آڈیو، ویڈیو اور پیپر لیکس

اسباب و اثرات اور تدارک و بندش ایک سعیِ لاحاصل

آج کل آڈیو لیکس کا بڑا چرچا ہے جو کہ مشہور و معروف لوگوں کی ہوا کرتی ہیں اور ان کی عوامی آگہی اور رسائی کو آڈیو لیکس قرار دیا جارہا ہے۔

اگر ایسی ریکارڈڈ اور لیک یعنی افشا ہونے والی گفتگو کے حوالے سے غور و فکر کیا جائے تو چند بنیادی اور اہم حقائق اور نکات سامنے آجاتے ہیں جوکہ مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ ان ریکارڈنگز کے لیے جن افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے وہ کیوں کر اور کن خصوصیات کی بنا پر ہوا کرتا ہے؟

2۔ان ریکارڈنگز کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟

3۔یہ ریکارڈنگز مملکت کے کون سے ادارے کیا کرتے ہیں؟

4۔ یقینی طور سے لگاتار جاری و ساری ایسی سرگرمیوں میں سے محض چند ہی کو لیک کرنے کی کیا مخصوص وجوہات ہوسکتی ہیں؟

5۔ جب کہ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ایسی سرگرمیوں کی قانونی و آئینی حیثیت ہے کیا؟

ان ریکارڈڈ آڈیوز کے حوالے سے غالباً یہی چند بنیادی سوالات و نکات ہیں جن میں سے اگر پہلے نکتے کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ایسی تمام ریکارڈنگز جو کہ آگے چل کر لیک ہوں یا نہ ہوں، وہ تمام کی تمام مشہور و معروف شخصیات اور ان کے متعلقین و احباب کے حوالے سے کی جارہی ہیں، اور ظاہر ہے کہ ایسی معروف شخصیات میں اداکار، گلوکار یا کھلاڑی تو شامل ہونے سے رہے، لہٰذا ریکارڈنگز کے لیے منتخب کی جانے والی شخصیات وہی ہوا کرتی ہیں جن کا تعلق ملک و قوم کی سلامتی و تحفظ اور استحکام کے علاوہ انتظامی نظم و نسق، ریاست و سیاست، اداروں کی فلاح و بہبود و استحکام اور وقار سے ہو۔

جہاں تک تعلق ہے اس دوسرے نکتے یا سوال کا کہ ایسی ریکارڈنگز کے اغراض و مقاصد کیا ہوا کرتے ہیں، تو ظاہر ہے اس سوال کا جواب بھی پہلے والے سوال کے جواب سے بآسانی عیاں ہوجاتا ہے کہ یہ سب کچھ ملک و قوم کی سلامتی و تحفظ کے پیش نظر کیا جاتا ہے تاکہ نہ صرف وطن دشمن، بددیانت و بدعنوان اور نااہل افراد کی شناخت ہوسکے بلکہ محب وطن، دیانت دار اور اہل و باصلاحیت قیادت و افسران اور انتظامی عہدیداران کا تعین کیا جاسکے خواہ ان کا تعلق ریاست و سیاست اور مقننہ یا انتظامیہ ہی سے کیوں نہ ہو۔

نہ صرف یہ ریکارڈنگز بلکہ ایسے دیگر تمام اقدامات و سرگرمیوں کے مقاصد ملک و قوم کی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کے علاوہ اپنے اپنے ذاتی و سطحی اور خودغرضانہ مفادات کی خاطر ملک و قوم کے مفادات کو ٹھیس پہنچانے اور بیچنے والے عناصر کی شناخت و تدارک ہوا کرتے ہیں تاکہ ان عناصر کا قلع قمع اور انہیں قرار واقعی سزا دی جاسکے۔

رہ گئی بات اس تیسرے نکتے کی کہ ایسی آڈیوز یا ویڈیوز کون ریکارڈ کررہا ہے، تو ظاہر سی بات ہے کہ ایسے یا دیگر مزید کام ملک و قوم کے تحفظ و سلامتی سے وابستہ ادارے ہی کرسکتے ہیں اور یقینا کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ان ریکارڈنگز کے لیے نہ صرف جدید ترین ٹیکنالوجی، انسٹرومنٹس بلکہ متعدد دیگر وسائل، سہولیات اور اختیارات و مواقع بھی درکار ہوا کرتے ہیں۔

لہٰذا یقینی بات ہے کہ ایک زبردست وسیع و منظم نیٹ ورک ہی ملک و قوم کے مفاد اور تحفظ و سلامتی کی خاطر یہ ذمہ داری ادا کرسکتا ہے، تاکہ ملک و قوم کو اندرونی و بیرونی سازشوں سے قبل از وقت آگہی، تدارک اور تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ لہٰذا ہمارے حساس و دفاعی طور پر سرگرم و متحرک قابلِ تحسین و لائقِ فخر ادارے و محکمے نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی محاذ پر بھی اس حوالے سے گراں قدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

اب اگر چوتھے سوال کا جائزہ لیا جائے کہ ایسی بعض ریکارڈنگز کو عوام الناس تک رسائی کیوں کر فراہم کردی جاتی ہے، تو درحقیقت یہ ایک پیچیدہ، گہرا اور غور طلب معاملہ ہے۔ اگرچہ اس کا تعین کرنا ایک دشوار امر ہے، اور وہ سبب خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو، اس پر کامل اتفاقِ رائے ممکن نہیں۔کیوں کہ لیک آڈیوز کے اثرات بعض حلقوں، طبقوں یا شخصیات کے لیے مفید اور بعض کے لیے مضر ہوا کرتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ایسی لیکس (Leaks) پر منفی اثرات کے حامل حلقے و افراد مذمت، جب کہ دیگر حلقے و افراد ان پر اتفاق و قبولیت یا غیر جانب دارانہ رویّے اختیار کیا کرتے ہیں۔

لیکن ایسی تمام ہی ریکارڈڈ آڈیو لیکس میں بہرحال ایک چیز قدرے مشترک ہے کہ یہ تمام لیکس ان متعلقہ ریاستی و سیاسی اور مقتدر قوتوں کے غیر قانونی، غیر آئینی اور غیر اخلاقی و غیر شرعی معاملات و طرزعمل اور سیرت و کردار کی نشاندہی کیا کرتی ہیں۔

واضح رہے کہ ان ریکارڈنگز میں سے شاید ایک بھی ایسی نہ ہو جس کا تعلق ان متعلقہ شخصیات کے بالکل ذاتی، نجی، گھریلو اور مثبت و تعمیری اور غیر متنازع و غیر جانب دارانہ معاملات و افعال سے رہا ہو، بلکہ درحقیقت یہ تمام ریکارڈڈ لیکس ایسی نامور شخصیات کے اصل کردار، جانب دارانہ رویّے اور متنازع افعال کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کے مفادات کے برخلاف اور مفادات کے ٹکرائو کی بھی نشان دہی کیا کرتی ہیں۔

یہ بات قابلِ غور ہے کہ ان ریکارڈنگز کا محض ہمارے حساس اداروں اور مقتدر قوتوں تک ہی محدود رہنا اور عوام الناس تک عدم فراہمی و رسائی ایسے مشہور لوگوں کی اصلیت کو محض اسٹیبلشمنٹ ہی تک کی آگہی و واقفیت کا ذریعہ قرار دیا جاسکتا ہے، نتیجتاً ان آڈیوز کے لیک نہ ہونے سے عوام الناس کی ان نامور شخصیات کے حوالے سے لاعلمی و ناواقفیت کے باعث اندھی تقلید کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔

لہٰذا ان حقائق کے پیش نظر امکانی طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ مقتدر ادارے و قوتیں بعض اوقات مصلحتاً یا نہ چاہتے ہوئے بھی ان معروف شخصیات کا اصلی چہرہ و کردار اور پوشیدہ سرگرمیاں عوام کے سامنے پیش کردیتے ہیں تاکہ عوام و خواص حقائق سے باخبر ہوکر دوست و دشمن میں سوچ سمجھ کر تمیز کرتے ہوئے اپنے وطن پاکستان کی باگ ڈور کے لیے دیانت دار قیادت و افراد کو منتخب اور نامزد کرسکیں، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایسے حقائق سے آگہی کے باوجود بھی ہمارے شخصیت پرست و ضعیف الاعتقاد عوام اپنے اپنے من پسند افراد و شخصیات کے سحر میں اتنی بری طرح مبتلا ہیں کہ وہ ایک بھی قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، چنانچہ اب بظاہر اصلاحِ احوال کی کوئی خاص کرن نظر نہیں آتی۔

اب آخری نکتہ یہ باقی رہ گیا ہے کہ ایسی آڈیوز یا ویڈیوز کو کس قانون یا ضابطے کے تحت ریکارڈ کیا جارہا ہے، تو یہ بات ذہن نشین کرنی پڑے گی کہ ایسی سرگرمیاں تقریباً دنیا بھر میں ہوا کرتی ہیں۔ اعلیٰ ،مہذب و ترقی یافتہ ممالک اور ہمارے پڑوسی بھی ایسی سرگرمیوں سے مبرا نہیں، اور خصوصاً وہاں وہاں لازماً جہاں ان مملکتوں کی سلامتی و بقا کو خطرات لاحق ہیں۔

بہرکیف ریاستوں کو اپنی بقا و تحفظ اور سلامتی کے لیے اپنے حساس اداروں کو استعمال کرنا پڑتا ہے، بالعموم وہ بھی بنا کسی واضح قانون سازی و قواعد کے، یا پھر خال خال کہیں کہیں غیر واضح اور ڈھکے چھپے قواعد و ضوابط کے پردے میں۔

یہی وہ سب وجوہات ہیں کہ ان آڈیو لیکس کے متاثرہ فریق عدالتوں کے ذریعے ایسی آڈیوز کو نہ صرف لیک ہونے سے بچانے بلکہ انہیں بند کروانے کے بھی متمنی و خواہاں نظر آتے ہیں۔

موجودہ علاقائی، عالمی حالات کے تحت خصوصاً پاکستان جیسے ممالک کو جو کہ پڑوسی ممالک کی سازشوں کا شکار ہیں، اپنے دفاعی اداروں کا بھرپور و متحرک کردار امن و سلامتی اور استحکام کے لیے ہر اعتبار سے ناگزیر ہے، لیکن اس ضمن میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ریکارڈڈ گفتگو کے یہ کردار نہ تو ان آوازوں اور گفتگو کے متن کو جھٹلاتے اور نہ انکار کرتے ہیں، بلکہ بعض اوقات کوئی کمزور سا اعتراض یہ کہہ کر پیش کیا کرتے ہیں کہ ان کی آواز کو توڑ مروڑ کے، ایڈیٹنگ کے ذریعے انہیں بدنام کیا جارہا ہے، اس لیے ذمہ داران کا تعین کرکے سزا ملنی چاہیے۔ جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے افراد فرانزک ٹیسٹ کا مطالبہ کریں۔ بلکہ یہ لوگ تو بذاتِ خود بھی بڑے مالدار و صاحبِ ثروت اور اثر رسوخ کے حامل بااختیار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، یہ لوگ بآسانی یورپ و امریکہ کے غیر جانبدار اداروں سے حاصل کردہ فرانزک رپورٹس نہ صرف پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا بلکہ سوشل میڈیا پر بھی شیئر کرسکتے ہیں۔ قانونی چارہ جوئی کے لیے بھی یہی رپورٹس خاصی کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں۔

اس ضمن میں ایک واضح مثال سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی پیش کی جاسکتی ہے کہ کچھ عرصہ قبل اُن کی ایک ایسی آڈیو منظرعام پر آئی تھی جس میں وہ کسی سے دورانِ گفتگو سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو عدالتی فیصلے کے ذریعے سزا دلوانے کے عزم و ارادے کا اظہار کررہے تھے تاکہ عمران نیازی کے لیے اقتدار کی راہ ہموار ہوسکے۔یہ آڈیو امریکہ کے ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم ’’فیکٹ فوکس‘‘ نے پیش کی تھی جس کا فرانزک تجزیہ امریکی نامور فرم ’’گریٹ ڈسکوری‘‘ نے کیا تھا اور ثاقب نثار کی اس آڈیو کو مکمل طور پر غیرٹیمپرڈ، بلاکسی ترمیم و اضافے کے اوریجنل قرار دے کر اس کی درستی و سالمیت کی تصدیق کردی تھی ،اور غالباً یہی وجوہات تھیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ابتداً خاموشی کے بعد قدرے ہچکچا کے اسے جھٹلانے لگے، مگر انہیں اتنی ہمت و جرأت آج تک نہ ہوسکی کہ وہ اس امریکی ادارے کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور ہتک عزت کا کوئی مقدمہ دائر کرتے۔

اسی طرح جون 2023ء میں نون لیگی رہنما ناصر بٹ نے ایک نجی پاکستانی ٹی وی چینل کے برطانوی نشریاتی ادارے کی جانب سے الزامات کے جواب میں اپنا یہ مؤقف پیش کیا کہ عوامی مفاد اور نظام انصاف کے مفاد میں انہوں نے جج ارشد ملک کی ویڈیو بناکر نوازشریف کی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اور عدالتی نظام کے قوت و اختیارات کے غلط استعمال اور بدعنوانیوں کو سامنے لایا جاسکے۔ بہرکیف برطانوی ہائی کورٹ کی جج مسز ہیڈرو ولیمز کی جانب سے یہ فیصلہ دیا گیا کہ جج ارشد ملک کی لاعلمی کے باوجود خفیہ طور سے ان کے اعترافِ جرم کی ویڈیو بناکر ظاہر کرنا ہرگز غلط نہیں، ناصر بٹ نے کچھ بھی غلط کام نہیں کیا۔ واضح رہے کہ برطانوی جج نے ٹی وی چینل کو مسلم لیگ نون کے رہنما ناصر بٹ کے لیے 35 ہزار پائونڈ کے ہرجانے کے علاوہ قانونی اخراجات کی ادائیگی کا بھی حکم دیا ہے، بلکہ نجی ٹی وی چینل کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ آئندہ مرحوم جج ارشد ملک کے اعترافی بیان کی ریکارڈنگ اور لیک کے حوالے سے الزامات نہ دہرائے۔

گویا برطانوی ہائی کورٹ کی جانب سے دیئے گئے اس فیصلے کی روشنی میں بظاہر یہ امکان نظر آرہا ہے کہ ایسی پوشیدہ ریکارڈنگز کے عمل میں جہاں کوئی زور زبردستی، لالچ یا فریب دہی نہ ہو، حقائق کے حصول و آگہی اور ریکارڈ کی درستی کے لیے کچھ نہ کچھ گنجائش نکل سکتی ہے۔

جو لوگ اداروں یا ریکارڈنگ کے ذمہ داران کے ریکارڈنگز کے اس عمل کے مخالف اور انہیں روکنے کے خواہاں ہیں وہ قانونی و آئینی اجازت و قبولیت کے بغیر اسے افراد کی ذاتی و نجی زندگی میں مداخلت قرار دیتے ہیں۔ ایسے لوگ پاناما پیپرز، بہاماس پیپر لیکس اور ڈان لیکس کو کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں! بے شک یہ لیکس نان ڈیجیٹل و نان الیکٹرانک ہیں مگر سبھی کا مقصد و مفہوم ایک ہے یعنی پوشیدہ حقائق کو عیاں کرنا۔

اسی طرح ایسے حلقوں سے یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ آخر یہ Safe City Projects میں جو سیکورٹی فراہم کی جاتی ہے کیا اس کی فراہمی میں ایک بہت بڑا کردار جدید کیمروں، ریکارڈنگز اور دیگر حساس آلات کا نہیں ہے؟

یہ جو مختلف شہروں کے سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں کیا یہ وہاں آنے جانے اور کام کرنے والوں کی پرائیویسی کو پامال کررہے ہیں؟

سڑکوں، گلیوں، محلوں اور بازاروں میں مرد و خواتین کی جن روزمرہ سرگرمیوں کو ہر لحظہ ریکارڈ کیا جارہا ہے تو کیا یہ سب آئین وقانون کے مطابق ہے، یا اس کو ان سب کی نجی زندگی میں مداخلت قرار دیا جائے؟ گویا پھر تو عدالتوں میں ملزموں کو سزا دلوانے کے لیے فوٹیجز فراہم کرنے کے عمل کو بھی معطل و منسوخ کردیا جائے کہ یہ فوٹیجز اور آڈیوز بنانے کا عمل ہی غیرقانونی ہے۔ اگر پرائیویسی کے نام پر ان کو عوامی مقامات پر

ممنوع قرار دے دیا جائے تو پھر مجرموں کے خلاف شہادتیں پیش کرنے کا عمل کتنا کمزور، ناقص اور دشوار ہوجائے گا؟ کیا ہم جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف سرگرم اپنے جیوفینسنگ کے اداروں کو مفلوج و اپاہج بنادیں؟

کیا کبھی ایسا ہوا کہ کوئی ملزم اپنے خلاف پیش کی جانے والی آڈیو، ویڈیو فوٹیجز کے شواہد کو یہ کہہ کر متنازع بناکر رد کردے کہ ریکارڈنگز کا یہ عمل غیر قانونی و غیر آئینی ہے اس لیے مجھے سزا دینے سے پہلے ان فوٹیجز بنانے والوں کو سزا دی جائے؟

کیا کبھی دنیا میں ایسا ہوا ہے کہ ملزم اپنے خلاف کسی بھی نوعیت کے شواہد فراہم کرنے کے عمل کو خواہ وہ کوئی بھی نوعیت ہو، غیر آئینی، غیر قانونی، غیر شرعی اور غیبت و جاسوسی قرار دے کر خود کو بے گناہ منوالے، اور الٹا شواہد فراہم کرنے والوں کو احتساب و سزا کا مستحق ثابت کرنے کے لیے وکلا، عدالتوں، صحافیوں، انسانی حقوق کے اداروں اور سوشل میڈیا کو استعمال کرے؟ یہ تو الٹی گنگا بہنے والی بات ہوجائے گی یعنی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔

درحقیقت ایسی ریکارڈنگز خواہ اعلانیہ ہوں یا غیر اعلانیہ، سرعام ہوں یا مخفی… ان کا مقصد محض ملک و قوم اور عوام کے مفادات کے خلاف سرگرمیوں کا سراغ لگانا، تدارک، سدباب اور بیخ کنی کرنا ہے تاکہ ملک و قوم کے دفاعی، آئینی، معاشی اور معاشرتی معاملات کو تحفظ و نشوونما فراہم کی جاسکے۔

جب ہمارے عوامی معاملات و سرگرمیوں کو ادارہ جاتی اور ذاتی و نجی سطح پر بھی دن رات ممکنہ حد تک سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے ریکارڈ کیا جارہا ہے تو پھر ان اعلیٰ ریاستی و سیاسی شخصیات و عہدیداران اور اشرافیہ کو کیسے استثنیٰ دیا جاسکتا ہے! جبکہ ان کے معاملات کا تعلق تو ملک و قوم کے مفاد و سلامتی اور استحکام و بقا سے وابستہ ہے۔ بھلا یہ کیوں کر ممکن ہے کہ ہمارے حساس ادارے ایسے افراد کو کھلی چھوٹ اور استثنیٰ عطا کرکے مزید نڈر اور بے لگام کردیں!