندی، نااہلی، اُن کی گرفتاری یا پی ٹی آئی پر پابندی کی صورت میں ہوں گے؟کیوں کہ ابھی تک تو پی ٹی آئی کو انتخابات سے قبل ختم کرنے یا مفلوج کرنے کا منصوبہ نظر آتا ہے۔ خیال ہے کہ اوّل تو یہ لوگ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیںگے، اور بطور جماعت اگر حصہ لینا بھی پڑا تو یہ انتخابات مائنس عمران خان ہوں گے، اور اِن لوگوں کے ہاتھ پیر باندھ کر انہیں انتخابی میدان میں لایا جائے گا۔
(2) پی ڈی ایم اتحاد اب بہت حد تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہا ہے، کیونکہ دبئی ملاقاتوں پر مولانا فضل الرحمٰن خاصے ناراض ہیں اور اُن کے بقول مسلم لیگ (ن) نے ہمیں کسی بھی موقع پر اعتماد میں نہیں لیا، اوراب اُن کے بقول پی ڈی ایم کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ کیا انتخابات سے قبل ہمیں پی ڈی ایم کا شیرازہ بھی بکھرتا ہوا نظر آئے گا؟
(3) اگر واقعی کسی کی خواہش ہے کہ انتخابات میں ایک برس کی تاخیر ہو اور اِس سال نومبر میں انتخابات پر زور نہ دیا جائے تو اس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا ردعمل کیا ہوگا؟۔ کیونکہ یہ دونوں جماعتیں سمجھتی ہیں کہ ہمیں انتخابات میں تاخیر کا فائدہ کم اورنقصان زیادہ ہوگا۔ کیا اسٹیبلشمنٹ ان دونوں بڑی جماعتوں کو نالاں کرکے انتخابی عمل کو دور لے جاسکتی ہے؟
(4) اگر نوازشریف کی انتخابات سے قبل واپسی نہیں ہوتی اور شہبازشریف پس پردہ اپنے ہی معاملات کو بنیاد بناکر اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے آگے بڑھتے ہیں تو اس پر نوازشریف اور مریم نواز کا کیا ردعمل ہوگا، اورکیا وہ کسی ایسے منصوبے پر شہبازشریف کے ساتھ کھڑے ہوں گے جس میں ان کو مائنس کیا جائے گا؟
(5) کیا واقعی ماضی کے تجربات سے سیکھ کر انتخابات کو شفاف بنانا ہے اور یقینی طور پر سب کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ دینی ہے، یا انتخابات کو بنیاد بناکر نئے اسکرپٹ کے تحت نئے سیاسی بندوبست کا فیصلہ کرنا ہے؟
(6) اگر واقعی انتخابات آگے جاتے ہیں اور نگران حکومت کو عبوری حکومت کا درجہ دیا جاتا ہے تو ایسے میں عالمی ردعمل کیا ہوگا، اور کیا ہماری اس حیثیت کو دنیا میں تسلیم کیا جائے گا، یا اس کا سخت ردعمل دیکھنے کو ملے گا؟
(7) کیا ہمیں انتخابات کے نام پر سیاسی انجینئرنگ ختم کرنی ہے یا پی ٹی آئی کو کمزور کرنے یا ختم کرنے کے لیے اسی کھیل کو پوری شدت کے ساتھ کھیلنا ہے؟
(8)اصل اور بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہم اس مہم جوئی کی مدد سے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام لاسکیں گے؟ جہانگیر ترین کی جماعت کو جس طرح منظرعام پر لایا گیا ہے یا اسے دلہن کی طرح سجایا جارہا ہے، کیا یہ عمل نتیجہ خیز ہوگا؟ یا اس کے نتیجے میں مزید سیاسی بے یقینی اور ٹکرائو پیدا ہوگا؟
اس وقت انتخابات نہ کروانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اسٹابلشمنٹ جو نتائج چاہتی ہیےاس میںناکامی کا سامنا ہے۔ کیونکہ یہی کہا جارہا ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود پی ٹی آئی کا ووٹ بینک پنجاب اور خیبر پختون خوا میں قائم ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ کے خلاف مقدمات کی ڈبل سنچری بھی ہونے والی ہے اوراس کا ردعمل بھی ہمیں مختلف طریقوں سے عوامی سطح پر دیکھنے کومل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت انتخابات کے مقابلے میں پلان بی زیر غور ہے جس کا مقصد انتخابات کو پس پشت ڈالنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک کے مسائل فوج کو ہی حل کرنے ہیں؟ سیاست دان معیشت، زراعت اور جعلی ادویہ سمیت تمام امور خود فوج کی گود میں ہی ڈال رہے ہیں، اوران کے بقول یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ یا فوج کو ہی کرنا ہے۔ اگر تمام سول معاملات پر فوج کو ہی لیڈ لینی ہے تو پھر ہم کو سول بالادستی کی جنگ سے دست بردار ہوجانا چاہیے،کیونکہ اس وقت جس انداز سے جمہوری قوتوں نے جمہوریت سے خود ہی دست برداری اختیار کی ہے وہ جمہوریت کے مفاد میں کم اوراسٹیبلشمنٹ کے حق میں زیادہ جاتی ہے۔ یہی سیاسی اورجمہوری ناکامی کی داستان ہے اور اسی میں معیشت کی ناکامی بھی دیکھی جاسکتی ہے۔