نواب اکبر بگٹی کا ایک خطاب تاثر انگیز یادیں

سوشلسٹ انقلاب سے قبل روس کے مشہور ادیب ٹالسٹائی نے ایک بڑی خوب صورت کہانی لکھی تھی جس کا نام تھا ’’طویل قید‘‘۔ اس میں ایک کردار بے گناہ ہوتا ہے لیکن اسے چھبیس سال قید کی سزا ہوتی ہے۔ اس پر قتل کا الزام تھا۔ وہ اپنی رہائی کے قریب تھا کہ اصلی قاتل جیل میں آجاتا ہے ۔ ایک موقع پر قاتل اور بے گناہ تاجر کا آمنا سامنا ہوتا ہے اور قاتل اس کو دھمکی دیتا ہے کہ اگر تم نے اس راز کو افشا کردیا تو میں تمہیں قتل کردوں گا۔ تاجر اسے جواب دیتا ہے کہ تم نے تو مجھے بہت پہلے قتل کردیا تھا۔

یہ کہانی اُس وقت میرے ذہن میں گھومنا شروع ہوئی جب نواب اکبر بگٹی پارٹی کنونشن سے خطاب کررہے تھے۔ وہ اپنی لکھی تقریر کے بعد کچھ دیر اپنے خیالات کا اظہار دل کے ذریعے کررہے تھے۔ یوں ان کی تقریر کے دو حصے تھے، ایک حصہ وہ تھا جس میں وہ سیاست دان اکبر خان لگ رہے تھے اور دوسرے حصے میں وہ ایک بلوچ سردار کی حیثیت سے مخاطب تھے اور اس حصے میں وہ ایک روایتی بلوچ سردار کی مکمل عکاسی کررہے تھے اور اپنے جذبات کی ترجمانی کررہے تھے۔ یہاں دل اور زبان کے فاصلے مٹ گئے تھے اور خوب صورت جملے ان کی زبان سے ادا ہورہے تھے۔ وہ اپنے ماضی میں چلے گئے تھے اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ بلوچستان کے بے آب و گیاہ کوہساروں سے سرگوشی کرتا ہوا کوئی بلوچ سردار ہے جو پہاڑوں میں رزم گاہ سے بزم گاہ کی طرف آرہا ہے، اس کے سینے میں کئی پوشیدہ راز اور کہانیاں ہیں جو اس کو لب کشائی پر مجبور کررہے ہیں۔ وہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے کہہ نہیں پارہا ہے، اور کچھ رکتے رکتے کہہ رہا ہے۔کبھی اس بلوچ سردار کو کسی اور بلوچ سردار کی بے وفائیاں کچھ کہنے پر اکساتی ہیں، تو کبھی اس بلوچ سردار کا بلوچی انت راستہ روکے کھڑی نظر آتی ہے اوروہ بڑے وقار سے اس مرحلے سے گزر جاتا ہے۔ میری نگاہوں کے سامنے اس کے متضاد رویّے گزر رہے تھے۔ وہ ذہنی کش مکش سے دوچار لگ رہا تھا۔ اس کو بھری بزم میں اپنی تنہائی کا احساس شدت سے ہورہا تھا۔ وہ کبھی دائیں اور کبھی بائیں نگاہ ڈالتا، اور اس کی نگاہیں مایوس لوٹتی دکھائی دیتیں۔

عمر اور تجربے نے اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ اسے اپنی بات سمجھانے میں دقت محسوس ہوتی ہے، وہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے اس کے ہم نشین اسے سمجھنے سے قاصر ہیں، اور جو وہ نہیں کہنا چاہتا اس کے ہم نشین وہ سننا چاہتے ہیں۔ یہ بھی اس کی زندگی کے المیوں میں سے ایک المیہ ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت سے راز اور باتیں اپنے سینے میں دبائے خاک کی آغوش میں چلا گیا اور بلوچوں کی تاریخ کے کئی چراغ سرِ راہ جلتے جلتے بجھ گئے۔ حیرت کی بات ہے کہ بھری بزم میں مرکزِ نگاہ ہونے کے باوجود اپنے خیالات اور سوچ کی وجہ سے تنہا اور اجنبی ہے، بقول شاعر

ناصر اس دیار میں کتنا اجنبی ہے تُو

کی تصویر لگ رہا تھا۔ میرے اس خیال کو نواب بگٹی کے اس حصے نے مہمیز دی ہے جہاں وہ اپنے دل اور زبان کو ہم آہنگ پارہے تھے۔ اس سے میری یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ جو تقریر لکھ کر پڑھی ہے اس میں دل اور زبان ساتھ نہ تھے، بلکہ وہ سیاسی پہلو اور پالیسی لیے ہوئے تھے ۔

میرے خیالوں میں ہلچل نواب کے ان جملوں نے پیدا کی کہ اپنے پھر بھی اپنے ہوتے ہیں اور غیر کبھی اپنے نہیں ہوتے، مجھے یقین ہے کہ خیر بخش اور عطا اللہ نے قتل کیا تو وہ مجھے سائے میں رکھیں گے دھوپ میں نہیں پھینکیں گے ،میری لاش کو وہ کندھا بھی دیں گے ، وہ مریں گے تو میں ان کو کندھا دوں گا کہ یہ بلوچی انت ہے۔ اور کہا کہ آپ کے اندر ہمارے لیے چھپی نفرت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے، ہم ایک طرف ہوکر بیٹھ گئے، ہمارے دل میں آپ کے لیے دشمنی بن سکی اور نہ نفرت! غیر تو صرف استعمال کرکے ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔

تقریر کا یہ حصہ ایک طویل داستان سناتا ہے، اس میں وفائوں اور بے وفائیوں کا قصہ چھپا ہوا ہے۔ اس میں بے وفائیوں کی بے شمار کہانیاں ہیں، اور دوستیاں اور دشمنیاں باہم گلے ملتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں۔ اس حصے میں ان لوگوں کے دلوں پر ایسے ایسے گھائو نظر آئیں گے جن کو تاریخ بھی مندمل نہ کرسکی اور نہ کرسکے گی، اور ان کے رویوں نے بلوچستان کے بلند و بالا پہاڑوں کو اپنے ہی فرزندوں کے خون سے لالہ زار کردیا ہے۔ آج بھی پہاڑوں کے فرزندوں کے خون کے سرخ دھبے پہاڑوں میں جذب ہوکر سیاہ بن گئے ہیں۔ یہ پہاڑ بھی ہوائوں سے سرگوشیاں کرتے ہیں، ان کے سینے میں بھی بے شمار المیہ کہانیاں چھپی ہوئی ہیں، یہ ہر روز سرد اور گرم گردش کرتی ہوئی ہوائوں کو اپنے دل کی بات بتاتے ہیں اور یہ ہوائیں جب بادل بن کر امڈ کر آتی ہیں تو یہ بھی ان المیوں پر آنسو بہاتی ہیں جو رم جھم کی صورت ان پہاڑوں پر برستی ہیں اور ان کو کوئی سننے والا نہیں ہوتا۔

نو اب اکبر کے خیالات نے میرے خیالات کو جنم دیا اور خیالوں میں کئی المیہ داستانیں گردش کرتی ہوئی آپس میں گڈ مڈ ہورہی ہیں۔ ان کا ہر جملہ ایک خیال اور کہانی کی طرف لے جارہا تھا، جب انہوں نے کہاکہ سردار عطا اللہ مینگل اور نواب خیر بخش خان مری مجھے قتل کریں گے تو میری لاش کو دھوپ میں نہیں پھینکیں گے بلکہ سائے میں رکھیں گے تو مجھے ٹالسٹائی کی کہانی یاد آگئی جس کا اوپر ذکر کرچکا ہوں۔ ان بلوچ سرداروں اور نوابوں کا 1970ء سے 1998ء کا دور نگاہوں میں رکھیں تو ان میں سے ہر نواب اور سردار نے ایک دوسرے کو نہ صرف قتل کیا ہے بلکہ لاشوں کو دھوپ میں بھی پھینکا ہے جہاں گدھ بھی منڈلاتے رہتے ہیں اور سر نوچتے رہتے ہیں، مگر ان بہادر بلوچوں نے ایک دوسرے کو جسمانی طور پر قتل نہیں کیا بلکہ سیاسی اور روحانی طور پر قتل کیا ہے۔

اور ہر ایک نے ٹالسٹائی کی کہانی کے کردار کے طور پر یہ کہا ہے کہ ’’تم نے آج سے کئی سال پہلے قتل کردیا ہے،اب تم کیا قتل کروگے!‘‘

یہ ایک المیہ داستان ہے جو ہر ایک سنارہا ہے اور گلہ مند ہے، اور زخم مندل نہیں ہورہے ہیں۔ گزری ہوئی دوستیاں اور ان کی یادیں ستا رہی ہیں اور دوستوں کے ہاتھوں لگے ہوئے گھائو رِس رہے ہیں۔ اکٹھے ہونا بھی چاہتے ہیں مگر دل میں بال آیا ہوا ہے۔ کچھ مختصر لمحوں کے لیے اکٹھے بھی ہوئے لیکن ان کے تضادات نے ان کو ہمیشہ کے لیے دور کردیا ہے۔

اب یہ لوگ شاید لاشوں کو کاندھا دینے کے مرحلے ہی پر اکٹھے ہوسکیں گے، اب ان کی نگاہیں ایک دوسرے کو خاک نشین ہوتے ہی دیکھ سکیں گی۔ یہ بھی ان کی زندگی کے المیوں میں ایک المیہ ہوگا جو تاریخ کے کسی موڑ پر لوگ دیکھیں گے۔

یہ بھی بڑی بات ہوگی کہ یہ بڑے لوگ اس بلوچی رسم کو ادا کرسکیں، ورنہ نواب مری نے تو اپنے ساتھی شیرو مری کوکاندھا دینا بھی گوارا نہ کیا اور نہ ہاتھ اٹھائے۔ یہ دونوں ایک ہوکر افغانستان گئے تھے اور جب لوٹ رہے تھے تو بلوچی روایت بھی توڑ چکے تھے۔موت بھی انہیں یک جا نہ کرسکی۔ بعض نفرتیں اتنی شدید ہوتی ہیں کہ موت کی آغوش بھی ان کی

شدت کو کم نہیں کرسکتی، اور بعض دفعہ تو دوستوں نے خون سے اپنی پیاس بجھائی مگر پھر بھی نہ بجھی۔ اور تاریخ میں ایسے مناظر بھی محفوظ ہیں، عزیزوں نے عزیزوں کو تلواریں ماری ہیں اور وفاداروں نے یاروں کی پیٹھوں اور سینے میں خنجر گھونپے ہیں۔ بلوچستان کے اس حصے کی تاریخ بھی شیکسپیئر کے ڈرامے کی داستان سے مماثل نظر آتی ہے۔ بلوچستان میں ہر سیزر کا اپنا الگ بروٹس ہے اور ہر بروٹس کے آگے ایک سیزر کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں خون آلود خنجر ہے اور ہر سیزر نے مڑ کر دیکھا اور کہاکہ

’’بروٹس تم بھی!‘‘
قارئین ابھی بہت کچھ لکھنے کو باقی ہے مگر آپ بھی سوچیں اور ان کہانیوں پر غور کریں، شاید آپ کچھ سمجھ سکیں!