حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ مکہ کا ہر مرد، عورت اور بچہ عجز و انکسار کی اس خصوصیت سے مالا مال ہو جائے جو انسان کا طرئہ امتیاز ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کو محض سماجی اصلاح کے لیے کام کرنے سے آسودگی حاصل نہیں ہوتی تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پختہ یقین تھا کہ جب تک دل تبدیل نہیں ہوتے، خالص سیاسی پروگرام صرف سطحی اور مصنوعی ہوگا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیروکاروں کی مختصر جماعت کو وہ ارکان عبادت سکھا دیے جن کی بدولت ان کی زندگیوں میں انقلاب آگیا۔ اسلام قبول کرنے والے یہ لوگ سب سے پہلے نماز (صلوٰۃ) کے لیے جمع ہونا شروع ہو گئے جس سے انہیں روزانہ ان کے فرائض کی یاد دہانی کرائی جاتی۔ نماز سے ان کے روزمرہ کے دین کاروباری معمولات رک جاتے اور انہیں یہ باور ہو جاتا کہ ان کی اولین ترجیح اللہ ہے ۔ ”مروہ“ کے کلچر میں پروان چڑھنے والے مردوں اور عورتوں کے لیے سجدے کی غرض سے غلاموں کی طرح زمین پر لیٹنا بہت مشکل تھا، چنانچہ اس ذلت آمیز ہیئت پر بہت سے قریش کے جذبات کو ٹھیس پہنچی۔ لیکن نماز میں جسمانی اشارت انسان کی طرف سے پورے جسم کو اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور خدا کی کامل اطاعت کی علامت ہے۔ اس سے عمیق سطح پر مسلمانوں کے جسموں کو بھی یہ سبق ملتا ہے کہ وہ خود نمائی اور تکبر کی روش کو ترک کر کے اپنی زندگیوں کو اعلیٰ اوصاف سے سنواریں۔ چنانچہ وہ مرد اور عورت جو خدا کے سامنے سر جھکانے کو اپنا شعار بنائےاور خدا کا غلام ہونے پر فخر کرے ، مسلمان ہے۔
[ ” محمد صلى الله عليه وسلم پیغمبر عهد روان“
کیرن آرمسترانگ ترجمه: نعیم الله ملک ]
مجلس اقبال
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مرا عشق، میری نظر بخش دے
یہ شعر امت کے نوجوانوں کے لیے خصوصی دعا بیان کرتا ہے کہ ’’اے اللہ، جس درد سے میرے قلب و جگر کو تُو نے بھر دیا ہے، یہ جذبہ، شوق اور حرارت ان نوجوانوں کے سینوں میں بھی بھردے، عشق کی جس تپش سے مجھے نوازا ہے اور میری نگاہوں میں جو ایمانی بصیرت بھری ہے، ان نوجوانوں کو بھی منتقل کردے۔ امت کے یہ نوجوان ہی تو ہماری امیدوں کا مرکز ہیں، اس لیے انھیں جذبوں اور فکر و عمل کی دولت سے مالا مال فرمادے‘‘۔