استاد(Teacher)کسی بھی قوم اور معاشرے کا اہم ترین فرد ہوتا ہے، اس لیے کہ استاد قوم کی تعمیر کرتا ہے اور اس کے لیے وہ دن رات کوشاں رہتا ہے۔ اچھا استاد ہر وقت اس فکر اور دھن میں رہتا ہے کہ کسی طرح اپنی کارکردگی کو بہترین بنائے۔ اس کے لیے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ مطالعہ کرنا، دورِ جدید کے تقاضوں کو ذہن میں رکھ کر اس کے مطابق خود کو ڈھالنا، لیکچر کو بہترین اور مؤثر بنانے کے لیے نصابی اور غیر نصابی کتابوں کو کھنگالنا اور پھر کلاس میں مؤثر انداز میں طلبہ کو پڑھانا اور اس طرح پڑھانا کہ نصاب کی ایک ایک بات اُن کے ذہن نشین ہوجائے۔ یوں استاد ہونا یا بننا کوئی آسان کام نہیں بلکہ جان جوکھوں کا کام ہے۔
موجودہ زمانے میں ہمارا معاشرہ انحطاط کا شکار ہے، ہم اچھی اور قابلِ تقلید روایات سے دن بہ دن دور ہوتے جارہے ہیں۔ اس میں اساتذہ بھی شامل ہیں۔ اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں کہ اچھے اساتذہ موجود نہیں، موجود ہیں مگر بہت کم تعداد میں ہیں لیکن یہی ملک و قوم کا اثاثہ ہیں اور اپنے شاگردوں پر اپنا اثر چھوڑتے ہیں جو شاگردوں کے ذہنوں میں تاحیات رہتا ہے۔ اچھے اساتذہ میں ایک نمایاں اور منفرد استاد ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ہیں۔ ہاشمی صاحب مختلف الحیثیات شخصیت کے مالک ہیں (استاد، محقق، نقاد، ادیب،ماہرِ اقبالیات وغیرہ)۔ ہاشمی صاحب نے عملی زندگی کا آغاز درس و تدریس سے کیا اور وطنِ عزیز کے مختلف تعلیمی اداروں میں اپنی خدمات انجام دینے کے بعد بالآخر اپنی مادرِ علمی (اورینٹل کالج لاہور) میںاستاد مقرر ہوئے۔ آپ نے 35برس تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ تحقیقی خدمات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
زیرِ تبصرہ کتاب (اقبالیات، ادبیات، تاثرات) ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے انٹرویوز پر مشتمل ہے جنھیں پروفیسر سلیم منصور خالد نے انتہائی محنت، لگن اور تحقیق سے مرتب کرکے شائع کیا ہے۔ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ ہاشمی صاحب کے مصاحبوں (انٹرویوز) پر مشتمل ہے جس میں 25 انٹرویو ہیں جو وطنِ عزیز کے نامور اخبارات و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں، جب کہ دوسرا حصہ ’’یادیں‘‘ کے نام سے ہے۔ یہ قومی اور بین الاقوامی شخصیات کے بارے میں ہاشمی صاحب کے تاثرات اور یادوں پر مشتمل ہے۔ ان شخصیات میں ملک نصراللہ خاں عزیز، جیلانی بی اے، جسٹس(ر) ملک غلام علی، خلیل احمد حامدی، مظفر بیگ، پروفیسر محمد منور مرزا، نعیم صدیقی، ڈاکٹر محمد حمیداللہ، آباد شاہ پوری، ڈاکٹر عبدالمغنی، ڈاکٹر صابر کلوروی، پروفیسر جعفر بلوچ، ڈاکٹر ممتاز احمد، ڈاکٹر سعید اختر درانی، جاوید اقبال خواجہ، حفیظ الرحمٰن احسن اور ملک نواز احمد اعوان شامل ہیں۔
کسی بھی شخصیت کی خودنوشت اس کی زندگی کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ ہاشمی صاحب نے ابھی تک اپنی خودنوشت نہیں لکھی (اللہ کرے جلد لکھیں)، اس سلسلے میں یہ مصاحبے ہاشمی صاحب کو آپ بیتی میں سہولت فراہم کریں گے۔ یہ مصاحبے ہاشمی صاحب کی زندگی کے نشیب و فراز اور ان کی دل چسپیوں کا پتا دیتے ہیں۔ مثلاً ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں:
’’انٹرمیڈیٹ کے زمانے میں جب میں نوشہرہ (سون سکیسر) میں مقیم تھا، تو وہاں ”بالِ جبریل“ کا ایک نسخہ میرے ہاتھ لگا، اس مجموعے کی نظموں میں مجھے ایک خاص طرح کی دل کشی محسوس ہوئی۔ پڑھتے پڑھتے بہت سی نظمیں مجھے زبانی یاد ہوگئیں۔ بی اے میں اقبال کے مزید مطالعے کا موقع ملا تو میری دل چسپی اور ساتھ ہی ساتھ تشنگی بڑھ گئی۔ ایم اے میں تو پورا ایک پرچہ مطالعہ اقبال کے لیے وقف تھا، اس لیے نسبتاً تفصیلی مطالعہ کیا۔‘‘
ہاشمی صاحب وطنِ عزیز پاکستان میں اقبالیات پر ایک مستند حوالہ ہیں، اس لیے ان کے مصاحبوں میں اقبال کا ذکر نہ ہو یا اقبال کے متعلق سوال نہ کیا جائے، یہ ممکن نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ہاشمی صاحب کہتے ہیں:
’’آفاقی شاعر ہونا اقبال کے لیے کریڈٹ ہے، اور اس سے ان کے ملّتِ اسلامیہ کے تصور کی نفی نہیں ہوتی، کیوںکہ ملّتِ اسلامیہ کے تصور کی بنیاد بھی آفاقیت پر ہے۔ اسلام سے زیادہ آفاقیت کس مذہب میں ہوگی۔ اسلام کالے گورے اور غلام و آقا کو ایک ہی صف میں کھڑا کرکے انسانی مساوات کا عملی نمونہ پیش کرتا ہے۔ اگر ہندُستان والے اقبال کی آفاقیت پر زور دیتے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ بات یہ ہے کہ اقبال سے اہلِ بھارت کی دل چسپی کو پاکستان میں بیٹھ کر پوری طرح سمجھنا ذرا مشکل ہے، کیوں کہ ہمارے سامنے وہاں کی حقیقی صورتِ حال نہیں ہے۔ وہاں ایک حلقہ ہے جو اقبال کو رجعت پسند قرار دیتا ہے۔ دوسرا نیشنلسٹ ذہن ہے جس میں ہندو مسلم شامل ہیں۔ یہ لوگ ظاہر ہے کانگریسی پس منظر میں اقبال کا مطالعہ کرتے ہیں، تیسرے وہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو اقبال کو اس کے صحیح پس منظر میں سمجھنا اور سامنے لانا چاہتے ہیں۔‘‘
ہاشمی صاحب کی کچھ بین الاقوامی شخصیات سے ملاقاتیں بھی ہوئیں، ان میں ایک شخصیت ڈاکٹر محمد حمیداللہ (”خطباتِ بہاول پور“ والے) سے ملاقات کے احوال میں اُن کی شخصیت کا تعارف ان الفاظ میں کرواتے ہیں:
’’ایک دبلا پتلا اور دھان پان آدمی اوور کوٹ پہنے، مفلر لپیٹے، سر پر جناح کیپ سے مماثل ٹوپی، داڑھی کے بال زیادہ تر سیاہ، سرتاپا عجزو انکسار کی تصویر۔ یہ تھے ڈاکٹر محمد حمیداللہ، عالمِ اسلام کی ایک مایہ ناز شخصیت اور قابلِ فخر انسان، جس کی ساری زندگی خدمتِ اسلام اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف رہی، اور جو بہ ایں پیرانہ سالی آج بھی جوانوں کی طرح بلکہ ان سے کہیں بڑھ کر سرگرمِ عمل ہے۔‘‘
کتاب کے مرتب پروفیسر سلیم منصور خالد ’’گزارشات‘‘ کے ذیل میں رقم طراز ہیں:
’’محترم ہاشمی صاحب نے تدریس، تحقیق اور تہذیب کے اس طویل سفر کے دوران جو دیکھا اور جو محسوس کیا وہ ایک وسیع کینوس کا تقاضا کرتا ہے، مگر افسوس وہ اس باب میں خودنوشت نہیں لکھ سکے۔ تاہم بہت سے افراد اور اداروں نے ان سے مختلف نشستوں میں جو پوچھا،جو سمجھنا اور جاننا چاہا، وہ متعدد مصاحبوں (انٹرویوز) کی صورت میں اخبارات و رسائل کے سینے میں دفن تھا۔ اس تجربے اور مشاہدے کو آئندہ نسل تک منتقل کرنے کے لیے ہم نے مناسب سمجھا کہ یہ آثار مرتب ہوجائیں۔ اس طرح ان کے بہت سے مکالمات اور مصاحبوں میں جو چند میسر آئے، انھیں یہاں پیش کیا جارہا ہے۔“
مجموعی طور پر یہ کتاب علم اور معلومات کا ایک خزانہ ہے۔
کتاب بہت خوب صورت انداز میں عمدہ سرورق کے ساتھ چھاپی گئی ہے۔ آخر میں اشاریے بھی شامل ہے۔ ناشر اور مرتب مبارک باد کے مستحق ہیں۔