مشفق خواجہ کا ادبی رسالہ ماہنامہ ’’تخلیق‘‘ کراچی

اُردو زبان و ادب میں نثر اور شاعری کی ترویج و اشاعت میں کتب کے علاوہ سب سے اہم کردار رسائل وجرائد کا رہا ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اُردو زبان و ادب کی اس حوالے سے جو خدمت رسائل نے کی ہے وہ شاید کتب نہ کرسکیں۔ اُنیسویں صدی سے آج تک اُردو ادبی رسائل ادب کی اشاعت میں اپنا اہم کردار ادا کررہے ہیں۔

اگر تاریخ ادب میں رسائل و جرائد کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے لوگوں نے رسائل وجرائد کی تاریخ کے حوالے سے مضامین و کتب پیش کی ہیں، لیکن ابھی تک سیکڑوں ایسے رسائل و جرائد موجود ہیں جن کی ادبی خدمات ایک روشن باب کی حیثیت رکھتی ہیں، لیکن ادب کی ناقدری خاص طور پر قدیم رسائل وجرائد کی بازیافت اور اُن سے استفادہ کرنے اور طلبہ و محققین کے سامنے لانے کے لیے کوئی باقاعدہ سرکاری و غیر سرکاری نظام موجود نہیں، یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ علمی، ادبی، تحقیقی اور تخلیقی جرائد لائبریریوں کے ایسے قبرستانوں میں دفن ہورہے ہیں جہاں پر کوئی جاکر دعائے خیر بھی نہیں کرسکتا۔ حالانکہ ان رسائل میں ایسی ایسی تخلیقات موجود ہیں جو کہ سیکڑوں کتب میں بھی نہیں ملتیں۔ اس لیے یہ بات بھی کہنا غیر مناسب نہ ہوگا کہ اُردو رسائل کی تاریخ درحقیقت ’’مسائل کی تاریخ‘‘ نظر آتی ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد بہت سے رسائل و جرائد کی وقتاً فوقتاً اشاعت ہوتی رہی ہے۔ اُن میں سے ایک رسالہ کراچی کا ’’تخلیق‘‘ بھی ہے جو کہ معروف محقق، ادیب، نقاد اور مصنف جناب مشفق خواجہ کی زیر ادارت شائع ہوا ہے۔

ماہنامہ ’’تخلیق‘‘ کا پہلا شمارہ اکتوبر 1956ء میں شائع ہوا، جس پر ’’پہلاسال، پہلا شمارہ‘‘ درج ہے۔ مشفق خواجہ صاحب کا نامِ نامی بطور ’’مرتب‘‘ درج ہے، جب کہ پہلے شمارے پر پتا یوں درج ہے: ’’دفتر تخلیق‘‘، 3؍22، جہانگیر روڈ، کراچی5۔ شمارے کے آغاز میں ’’حرفے چند‘‘ کے عنوان سے (اداریہ میں) اس رسالے کی اشاعت کے بارے میں لکھا گیا ہے:

’’یہ تخلیق کا پہلا شمارہ ہے۔ دوسرے پرچوں کی طرح اس میں بھی وہ تمام مواد جمع کردیا گیا ہے جس کی بنا پر کوئی پرچہ ادبی پرچہ کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اس میں کسی ادبی گروہ کی نمائندگی نہیں کی گئی، بلکہ کسی حد تک اسے اچھی تحریروں کا نمائندہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کوشش کس حد تک کامیاب رہی ہے اس کا فیصلہ پڑھنے والوں کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ [صفحہ5]

’’حرفے چند‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے ’’اداریہ‘‘ میں شمارہ اوّل کی ترتیب و تدوین میں ممتاز حسین، ابن انشاء اور خلیق ابراہیم کی مدد کا شکریہ بھی ادا کیا گیا ہے۔

’’تخلیق‘‘ کے اس پہلے شمارے میں محمد حسن عسکری، ڈاکٹر یوسف حسین خاں، ڈاکٹر سیدعبداللہ، ممتاز حسین، میرزا ادیب، محمد خالد اختر، شوکت صدیقی، دیوندر اِسر، صادق حسین کے ادبی مضامین شائع کرنے کے علاوہ جوش ملیح آبادی، فراق گورکھ پوری، حفیظ ہوشیارپوری، ابن انشا، ظہور نظر، ضمیر اظہر، عبدالمجید سالک، شاد عارفی، قتیل شفائی، جعفر طاہر، خلیل الرحمن اعظمی، مصطفی زیدی، سلیم واحد سلیم، من موہن تلخ، کرار نوری… کی رُباعیات و غزلیات شائع کی گئی ہیں۔ آخر میں ’’نئی کتابیں‘‘ کے عنوان سے ممتاز حسین، باقر مہدی، خلیق ابراہیم کے تبصرے شائع کیے گئے ہیں۔

شمارہ اوّل میں خاص طور پر غالب کی فارسی مثنوی ’’مغنی نامہ‘‘ کا اُردو ترجمہ شاملِ اشاعت ہے۔ یہ ترجمہ رفیق خاور نے کیا تھا۔ مزید برآں معروف نثرنگار چودھری محمد علی ردولوی کے غیرمطبوعہ خطوط شائع کیے گئے ہیں۔

ماہنامہ ’’تخلیق‘‘ کا دوسرا شمارہ نومبر 1956ء میں حسب بالا پتا سے مشفق خواجہ کی زیر نگرانی (بطورِ مرتب) شائع ہوا۔ اس میں ممتاز حسین، سیّد عابد علی عابد، قاضی عبدالودود، شمیم احمد کے مقالات کے علاوہ اے حمید کا مزاحیہ مضمون بھی پیش کیا گیا۔ جبکہ شاعری میں رفیق خاور، فارغ بخاری، جمیل الدین عالی، شور(علیگ)، ڈاکٹر وحید قریشی، تمہید الاسلام سیّد، اثر لکھنوی، امتیاز علی عرشی، شاد عارفی، غلام ربانی تاباں، جگن ناتھ آزاد، ڈاکٹر وزیر آغا، باقر مہدی، کرار نوری کا کلام شاملِ اشاعت ہے۔ اس شمارے میں ممتاز مفتی، دیوندر اِسر، حمید کاشمیری اور واجدہ تبسم کے افسانے بھی پیش کیے گئے۔ حسبِ معمول آخر میں بعنوان ’’تبصرے‘‘ کتابوں کا تعارف بھی شائع کیا گیا۔

مندرجہ بالا شمارہ دوم میں خاص طور پر ’’سخن در سخن‘‘ کے عنوان سے مولانا ابوالکلام آزاد کے غیر مطبوعہ خطوط اس رسالے کی خاص سوغات ہے، جس کے بارے میں اداریہ ( ’’حرفے چند‘‘) میں لکھا گیا ہے:

’’اس بار ’’سخن درسخن‘‘ کی زینت مولانا کے غیرمطبوعہ خطوط ہیں۔ اگرچہ ان خطوں میں ’’غبارِ خاطر‘‘ اور ’’کاروانِ خیال‘‘ جیسا اُسلوبِ نگارش نہیں ملتا، مگر پھر بھی یہ خط قابلِ توجہ ہیں، کیونکہ ان میں چند علمی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ [صفحہ4]

ماہنامہ ’’چراغِ راہ‘‘ نے نومبر1956ء کے شمارے میں ’’تخلیق‘‘ کے شمارے کا تعارف ان الفاظ میں پیش کیا:
’’پہلا شمارہ ہمارے سامنے ہے۔ زندگی کی حقیقتوں سے فرار رکھنے والے ادب سے ہٹ کر ’’اچھا ادب‘‘ پیش کرنے کے ارادے ہیں۔ کسی نظریہ کی بندشوں سے ’’تخلیق‘‘ آزاد ہے۔ پہلے شمارے میں مختلف حلقوں سے تعلق رکھنے والے نامور اور نوخیز دونوں ہی قسم کے احباب شریکِ ترتیب ہیں۔ مواد خاصا دلچسپ اور اشاعتی معیار بہتر ہے۔‘‘ [صفحہ48]

ماہنامہ ’’تخلیق‘‘ ایک اچھا تخلیقی اور ادبی پرچہ ہونے کے باوجود اپنی اشاعت برقرار نہ رکھ سکا اور صرف دو شماروں اکتوبر 1956ء (صفحات96)، جب کہ دوسرا شمارہ نومبر 1956ء (صفحات 80) پر مشتمل تھا، دونوں شماروں کے مدیر (مرتب) جناب مشفق خواجہ مرحوم تھے۔