کیا لوگ تھے؟(خاکے)

سعدیہ قریشی کے خاکوں پر مبنی کتاب ’’کیا لوگ تھے!؟‘‘ خوب صورت اور دیدہ زیب سرورق کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ہے، جو پڑھنے کے لائق ہے۔

اردو جرنلزم کے محاذ پر مختصر عرصے میں نمایاں ہونے والی سعدیہ قریشی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کرکے روزنامہ جنگ لاہور سے اپنے کیریئر کے آغاز کے بعد 2007ء میں کالم نگاری کا آغاز کرتی ہیں اور 2012ء میں روزنامہ دنیا نیوز سے ہوتے ہوئے 2017ء سے روزنامہ 92 نیوز میں۔ ہر ہفتے ان کے دو تین کالم 92 نیوز میں اشاعت پذیر ہوتے ہیں۔ ان کے کالموں کی الگ پہچان اور اسلوب ہے۔

سعدیہ قریشی کے کالم زاہدہ حنا، کشور ناہید اور بشریٰ رحمٰن کے کالموں کی طرح اپنے اسلوب، خوب صورتی، بیانیے اور سحرکاری کے باعث نہایت عمدگی لیے ہوتے ہیں۔ وسیع المطالعہ، وسیع الفکر اور استوار فکر کے ساتھ اپنی مٹی، اپنی تہذیب، اپنی اقدار کی رہنمائی میں کالم نگار معاشرتی سدھار، سماجی اصلاح اور سیاسی آدرشوں کو سنوارنے اور بے حس معاشرے کو جھنجھوڑنے اور تعمیر کرنے کے لیے اپنے قلم کو تلوار بنائے سرگرم عمل ہیں۔ ان کے قلم کی تیز دھار اپنی بے ساختگی، حساسیت، کاٹ اور نظم و ضبط آزما رہی ہے، بلکہ حساس دلوں کو چھیڑنے اور انہیں عمل کی دنیا میں کردار کے جوہر آزمانے کے لیے تیار و آمادہ کررہی ہے۔

اردو اخبارات میں لکھنے والے مختلف نسلوں، نظریات، گروہوں اور اسالیب کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں لیکن کم ہی کالم نگار ایسے ہیں جو اپنے کالم کے اسلوب، تنوع اور نئے پن کے باعث پڑھنے والوں میں جگہ بنا پاتے ہیں۔ سعدیہ قریشی کے یہ کالم پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ کہنے کو تو ’’کیا لوگ تھے‘‘ صرف 40 کالموں کا انتخاب ہے، لیکن لاجواب ہے۔

منتخب کالموں کا یہ مجموعہ 40 مختلف شخصیات کی زندگیوں کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کرتا ہے۔ ان شخصیات میں ارشاد حقانی، بے نظیر بھٹو، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، احمد ندیم قاسمی، عبدالستار ایدھی، منو بھائی، عبداللہ حسین اور روحی بانو شامل ہیں۔ ان خاکوں میں صحافت، سیاست، قومی ہیروز، شعر و ادب، فن اور فن کار شامل ہیں۔

یہ مجموعہ دراصل ایک صحافی کے تجربات، یادداشتوں، جذبات و احساسات اور گہرے مشاہدات کا عکس ہے جس میں ان خاکوں کا موضوع بننے والی شخصیات، ان کی زندگی اور زندگی کا چلن اخلاص، ہمدردی، دل سوزی و دردمندی، خدمت اور تعاون جیسے عناصر سے اٹھا اور جنہوں نے اپنے عزم، حوصلے ہمت اور فیض رسانی سے معاشرے کے دکھ کم کرنے اور اسے دوسروں کے لیے فیض رساں بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ ایسی ہی خوب صورت شخصیات کا تذکرۂ جانفزا!؟ ’’کیا لوگ تھے‘‘ میں جابجا نظر آتا ہے اور عمل کے لیے مہمیز کا کام کرتا ہے۔

اخلاص سے لکھے گئے یہ کالم اپنے پڑھنے والے کو ان سسکتی اور مٹتی اقدار اور تہذیب و روایات کی جانب نہ صرف متوجہ کرتے ہیں بلکہ معاشرے کو پھر سے ان اقدار، تہذیب و روایات کے ساتھ ہم آہنگ کرکے معاشرے کو پاکیزگی، اخلاص، عزت، احترام، برداشت کا خوگر بناتے نظر آتے ہیں۔ ایک لاجواب اور خوب صورت کتاب جس کا مطالعہ قارئین کے لیے نفع سے خالی نہیں۔