قائداعظم محمد علی جناح کی سیاسی بصیرت کا ایک اہم واقعہ

دوسری جنگِ عظیم، برطانوی حکومت اور مسلم لیگ
دوسری جنگِ عظیم کے ابتدائی سالوں میں ہندوستان کی برطانوی حکومت جنگ میں ہندوستان کی سیاسی پارٹیوں کا تعاون حاصل کرنے کے لیے بہت بے قرار تھی۔ بنگال اور پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت تھی لیکن اسے قطعی اکثریت حاصل نہ تھی۔ پنجاب میں ایک مشکل مسئلہ درپیش تھا، پنجاب کے وزیراعلیٰ جو مشترکہ یونینسٹ پارٹی کے لیڈر تھے انہوں نے مسلم لیگ کے مسلمان ممبرز کی اطاعت کا یقین دلایا تھا۔

حکومتِ ہند صوبہ پنجاب کو جنگی مقاصد کے لیے نہایت اہم خیال کرتی تھی کیونکہ ہندوستانی فوج میں پنجابیوں کی اکثریت تھی۔ قائداعظم اُس وقت کے وائسرائے اورگورنر جنرل لارڈ لنلتھگو کو یہ اجازت دینے پر رضامند ہوگئے تھے کہ وہ ان دو صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی خدمات اور تعاون حاصل کرسکتے ہیں بشرطیکہ یہ دونوں وزرائے اعلیٰ مسلم لیگ کے نمائندے سمجھے جائیں۔ اس پروگرام کی تکمیل میں کچھ وقت صرف ہوگیا لیکن اسی دوران میں مسلم لیگ اور حکومتِ ہند کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے جس کے نتیجے میں قائداعظم نے تعاون کی اس پیشکش کو واپس لے لیا، لیکن جب جنگی کونسل کے ممبرز کی فہرست شائع ہوئی تو اس میں پنجاب کے وزیراعلیٰ سرسکندر حیات اور بنگال کے وزیراعلیٰ مسٹر فضل الحق کا نام بھی شامل تھا۔

تعاون کی پیشکش کی واپسی
مسلم لیگ کی طرف سے پیشکش کی واپسی کی بنا پر ان دونوں حضرات سے کہا گیا کہ وہ جنگی کونسل سے مستعفی ہوجائیں، تو انہوں نے یہ کہہ کر استعفے دینے سے انکار کردیا کہ وہ اس کونسل میں مسلم لیگ کے نمائندے کی حیثیت سے شامل نہیں ہوئے بلکہ اپنے اپنے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے لیے گئے تھے۔ گورنر جنرل نے بھی مسٹر سکندر حیات خان اور فضل الحق کی اس بات کی حمایت کی کہ یہ مسلم لیگ کے نمائندے کے حیثیت سے جنگی کونسل میں شریک نہیں ہوئے۔ قائداعظم نے اس بات کو ماننے سے انکار کردیا۔ جب اس تنازعے میں شدت پیدا ہوئی تو سیکرٹری آف اسٹیٹ فار انڈیا نے پارلیمنٹ کے سامنے گورنر جنرل کے مؤقف کی حمایت میں ایک بیان دیا۔ اس سے بظاہر قائداعظم کی پوزیشن کمزور ہوگئی۔ ان دو اہم شخصیتوں کے بیانات کی روشنی میں قائداعظم کے بیان کو کمزور سمجھ کر اس معاملے کو ختم سمجھا گیا۔

قائداعظم کا مؤقف
قائداعظم اپنی بات پر ڈٹے رہے۔ انہوں نے اس مؤقف سے ذرہ بھر انحراف نہ کیا کہ یہ دونوں مسلم لیگ کے نمائندے وزرائے اعلیٰ مستعفی ہوجائیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کا اجلاس بمبئی میں بلایا گیا۔ اس موقع پر غیرمسلم اخبارات نے قائداعظم کو بدنام کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ انہوں نے کہا کہ اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ قائداعظم کتنے ضدی اور غیردانش مند ہیں کیونکہ وہ باوجود گورنر جنرل اور سیکرٹری آف اسٹیٹ کے بینات کے، اپنی نامعقول ضد پر اَڑے ہوئے ہیں۔ یہ ایک انتہائی نازک لمحہ تھا۔ قائداعظم کے معتقد بھی ان کے مؤقف کی معقولیت پر شک کرنے لگے۔ مسلم لیگ کے مذکورہ بالا صبح کے اجلاس میں یہ موقع بھی آیا کہ یقین ہونے لگا کہ قائداعظم کو زندگی میں پہلی بار اپنے مؤقف کو منوانے میں ناکامی ہوگی۔ قائداعظم جلسے کے تمام عرصے کے دوارن مسلسل خاموش رہے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ قائداعظم کے دماغ میں کیا خیالات گونج رہے ہیں اور وہ اپنے اس کمزور مؤقف پر کیسے جمے رہیں گے۔

مشروط استعفوں پر وزرائے اعلیٰ کی آمادگی
دوپہر کے کھانے کا وقفہ ہونے سے پہلے قائداعظم خاموشی سے اٹھے اور فرمایا کہ ظہرانہ کے بعد جب اجلاس دوبارہ ہوگا تو میں اپنے مؤقف کے حق میں دلائل دوں گا، لیکن اگر یہ ثابت ہوجائے کہ یہ دونوں وزرائے اعلیٰ مسلم لیگ کے نمائندے کی حیثیت سے جنگی کونسل کے ممبر بنے اور وزرائے اعلیٰ کی حیثیت سے نہیں تو کیا یہ دونوں حضرات استعفیٰ دے دیں گے؟ اس بات پر دونوں وزرائے اعلیٰ راضی ہوگئے اور لنچ کے لیے اجلاس ملتوی ہوگیا۔ ہر شخص حیران تھا کہ قائداعظم کیا دلائل پیش کریں گے۔

جب اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو قائداعظم خطاب کے لیے اٹھے۔ آپ نے آہستہ سے اپنا بٹوہ نکالا اور اس میں سے ایک تہہ شدہ کاغذ نکال کر سیکرٹری کو دیا کہ وہ اونچی آواز سے پڑھ کر حاضرین کوسنائے۔ یہ مختصر کاغذ ایک بم کی طرح ثابت ہوا۔ اس سے دونوں وزرائے اعلیٰ ششدر رہ گئے۔ سیکرٹری آف اسٹیٹ فار انڈیا اور گورنر جنرل کا وقار خاک میں مل گیا۔

قائداعظم کے نام گورنر بمبئی کا خط
یہ کاغذ بمبئی کے گورنر کی طرف سے قائداعظم کے نام ایک خط تھا جس میں قائداعظم کی خیریت دریافت کرنے کے بعد گورنر جنرل کی طرف سے صاف طور پر تسلیم کیا گیا تھا کہ گورنر جنرل نے قائداعظم کا یہ مطالبہ منظور کرلیا ہے کہ سکندر حیات اور فضل الحق کو مسلم لیگ کے نمائندے کی حیثیت سے جنگی کونسل میں شامل کیا جائے گا۔ یہ دستاویز سرکاری کاغذ پر لکھی ہوئی تھی جس کے نیچے بمبئی کے گورنر کے دستخط ثبت تھے۔ اصل واقعات یہ ہیں۔

جنگ میں تعاون کے لیے وائسرائے ہند کا اصرار
وائسرائے ہند نے اپنے بمبئی کے دورے کے دوران قائداعظم سے اصرار کیا تھا کہ مسلم لیگ جنگ کے سلسلے میں حکومت کے ساتھ تعاون کرے۔ ہم جانتے ہیں کہ قائداعظم ایک صاف گو انسان تھے، ان کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی پوزیشن مستحکم کریں اور یہ منوائیں کہ ہندوستان میں صرف مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے، جس کی مخالفت میں انڈین کانگریس ایڑی چوٹی کا زور لگارہی تھی، کیونکہ اس مطالبے سے کانگریس کا یہ دعویٰ باطل ہوجاتا تھا کہ صرف کانگریس ہی ہندوستانیوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ جنگ کے سلسلے میں کانگریس کے معاندانہ رویّے کے پیش نظر حکومتِ ہند مسلم لیگ اور قائداعظم کی حمایت حاصل کرنے پر مجبور تھی۔ قائداعظم ایک بیدار مغز سیاست دان تھے۔ انہوں نے بھانپ لیا تھا کہ ہندوستان میں مسلم لیگ کی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے، چنانچہ انہوں نے اس موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ وائسرائے ہند کے ساتھ قائداعظم کی ابتدائی میٹنگ اسی فیصلے پر ختم ہوگئی، کہ آخری فیصلہ بعد کی میٹنگ میں کیا جانا تھا جو شملہ میں ہوئی تھی۔ جب اس میٹنگ کا وقت آیا تو قائداعظم نے بمبئی کے گورنر کے ذریعے گورنر جنرل کو شملہ آنے سے اپنی علالت کی وجہ سے معذرت کا اظہارکردیا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ وہ جنگ میں اپنی پیش کردہ شرائط کے ساتھ تعاون کرنے کی پیشکش پر قائم ہیں اور حکومت انہیں مطلع کرے کہ آیا وہ شرائط حکومت کو منظور ہیں یا نہیں؟

قائداعظم کی دور اندیشی
قائداعظم ایک تو ویسے ہی کچھ علیل تھے، دوسری وجہ شملہ نہ جانے کی اصل میں قائداعظم کی سیاسی بصیرت تھی۔ وہ ایک تجربہ کار سیاست دان تھے اور سیاست کے نشیب و فراز سے پوری طرح آگاہ تھے۔ اگر قائداعظم شملہ چلے جاتے تو وائسرائے سے تمام گفتگو زبانی ہوتی۔ اس کا کوئی ایسا ثبوت تحریری طور پر قائداعظم کے ہاتھ نہ آتا جو بوقتِ ضرورت کام آسکتا۔ بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ قائداعظم کس قدر دور اندیش اورعقل مند تھے اور انہوں نے کس ہوشیاری کے ساتھ وائسرائے سے اپنی شرائط تحریری طور پر منوالیں۔ وائسرائے اس جال میں آگیا اور بعد میں اس جال کو بھول کر اس نے اپنا اور اپنی حکومت کا ساری دنیا میں مضحکہ اڑایا۔
(ڈاکٹر انور اقبال قریشی)
(بشکریہ : ایشیا۔ 2 جنوری 1977ء)