انسانی وجود میں تخلیق کی بنیادیں

بڑا تجربہ تخلیق کا سرچشمہ ہے، خواہ وہ المیہ ہو یا مسرت انگیز

انسانی وجود میں تخلیق کا سرچشمہ کہاں ہے، اور تخلیقی عمل کن بنیادوں پر استوار ہوتا ہے؟ یہ صدیوں سے تخلیقی زندگی کا بنیادی سوال ہے، اور ابھی تک اس کا کوئی حتمی جواب ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تخلیقی عمل ایک گہرا باطنی تجربہ ہے۔ اتنا گہرا باطنی تجربہ کہ خود تخلیق کاروں کو بھی پوری طرح اس کا شعور نہیں ہوتا۔ چنانچہ شاعروں، ادیبوں اور دیگر تخلیقی شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے تخلیقی عمل کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس کی حیثیت ایک قیاس آرائی کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن اس صورتِ حال سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ انسانی زندگی میں تخلیقی عمل کی اہمیت اتنی بنیادی ہے کہ ہمیں تخلیقی عمل کی بنیادوں کا سراغ لگانے کے لیے مسلسل کوششیں کرنی چاہئیں۔ اس سلسلے میں بعض بڑے تخلیق کاروں کی تخلیقی واردات ہماری رہنمائی کرسکتی ہے۔ مثلاً میر تقی میرؔ کا تخلیقی تجربہ۔

میرؔ کی زندگی رنج و الم کی داستان ہے۔ میرؔ ابھی بچے ہی تھے کہ ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ میرؔ کے والد کو عدم موجود پاکر ان کے عزیزوں نے ان کی جائداد پر قبضہ کرلیا اور انہیں انتہائی تنگ دستی کی زندگی بسر کرنی پڑی۔ میرؔ کو محبت میں ناکامی کا شدید تجربہ ہوا اور ان پر جنون کی کیفیت طاری ہوگئی، یہاں تک کہ انہیں چاند میں اپنے محبوب کی صورت نظر آنے لگی۔ وہ کئی کئی دن تک ایک کمرے میں بند رہتے۔ میرؔ کی شاعرانہ عظمت نے انہیں کئی نوابوں کے قریب کیا اور ان کی معاشی مشکل کا حل برآمد ہوتا نظر آیا۔ لیکن میرؔ کی تنک مزاجی اور خودداری بے پناہ تھی، چنانچہ وہ کسی کے، اور کوئی اُن کے ساتھ دیر تک نہ رہ سکا۔ نتیجہ یہ کہ غم کا شدید تجربہ میرؔ کی پوری شخصیت پر چھا گیا۔ غم کے اس تجربے میں سب سے بڑا غم محبت میں ناکامی کا غم تھا۔ میرؔ کو اس تجربے کا پورا شعور تھا، چنانچہ انہوں نے فرمایا ہے:

مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
اسی طرح انہوں نے کہا ہے:
درہمی دہر کی ہے ساری مرے دیواں میں
سیر کر تُو بھی یہ مجموعہ پریشانی کا

لیکن میرؔ کی تہذیبی شخصیت بہت مضبوط تھی، چنانچہ انہوں نے اپنے غم کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیا بلکہ اسے اپنی طاقت بنالیا۔ انہوں نے شدید غم اور اس سے پیدا ہونے والی حساسیت کو اپنا ’’تناظر‘‘ بنالیا۔ اس تناظر سے انہوں نے پوری زندگی اور کائنات کو دیکھا بھی اور سمجھا بھی۔ چنانچہ میرؔ نے کہا ہے:

مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا

لیکن میرؔ نے ناکامیوں سے ’’کام‘‘ کیا کیا لیے ہیں؟ اس کی جھلکیاں خود میرؔ کی شاعری میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر:

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

…٭…

وجہِ بیگانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں
خوش ہیں دیوانگیِ میرؔ سے سب
کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ

…٭…

آنکھ ہو تو آئنہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ

…٭…

وہ آئے بزم میں اتنا تو میرؔ نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

…٭…

تمنائے دل کے لیے جان دی
سلیقہ ہمارا تو مشہور ہے

…٭…

محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور

ان شعروں میں معنی کی فراوانی ہے، فکر کی سطح بلند ہے، تناظر آفاقی ہے، زبان و بیان غیر معمولی ہیں۔ چنانچہ ان میں سے ہر شعر پر ایک مضمون لکھا جاسکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ میرؔ کے یہاں ایسے سیکڑوں شعر موجود ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ میرؔ نے چھ ضخیم دیوان تخلیق کیے ہیں جنہیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ میرؔ کی ذات وہ مرکز ہے جہاں سے شاعری کا دریائے نیل یا شاعری کی گنگا برآمد ہوئی ہے۔ میرؔ کو خود بھی اس بات کا احساس تھا، چنانچہ انہوں نے کہا ہے ؎

میرؔ دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی

طبیعت کی یہ روانی اس بڑے تجربے کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی جس نے پوری زندگی اور ساری کائنات کو میرؔ کی شاعری کا مواد بنادیا۔ میرؔ کی شاعری سہلِ ممتنع میں ہے۔ لیکن آسان کہنے سے زیادہ مشکل کام اور کوئی نہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو میرؔ کی شاعری کا یہ کمال بھی اُن کے بڑے تجربے کی دین ہے۔ انسان کا تجربہ بڑا ہو تو احساس کی شدت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ عام الفاظ بھی بڑے معنی کا ظرف بن جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر تجربہ بڑا اور گہرا نہ ہو بلکہ صرف بڑے تجربے کا خیال موجود ہو تو انسان پھر چھوٹے معنی کو بڑے الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اردو میں جوش ملیح آبادی کی شخصیت اور شاعری اس کی بڑی مثال ہے۔

قرۃ العین حیدر اردو کی سب سے بڑی ناول نگار ہیں اور انہوں نے ایک دو نہیں، پانچ ناول لکھے ہیں۔ لیکن دراصل انہوں نے پانچ نہیں ایک ہی ناول لکھا ہے، اور ان کے پانچ ناول دراصل ان کے ایک ہی ناول کے پانچ ابواب ہیں۔ بلاشبہ یہ ناول ایک دوسرے سے مختلف پس منظر کو سامنے لاتے ہیں مگر ان تمام ناولوں کا ’’ہیرو‘‘ ایک ہے… یعنی ’’وقت‘‘۔ قرۃ العین حیدر نے اچھا خاصا فلسفہ پڑھ رکھا ہے مگر ان کے یہاں وقت کا تصور فلسفیانہ نہیں المناک ہے۔ ان کے ناولوں میں ہر طرف وقت کی حکمرانی نظر آتی ہے۔ دنیا کے منظرنامے پر بڑی بڑی شخصیتیں طلوع ہوتی ہیں، بڑی بڑی تحریکیں جنم لیتی ہیں، بڑے بڑے خیالات ابھرتے ہیں، بڑی بڑی تہذیبیں اپنی بہاریں دکھاتی ہیں، لیکن وقت ہر چیز کو نگل جاتا ہے۔ قرۃ العین حیدر، اقبال سے بہت متاثر ہیں، مگر اقبال کی شاعری میں کائنات کی سب سے بڑی قوت وقت نہیں، عشق ہے جو وقت پر بھی غالب آجاتا ہے۔ لیکن قرۃ العین کے ناولوں میں وقت ہی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وقت کا یہی شدید المیہ احساس قرۃ العین حیدر کی شخصیت میں تخلیق کا سرچشمہ ہے اور ان کی پوری شخصیت اس کی گرفت میں محسوس ہوتی ہے۔ وقت کے اس شدید المیہ احساس سے اُن کے ناولوں کے موضوعات جنم لیتے ہیں۔ یہیں سے ان کے ناولوں کی بے مثال تفصیلات جنم لیتی ہیں۔ یہیں سے ان کا وہ اسلوب پیدا ہوتا ہے جو نثر میں شاعری کی لذت پیدا کردیتا ہے، جو ’’آگ کا دریا‘‘ اور ’’گردشِ رنگِ چمن‘‘ میں اپنے عروج پر ہے۔

وین گوف مغرب میں مصوری کے بڑے ناموں میں سے ایک ہے۔ بعض لوگ اسے مصوری میں تاثراتی اسکول کا بانی بھی کہتے ہیں۔ اگر ہمیں صحیح یاد ہے تو اس نے ابتدا میں کان کنی بھی کی، وہ کچھ عرصے کے لیے پادری کے روپ میں بھی سامنے آیا، لیکن اس کی شخصیت پر ابتدا ہی سے فطری مظاہر کے حسن و جمال کا شدید غلبہ تھا۔ اس غلبے نے اسے خودبخود مصوری کی جانب مائل کردیا، یہاں تک کہ اس کی شخصیت منقلب یا Transform ہوکر ایک مصور کی شخصیت بن گئی۔ اس کے مزاج میں بلا کی شدت تھی، وہ جس سے تعلق قائم کرتا، شدت کے ساتھ کرتا۔ اور اکثر لوگ اس کی شدت سے ڈر جاتے اور اس سے دور ہوجاتے۔ چنانچہ اس کی زندگی تقریباً ایک تنہا انسان کی زندگی تھی۔ اس کی معاشی حالت آخری وقت تک خراب رہی۔ اگر اس کا بھائی مسلسل اس کی مالی مدد نہ کرتا تو وہ بھوکا مر جاتا اور اس کے پاس کینوس، رنگ اور برش خریدنے کے بھی پیسے نہ ہوتے۔ وین گوف فطری مظاہر کو دیکھتا تو اس پر دیوانگی طاری ہوجاتی، اور وہ بلا رکے 24 گھنٹے پینٹنگز بناتا رہتا۔ اسے اس کے زمانے نے پہچان کر نہ دیا، مگر اسے اس بات کی پروا نہیں تھی۔ اس کا شدید احساسِ حُسن اسے مسلسل تخلیقی عمل میں مصروف رکھتا۔ یہاں تک کہ وہ شہرت کے دروازے پر دستک دیئے بغیر ہی اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس کی موت کے بعد دنیا کو اس کی عظمت کا علم ہوا اور آج اس کی بعض تصاویر پندرہ اور بیس کروڑ ڈالر میں فروخت ہوتی ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بڑا تجربہ تخلیق کا سرچشمہ ہے، خواہ وہ المیہ ہو یا مسرت انگیز… خواہ وہ تجربہ وصال کا ہو یا ہجر کا۔ بڑے اور گہرے تجربے کی اہمیت یہ ہے کہ وہ تخلیق کار کی ذہانت بن جاتا ہے، اس کے علم میں ڈھل جاتا ہے، اس کے تناظر میں تبدیل ہوجاتا ہے، اس کی تخلیقی صلاحیت کا روپ اختیار کرلیتا ہے۔

تخلیقی انسانوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ بڑے تجربے کی طرح بڑی آرزو بھی تخلیق کا سرچشمہ بن جاتی ہے۔ اردو ادب میں اس کی سب سے بڑی مثال اقبال ہیں۔ اقبال کسی زمانے میں داغؔ کے شاگرد تھے، اور داغؔ کے پاس کچھ بھی بڑا نہیں تھا۔ اقبال اکبر الہٰ آبادی سے متاثر تھے لیکن اکبر نے اپنی طرح کی شاعری کے تمام امکانات کو استعمال کرڈالا تھا، اور اقبال اس میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتے تھے۔ لیکن اقبال کی آرزو بڑی تھی، چنانچہ وہ داغؔ کے اثر سے بھی نکل آئے، اکبر کی بھی انہوں نے ایک حد سے زیادہ پیروی نہیں کی، اور انہوں نے اس بڑی آرزو کی بنیاد پر اردو شاعری کی ایک کائنات تخلیق کرڈالی۔ لیکن اقبال کی آرزو کیا تھی؟ اسلامی تہذیب کا احیاء اور غلبہ، اور امتِ مسلمہ کی شوکت۔ اس آرزو نے اقبال کو نئے اور عظیم الشان موضوعات دیئے، نئی اور سحر انگیز تشبیہات اور استعارے دیئے۔ اس آرزو نے اقبال کو شاعری کی نئی زبان عطا کی، منفرد اسلوب سے نوازا۔ اقبال خود کو گفتار کا غازی کہتے تھے اور سمجھتے کہ میں کردار کا غازی نہیں ہوں، لیکن اقبال کی آرزو نے اقبال کی گفتار کو کروڑوں لوگوں کے کردار سے بڑھا دیا۔

سوشلزم کے دائرے میں بڑی آرزو کا ظہور ممکن ہی نہیں تھا، اس لیے کہ سوشلزم باطل تھا اور تاریخ میں اس کی جڑ بنیاد بھی نہیں تھی۔ لیکن فیض احمد فیض سوشلزم کے مخلص سپاہی تھے اور پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہونے کی آرزو رکھتے تھے۔ یہ آرزو بہت سے ترقی پسند شاعروں اور ادیبوں کی تھی، مگر ان کا اخلاص فیض کے اخلاص سے کم تھا۔ چنانچہ سوشلسٹ نظریات کی بنیاد پر سب سے بہتر شاعری فیض ہی نے تخلیق کی۔ انہوں نے شاعری میں اپنا اسلوب پیدا کیا، نئی تشبیہات، نئے استعارے اور نئی تراکیب وضع کیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے ایک ایسی فضا تخلیق کی جس نے سوشلسٹ انقلاب جیسی انسانیت سوز حقیقت کو بھی رومانوی بنادیا۔ اس کی وجہ سے فیض کی شاعری کی ابلاغی صلاحیت اور اثر آفرینی بہت بڑھ گئی۔

زبان کی اہلیت اپنی نہاد میں تخلیق کی اہلیت ہے۔ اس لیے کہ زبان کے ذریعے انسان چیزوں کو عدم سے وجود میں لاتا ہے۔ انہیں نام دیتا ہے۔ انہیں تشخص عطا کرتا ہے۔ ان میں جذبے اور احساس کو برقی رو کی طرح جاری کرتا ہے۔ ان کے ذریعے خیالات، جذبات اور احساسات میں ترمیم و اضافہ کرتا ہے۔ انہیں منقلب کرتا ہے۔ ان کے ذریعے گونگے تجربات کو زبان دیتا ہے۔ ان کے ذریعے اپنے باطن کو ظاہر سے مربوط کرتا ہے۔

چنانچہ ہر بڑے تخلیق کار کے یہاں زبان کی اہمیت بنیادی ہوتی ہے۔ میرؔ کا دور اردو زبان کا تشکیلی دور تھا اور اردو شاعری میں اظہار کے بڑے سانچے موجود نہیں تھے۔ میرؔ کے پاس تجربہ بڑا تھا اور اس کے لیے زبان کا بڑا سانچہ درکار تھا۔ میرؔ کے پاس یہ سانچہ موجود تھا، چنانچہ میرؔ کے تجربے اور زبان کی یکجائی نے برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کو میرؔ کی شاعری کا عظیم الشان تحفہ دیا۔ اکبر الہٰ آبادی کی شاعری میں زبان کے تخلیقی استعمال سے بھی شعر تخلیق ہوئے ہیں اور زبان کی تخریب یا Distortion سے بھی۔ اور ان دونوں کاموں کے لیے زبان کی غیر معمولی اہلیت درکار تھی۔ غالب کی شاعری کے معجزے کو ان کی زبان سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ کہنے والوں نے کہا بھی کہ اپنی زبان وہ خود سمجھتے ہیں یا خدا سمجھتا ہے۔ مگر غالب اس طرح کے الزامات سے گھبرائے نہیں۔ گھبرا جاتے تو شاید ان کی شاعرانہ عظمت کا ایک حصہ زبان پر معذرت خواہی کی نذر ہوجاتا۔ اقبال کی شاعری کے لیے اردو، فارسی اور عربی سے گہری واقفیت اور مغربی زبانوں کے تصورات سے واقفیت ناگزیر تھی۔ اس کے بغیر اقبال کی شاعری وجود میں نہیں آسکتی تھی۔ لیکن یہاں زبان کی اہلیت کا مفہوم لفظوں کی گنتی نہیں، کیونکہ لغت تو نظیر اکبر آبادی اور جوش ملیح آبادی کی بھی بہت بڑی تھی، مگر ان کے یہاں زبان کسی گہری بات کو شاذ ہی سامنے لاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں صرف زبان کی قوت سے شعر کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کا مواد ان کی لسانی اہلیت سے بہت کم ہے۔ اس کی تیسری وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کا ’’تخلیقی اخلاص‘‘ میر، غالب اور اقبال سے بہت کم ہے۔

ہمارے عہد کا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں تخلیق کی یہ تینوں بنیادیں کسی جگہ مشکل ہی سے فراہم ہوپاتی ہیں۔ ہمارے دور میں بڑا تجربہ نایاب ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ شخصیت پرستی کا ہولناک رجحان ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا کہ شاعری شخصیت کا اظہار نہیں بلکہ اس سے فرار ہے۔ سوال یہ ہے کہ شاعر شخصیت سے فرار حاصل کرکے کہاں جاتا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ شاعر شخصیت سے فرار حاصل کرکے ’’ذات‘‘کی طرف جاتا ہے جو تخلیق کا مرکز ہے۔

شخصیت ہماری سماجیات، ہماری معاشیات، ہماری سیاست اور ہماری خودغرضی پر مبنی خواہشات کا مجموعہ ہوتی ہے اور بیشتر صورتوں میں معمول کی زندگی کے لیے کفایت کرتی ہے۔ شخصیت کی گرفت اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ یہ اکثر انسانوں کو اپنے آپ سے بلند نہیں ہونے دیتی۔ صرف تخلیقی لوگوں کی توانائی انہیں شخصیت سے بلندکرتی ہے۔ لیکن فی زمانہ تخلیق کی آرزو اتنی کمزور ہوگئی ہے اور سماجیات اور معاشیات نے اتنی اہمیت حاصل کرلی ہے کہ تخلیقی صلاحیت رکھنے والوں کی اکثریت بھی شخصیت کے بت کے آگے سجدہ ریز ہوجاتی ہے۔ چنانچہ وہ کسی بڑے تجربے سے دوچار نہیں ہوپاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑا تجربہ خودسپردگی کا مطالبہ کرتا ہے اور شخصیت خودسپردگی کی مزاحمت کرتی ہے۔ ہمارے عہد کا یہ المیہ بھی ہے کہ اب لوگوں کی آرزوئیں بڑی نہیں ہوتیں۔ بڑی آرزو مذہب سے آتی ہے یا تاریخ سے۔ اور فی زمانہ مذہب اور تاریخ سے یا تو لوگوں کا تعلق ہی نہیں، یا یہ تعلق سرسری اور سطحی ہے۔ ہمارے زمانے میں زبان کا مستحکم سانچہ بھی خواب و خیال بن کر رہ گیا ہے۔ اس لیے کہ زبان یا تو مذہب سے فراہم ہوتی ہے یا ادب بالخصوص شاعری سے… اور اب لوگ نہ مذہبیات کا گہرا مطالعہ کررہے ہیں، نہ ان کی زندگی میں ادب اور بالخصوص شاعری کے لیے کوئی جگہ ہے۔ ہمارے دور میں زبان کی اہلیت اخبارات یا ریڈیو، ٹی وی اور انٹرنیٹ تک محدود ہوگئی ہے، اور ان ذرائع سے کسی کو زبان کا اچھا سانچہ فراہم نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دور میں انسانی وجود میں تخلیق کی تینوں بنیادیں کمزور پڑگئی ہیں، اور یہ مقامی نہیں عالمگیر صورتِ حال ہے، اور اس میں کسی ایک تہذیب کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانی تہذیب کے لیے سنگین خطرات موجود ہیں۔