”مارشل لا سے مارشل لا تک‘‘ کے مصنّف میر نور اَحمد کے مطابق خلافت کمیٹی اور کانگریس کی مشترکہ تحریکِ عدم تعاون کے زمانے میں مسلمانوں نے وقتی طور پر وہ سوال پسِ پشت ڈال دیا تھا جو سرسیّد احمد خاں اور سیّد امیر علی کے وقت سے اُن کی سیاسی فکر کا محور چلا آرہا تھا۔ ہندوستان کی جمہوری آزادی میں مسلم اقلیت کی پوزیشن کیا ہوگی؟ یہ سوال اب علمائے ہند کے اُس فتوے کے ساتھ شائع ہوا جس میں انگریزوں سے عدم تعاون ایک دینی فریضہ قرار پایا تھا۔ جب تک یہ تحریک زوروں پر رہی، اِس مؤقف کے نفع و نقصان پر غور کرنے کا مرحلہ ہی نہ آیا، لیکن مولانا محمد علی جوہرؔ کے ذہن میں یہ سوال بڑی اہمیت کا حامل رہا کہ مسلم قوم کا مستقبل کیونکر محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ یہی سوال وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے مسلم زعما کے ذہنوں میں بھی کلبلانے لگا اور اِس پر غور و خوض کے لیے مسلم لیگ کا پلیٹ فارم ہی موزوں خیال کیا گیا، حالانکہ یہ جماعت ستمبر 1920ء کے اجلاس کے بعد عملاً معطل تھی۔ مختلف حلقوں کی طرف سے پُرزور مطالبے پر مسٹر محمد علی جناح نے مسلم لیگ کا خصوصی اجلاس 24 مئی 1924ء کو لاہور میں طلب کرلیا۔ گزشتہ دس برس کے دوران مسلمانوں کے کیمپ میں خاصا ردوبدل ہوچکا تھا۔ مذہب، مسلم قومیت اور مسلمانوں کی عالمی سیاست کے پیغام لے کر اہم شخصیتیں مسلمانوں کی سیاست میں نمودار ہوئیں جو تحریک عدم تعاون کی صفِ اوّل میں بھی شامل تھیں۔ تحریک عدم تعاون کے خاتمے پر یہ صاحبان دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ کانگریس کا دامن پکڑ کے بیٹھ گیا اور عملاً ہندو قومیت کے تصوّر پر مبنی سیاست میں مدغم ہوگیا۔ اُن میں سب سے نمایاں لیڈر مولانا ابوالکلام آزاد تھے۔ دوسرا گروہ وہ تھا جس کے سیاسی شعور پر مسلم قومیت کا تصوّر چھایا ہوا تھا۔ وہ کانگریس میں بھی سرگرم رہا، اُس سے الگ بھی ہوا، لیکن مسلم سیاست سے کبھی لاتعلق نہیں رہا۔ اِس کی سب سے نمایاں مثال مولانا محمد علی جوہرؔ کی تھی۔ وہ کانگریس کے صدر منتخب ہوجانے کے باوجود مسلم لیگ کے خصوصی اجلاس میں شرکت کے لیے لاہور پہنچے اور عمر کے آخری حصّے تک مسلمانوں کی سیاست میں حصّہ لیتے رہے۔ اِسی طرح پنجاب سے میاں فضل حسین قومی سطح پر نمودار ہوئے جنہوں نے آئندہ دس بارہ برس کے دوران مسلم سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ مسلم لیگ کو لاہور میں اجلاس منعقد کرنے کی دعوت اُنہی کی طرف سے تھی۔ اُس اجلاس میں مسلمانوں کے مطالبات کا جو نیا ایجنڈا منظور ہوا، وہ بھی اُنہی کا مرتب کردہ تھا۔ قائداعظم نے اپنی صدارتی تقریر میں ہندو مسلم اتحاد پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ہندوستان میں غیروں کی حکومت کا قیام اور اِس کا تسلسل فقط ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین عدم اعتماد کی وجہ سے ہے۔ جس دن اِن دونوں میں اتحاد ہوجائے گا، ہندوستان کو ذمے دار حکومت مل جائے گی۔‘‘ اجلاس میں ایک اہم قرارداد منظور ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان کا آئین بناتے وقت مندرجہ ذیل اہم امور شامل کیے جائیں گے:
(1) ہندوستان میں وفاقی طرزِ حکومت رائج کیا جائے گا۔ صوبوں کو مکمل خودمختاری دی جائے گی اور مرکزی حکومت کو صرف مشترکہ مفاد سے متعلق امور سونپے جائیں گے۔ (2) اگر کسی وقت صوبائی حدود میں تبدیلی مطلوب ہوئی، تو اِس سے بنگال، پنجاب اور صوبہ سرحد میں مسلمانوں کی اکثریت کسی طرح متاثر نہ ہونے پائے۔ (3) مجالسِ قانون ساز میں نمائندگی آبادی کے تناسب سے دی جائے۔ (4) تمام فرقوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو۔ (5) جداگانہ انتخاب جاری رکھا جائے۔ (6) کسی قرارداد یا بل کی اگر متاثرہ فرقے کے تین چوتھائی ممبر مخالفت کریں، اُسے پیش کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ یہ آخری نکتہ دراصل مسلمانوں کے تشخص کو آئینی تحفظ فراہم کرتا تھا۔ اب ایک طرف قائداعظم ہندو مسلم اتحاد کی ضرورت پر زور دے رہے تھے، تو دوسری طرف ہندوؤں کے اندر سے مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی خوفناک آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ ہندو مہاسبھا کے لیڈر ڈاکٹر مونجے برسرِعام کہہ رہے تھے کہ جس طرح انگلستان انگریزوں کا، فرانس فرانسیسیوں کا اور جرمنی جرمنوں کا ہے، اِسی طرح ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے اور مسلمانوں کو یہاں سے نکال دینا چاہیے۔ ہندوؤں کے روزنامہ ’پرتاپ‘ نے یکم جولائی 1927ء کے شمارے میں وہ رُباعی شائع کی جو اُن دنوں ہندوؤں میں بہت مقبول تھی:
”کام شدھی کا کبھی بند نہ ہونے پائے
بھاگ سے وقت یہ قوموں کو ملا کرتے ہیں
ہندوؤ! تم میں ہے گر جذبۂ ایماں باقی
رہ نہ جائے دنیا میں کوئی مسلماں باقی“
شدھی اور سنگٹھن تحریکوں کی مسلسل دست درازیوں کے سبب فرقہ وارانہ فسادات زندگی کا معمول بن گئے تھے۔ نامور تاریخ دان پروفیسر کے کے عزیز نے اپنی تصنیف Britain and Muslim India میں اُن فسادات کا اجمالی نقشہ پیش کیا ہے جس کے مطابق 1923ء میں گیارہ، 1924ء میں اٹھارہ، 1925ء میں سولہ، 1926ء میں تینتیس اور 1927ء میں پینتیس ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ جب لاہور میں مسلم لیگ کا خصوصی اجلاس آئندہ کے مسلم مطالبات کی شیرازہ بندی کررہا تھا، تب کوہاٹ میں ہونے والے خونریز فرقہ وارانہ فسادات کی خبریں شائع ہونے لگیں۔ اِس پر مہاتما گاندھی نے اعلان کیا کہ وہ لوگوں کے گناہوں کا کفارہ اَدا کرنے کے لیے اکیس روزہ برت رکھ رہے ہیں۔ ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں یہ اقدام بہت انوکھا تھا جس نے پورے ملک کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی تھی۔ مہاتما اُس وقت دہلی میں مولانا محمد علی جوہرؔ کی اقامت گاہ پر ٹھیرے ہوئے تھے جو اُن دنوں کانگریس کے صدر تھے۔ اُنہوں نے کانگریس کے صدر کی حیثیت سے فی الفور اتحاد کانفرنس کا انتظام کیا۔ اُس میں مرکزی پنچایت قائم ہوئی جس کا مقصد مقامی لوگوں کو باہمی جھگڑے طے کرنے میں مدد فراہم کرنا تھا، مگر وہ محض کاغذی شے ثابت ہوئی۔ اِن حالات میں مسلم لیگ کے مئی 1924ء کے خصوصی اجلاس میں ہندوستان کے مسلمانوں کے مطالبات کی نئے سرے سے شیرازہ بندی ہوئی جو آئندہ چند سال اُن کی جدوجہد کا مرکز بنے رہے۔ لیکن ہندوؤں کے جارحانہ طرزِعمل سے مسائل حل ہونے کے بجائے اُلجھتے اور آئینی ارتقا میں حائل ہوتے رہے۔
(الطاف حسن قریشی۔ روزنامہ جنگ۔ 7جولائی 2023ء)