لکھنا ہے تو ذخیرۂ الفاظ گھٹائیے نہیں

برس بھر پہلے کی بات ہے، ایک جامعہ کے شعبۂ ابلاغیات کی دو طالبات آئیں، سمعی وبصری آلات سے لدی پھندی۔ مقصد تھا ہم سے ’مصاحبہ‘ کرنا۔ دیگر سوالات کے ساتھ ساتھ ایک سوال یہ بھی اُٹھایا کہ ’’اچھی اُردوکیسے سیکھی جائے اور اچھی اُردو کیسے لکھی جائے؟‘‘ اس سوال کا جیسا جواب ہم سے بن پڑا ہم نے دے دیا۔ پھر وہی جواب اپنے ایک کالم میں بھی لکھ ڈالا۔ یہ کالم 9 ستمبر 2022ء کو شائع ہوچکا ہے۔

اب پچھلے پرلے روز کی بات سنیے۔ ایک پُرانے ’پرونے‘ ہمارے گھر تشریف لائے۔ آتے ہی پوچھ بیٹھے:

’’صاحب! دلچسپ نثر کیسے لکھی جاتی ہے؟‘‘

یہ دلچسپ سوال کرکے بڑی دلچسپی اور تجسس سے تادیر ہمارا منہ تاکتے رہے اور ہم تھے کہ (خوداپنی ہی) بغلیں تادیر جھانکتے رہے۔

اس تاکا جھانکی سے فارغ ہوئے تو عرض کیا کہ عزیزم! ایک قصہ سنو۔ ایک روز محترم نعیم بخاری صاحب سرکاری ٹیلی وژن پر مرحوم مشتاق احمد یوسفی صاحب سے مصاحبہ کررہے تھے۔ یہ تو تم بھی مانو گے کہ مشتاق احمد یوسفی مرحوم کی نثر نہایت دلچسپ نثر مانی جاتی ہے۔ سو، جنابِ بخاری نے بھی جنابِ یوسفی سے یہی سوال کرلیا: ’’آپ لکھتے کیسے ہیں سر؟‘‘

یوسفی صاحب نے برجستہ جواب دیا:’’اُکڑوں بیٹھ کر‘‘۔

جواب سن کر بخاری صاحب نے حسبِ عادت تیوری چڑھائی، بُرا سا منہ بنایا ’’اچھا اچھا، گُڈ‘‘ کہا اور اگلے سوال کا ڈول ڈال دیا۔ ہمیں ہی کیا تمام ’یوسفی شناس‘ ناظرین کو ’سخن فہمیِ نعیم بخاری‘ معلوم ہوگئی۔ خود ٹیلی وژن والوں کو بھی معلوم ہوگیا کہ ہر شخص سے مصاحبہ کرنے کے لیے ہر شخص موزوں نہیں ہوتا، خواہ وہ کتنا ہی نام وَرکیوں نہ ہو… اور ’دلچسپ نثر کیسے لکھتے ہیں؟‘ اب تمھیں بھی معلوم ہوگیا ہوگا۔

ہمارا طویل جواب سن کر نعیم بخاری ہی کے انداز میں پوچھنے لگے: ’’اُکڑوں کیسے بیٹھتے ہیں سر؟‘‘

عرض کیا: ’’اگر آپ اپنے تلووں کے بل اِس طرح بیٹھیں کہ آپ کے دونوں زانو پیٹ سے لگ جائیں، گھٹنے سینے سے، آپ کی تشریف ایڑیوں سے جا لگے اور آپ کی دونوں پنڈلیاں سیدھی کھڑی رہیں تو اِسے اُکڑوں بیٹھنا کہتے ہیں‘‘۔

بوکھلا کر بولے: ’’یہ کیسا بیٹھنا ہوا؟ یہ تو نہ بیٹھنا ہوا۔ پتلون پہن کر اس طرح سے بیٹھنے ہی بیٹھنے میں ساری نثر نکل جائے گی، دلچسپی کیا خاک پیدا ہوگی؟ ذرا آپ خود اُکڑوں بیٹھ کرتو دکھائیے‘‘۔

ہم نے جھٹ اُکڑوں بیٹھ کر اُنھیں دکھا دیا۔ کھسیانے ہوکر کہنے لگے: ’’اس طرح اُکڑوں بیٹھے بیٹھے تو آدمی اکڑہی جائے گا‘‘۔

ہم نے تسلی دی: ’’آپ کا وہم ہے۔ یوسفی صاحب مرحوم میں تو ذرا بھی اکڑفوں پیدا نہیں ہوئی۔ منکسر المزاج ہی رہے۔ البتہ اُسی مصاحبے میں اُنھوں نے انگریزی نثر کی بابت بھی بتایا تھا کہ جب تک کوٹ پتلون پہن کر، ٹائی باندھ کر اور میز کرسی پر بیٹھ کر نہ لکھیں، انگریزی گرامر قابو میں نہیں آتی‘‘۔

صاحبو! بات بے قابو ہوئی جارہی ہے۔ کہنا یہ تھا کہ ہر لکھنے والے کا جی چاہتا ہے کہ اُس کی تحریر دلچسپ ہو۔ دلچسپی سے پڑھی جائے اوردوسروں کو پڑھوائی جائے۔ بلکہ اتنی دلچسپ پائی جائے کہ سماجی ذرائع ابلاغ پر ’وبائی‘ ہوجائے۔ اسی دھن میں ورقی، برقی اور سماجی ذرائع ابلاغ پر اُردو تحریروں کا طومار بندھ گیا ہے۔ لکھنے والے اتنا لکھ رہے ہیں تو کیا خبر کوئی پڑھ بھی لیتا ہو۔ ہمیں بھی لکھنے سے فرصت ملے تو پڑھنے کی سوچیں۔ بھولے بھٹکے کبھی کچھ پڑھ بیٹھیں تو طبیعت اُوب جاتی ہے۔ ’اُوب جانا‘ اُکتا جانے، بیزار ہوجانے، بے دلی اور بے کیفی محسوس کرنے یا جی اُچاٹ ہوجانے کو کہتے ہیں۔ مگر اب لوگ ’اُوبنے‘ کے بجائے ’بور ہونے‘ لگے ہیں۔ دل چسپ نثر لکھنے کے ’دل خواہوں‘ کو یہی بات تو بتانے کی ہے کہ آپ دیسی الفاظ کو دیس نکالا دیں گے تو دلچسپ نثر خاک لکھیں گے؟ لفظوں کو ترک کرتے کرتے آپ کا ذخیرۂ الفاظ ہی گھٹ کر پونا، آدھا یا پاؤ رہ جائے گا۔ مگر اے میاں مٹھو! تم گئے لفظوں کو لوٹانے کی کیا بات کرو ہو؟ یہاں تو اُردو کے رہے سہے الفاظ کو بھی لات مار کر رگیدا جارہا ہے۔ ہمارے اپنے ہفت روزے کا نام ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ہے۔ ہمارے کالم کے بالمواجہ صفحے پر ’’بیاضِ حکمت‘‘ کے عنوان سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحاریر سے منتخب اقتباس افادۂ عام کے لیے شائع کیا جاتا ہے۔ رسالہ بھی اُردو کا ہے اور مولانا کا اقتباس بھی قابلِ رشک اُردو نثرکا شہ پارہ ہوتا ہے۔ لیکن اسی کے پیندے سے جڑا جملہ اُردو سمیت ہر ’بیاضِ حکمت‘ کا منہ چڑاتا نظر آتا ہے: ’فرائیڈے اسپیشل سوشل سروس‘۔ لو کرلو گَل۔ پورے فقرے میںکوئی لفظ اُردو کا نہیں۔ خدا جانے کس سماج کی خدمت ہورہی ہے۔

فقرہ لکھنا ہو یا مضمون، ہونا یہی چاہیے کہ آپ کے سامنے متبادل، مترادف اور متضاد الفاظ پھولوں کی طرح قطار اندر قطار لہلہا رہے ہوں۔ جو لفظ جی کو بھائے چُن لیا جائے۔ اگرآپ کے حضور لفظوں کے لشکر ہاتھ باندھے کھڑے ہوں اور آپ ان میں سے موزوں ترین لفظ چُن کراپنی تحریر میں سجا لیں تو نثر دلچسپ ہوجائے گی۔ اہتمام کرکے اُردو نثر میں اُردو ہی کے مانوس اور مروج الفاظ لکھیے۔ پھر دیکھیے کہ آپ کی نثر باقی لوگوں کی بہ نسبت دِل چسپ اور دل کش ہوجاتی ہے یا نہیں۔ اس کے بعد اگر لغت میں لیٹے الفاظ پر’قم باذن اللہ‘ پڑھ کر، اُن میں بھی زندگی کی روح پھونک دیں تو آپ کے ابلاغ کی مہارت اور بیان پر قدرت میں اضافہ ہوجائے گا۔ فصیح زبان وہ نہیں ہوتی جس کا ذخیرۂ الفاظ مسلسل گھٹتا ہی چلا جائے۔ فصیح زبان وہ کہلاتی ہے جس میں فقط اونٹ کے اتنے نام ہوں کہ اگر خود اونٹ سے سارے نام یاد کرلینے کو کہا جائے تو اس بوجھ سے بلبلا اُٹھے: ’’بَل بَل، بَل بَل‘‘۔ سوچیے تو سہی کہ فصیح زبانوں میں الفاظ کا اتنا بڑا ڈھیر کیسے لگ گیا؟ صاحب! ایسے لگ گیا کہ کسی لفظ کو ترک نہیں کیا گیا۔ نسل در نسل، مسلسل اور متواتر برتا گیا۔ ہم تو ابّا، تایا، دادا، دادی اور نانا، نانی کے برتے ہوئے الفاظ کو بھی بے رواج برتن کہہ کہہ کر کباڑ خانے میں ڈال رہے ہیں۔ جائزہ لیا جائے تو اُردو ذخیرۂ الفاظ میں آئے دن ہونے والا اضافہ ہماری زبان کو ثروت مند سے ثروت مند بناتا چلا جا رہا ہے۔ مگر یہ کیا؟ ایک طرف سے مال آتا جارہا ہے اور دوسری طرف سے جاتا جارہا ہے۔ ارے صاحبو! اپنے توانا لفظوں کو سسکا سسکا کر نہ مارو۔ تمھارے لفظ زندہ رہیں گے تو تمھاری تہذیب زندہ رہے گی۔

اپنے ہی نہیں پرائے بھی کہتے ہیں کہ اُردو میٹھی زبان ہے۔ یہ مٹھاس اس کے ذخیرۂ الفاظ میں ہے۔ تو کیوں نا آخر میں کچھ میٹھی میٹھی باتیں ہوجائیں۔ مٹھاس کو فارسی میں شیرینی کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو مٹھائی بھی شیرینی ہے۔ مگرمشائخ اور مُرتشیوں کے ہاں دونوں الفاظ بالترتیب نذرانے اور رشوت کا ’رمز‘ بنے بیٹھے ہیں۔ اُردو اور فارسی میں ہر میٹھا اور ہر پیارا ’شیریں‘ ہے۔گاڑھی، مائع شیرینی کو ’شیرہ‘ کہا جاتا ہے۔ فارسی اور اُردو کی شکر، عربی کا سُکر اور انگریزی کی شوگر ایک ہی شے ہے۔ اللہ نہ کرے کسی کو ہو۔ شکر کو ہمارے ہاں کھنڈ یا کھانڈ بھی کہا جاتا ہے۔ ہماری ’کھنڈ‘ عرب دنیا میں پہنچی تو وہاںسے عربی عبایا پہن کر اپنے آپ کو ’قند‘ کہلواتی ہوئی وطن واپس لوٹی۔ ہم نے بھی زیر زمیں پنپنے والے ایک میٹھے آلو کا نام اس کے نام پر رکھ دیا۔ یوں آلو کے خاندان میں ’شکر قند‘ یا ’شکرقندی‘ کا اضافہ ہوگیا۔ بے روزگاری سے تنگ آکر ’ قندی‘ کشتی میں سوار ہوئی اور یورپ چلی گئی۔ وہاں سے ٹی شرٹ پہن کر اور جینز کی پتلون کَس کر اپنا نام ’کینڈی‘ بتاتی ہوئی پھر درآمد ہوگئی۔ عربی کا ’الحلواء‘ اُردو میں آکر حلوہ بنا اور حلوائیوں کے ساتھ ساتھ مولویوں میں بھی مقبول ہوگیا۔ عرب تو ہر میٹھی اور پیاری چیز کو ’حلو‘ کہہ دیتے ہیں، ہم صرف ’نرم میٹھے‘ کو حلوہ قرار دیتے ہیں۔ آسانی یا نرمی سے ہوجانے والا ہر کام ہمارے لیے حلوہ ہے۔ لیکن کراچی والوں کو دیگر سختیوں کے ساتھ ساتھ ’سوہن حلوے‘ کی سختی بھی برداشت کرنی پڑتی ہے، جب کہ ملتان کا سوہن حلوہ بالکل حلوہ ہوتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ جب آپ اُردو کے متروک الفاظ مسلسل استعمال کرنے لگیں گے تو وہ بھی حلوہ ہوجائیں گے۔