(وفات3فروری 1905ء… وفات 25جون1944ٔ)
موت کی سوچ اکثر آتی ہی رہتی ہے، ابھی کل ہی کی بات ہے کہ سوچتے سوچتے خیال آیا کہ موت اگر آج یا کل میں آگئی تو نماز جنازہ کس سے پڑھوائی جائے؟ کئی ایک نام ذہن میں آئے لیکن سب سے پہلا نام جو ذہن میں آیا وہ مجاہدِ اسلام بہادر خاں حیدرآبادی کا تھا۔ کاش بہادر یار جنگ دورہ کرتے، پھرتے پھراتے عین اس وقت اتفاق سے آموجود ہوتے! ایسا کیوں ہونے لگا! لیکن دل کی کشش سے ایسا ہوجانا کچھ ناممکن بھی نہیں۔ یہ تھی اس نامہ سیاہ کے دل میں اس شیر دل مجاہدِ ملت کی محبت، عظمت اور عقیدت۔
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
آہ کہ جس سے یہ امیدیں قائم کی جارہی تھیں، کسے وہم گزر سکتا تھا کہ وہ یوں دھوکا دے جائے گا، اور جس کی دعائوں کے لیے یہ طلب و تمنا تھی وہ خود آناً فاناً دوسروں کی دعائوں کا مستحق ہوجائے گا!…… آہ مشت خاک انسان اور اس کے تارِعنکوت جیسے بودے، پھسپھسے کمزور ارادے، حوصلے، سہارے!
40 سال کی عمر بھی کوئی عمر تھی! اور پھر کیسے تندرست و توانا، ہنس مکھ اور خوش مزاج، خوش سیرت، خوش صورت، بلا کے ذہین و نکتہ رس… کسی بشر کے دل میں یہ خطرہ بھی گزر سکتا تھا کہ یہ کھلا ہوا پھول، چمن بھر کو مہکاتا ہوا بات کی بات میں نذرِ خزاں ہوجائے گا؟ محفل بھر کو منور رکھنے والی شمع اسی لمحے، اسی آن بجھ جانے کو ہے!! کہتے ہیں کہ موت بالکل اچانک ہوئی۔ نہ سکرات، نہ تکلیفیں، نہ نزع و روح کی سختیاں… اور کیوں ہوتیں؟ جس سپاہی نے خود کو اللہ کی اطاعت کا خوگر بنالیا تھا، اس کی روح پکارنے پر معاً لبیک آخر کیوں نہ کہتی؟ تاخیر و تامل کی وجہ ایک منٹ کے لیے بھی آخر اسے کیا ہوسکتی تھی؟… ’’رہبرِ دکن‘‘ والے رہبر ملت (مولوی احمد محی الدین مرحوم ایڈیٹر رہبر دکن… حیدرآباد) کی دو سال قبل کی فوری موت کا راز بھی اب کچھ کچھ سمجھ میں آیا، جو دنیا میں نقیب تھا اس سے آخرت میں بھی نقیب ہی کا کام لیا گیا، اور عجب کیا جو دنیا میں خدمتِ ملت کے دیوانے اور فلاحِ امت کی خاطر ایک دوسرے کے دست و بازو، رفیق، ہمراز و دم ساز تھے، انہیں جنت میں بھی ان کی خواہش پر یہی مشغلۂ تفریح دے دیا گیا ہو۔ جو یہاں محمدؐ کے دین کا سودائی تھا عجب تھا کہ جنت کی ہوائوں نے اس کو تیز سے تیز تر کیا ہو!
حیدرآباد کے مسلمانوں کی حالت کا مشاہدہ جس نے آج سے 20، 22 سال پہلے کیا ہے، وہ آج ان حیدرآبادیوں کو پہچان بھی نہیں سکتا۔ اتنے دنوں میں اس کی کایا پلٹ کس نے کردی؟ جو قوم سر تا سر بے عمل، مجہول، افسردہ، منتشر اور پست مذافی اور بدنظمی کا شکار تھی، اس میں عمل، تنظیم، انضباط کی برقی رو کس نے دوڑائی؟ یہ مُردوں کو زندہ کردینے والی مسیحائی کس نے کردکھائی؟ حیدرآبادی مسلمان شمالی ہند کے مسلمانوں کے سامنے شرم سے نہیں فخر سے پیش ہوسکے، یہ قلبِ ماہیت کس نے کردی؟ اور جو دکن اجتماعی اور ملّی زندگی میں سبق لینے کے قابل بھی مشکل سے تھا اُسے سبق دینے کے قابل کس نے بنادیا! سارا کارنامہ قلم لکھنے چلا تھاکہ اعجازی کارنامہ اسی مرنے والے زندۂ جاوید بہادر خاں اور اسی کے چند مخلص رفیقوں ہی کے اعمال ناموں میں لکھا جائے گا… ’’قائدِ ملت‘‘ جس کسی نے اسے کہا اس نے کوئی شاعری نہیں کی، ادبی صنعت گری، لفظی شعبدہ بازی سے کام نہیں لیا۔ ایک حقیقت بیان کردی… تاریخ کی طرح خشک، سائنس کی طرح بے لوث، ریاضی کے اعداد کی طرح اکل کھری۔ قائدِ ملت (اور آج یہ لفظ پہلی بار صدق استعمال کررہا ہے) کاش بجائے دکن کے انگریزی ہند کو نصیب ہوا ہوتا تو محمد علی کی جانشینی کا سوال لاینحل نہ رہا ہوتا۔ ہندوستان نے دوسرا محمد علی اگر کوئی پیدا کیا ہوتا تو وہ یہی تھا۔ وہی اخلاص، وہی دینی جوش، وہی تڑپ، وہی سوجھ بوجھ، وہی نبض شاسی، وہی ہمت و عزم، بجز محمد علی کی انگریزی انشا پردازی کے اور سب کچھ وہی…! لیگ کی مذہبی بے راہ روی کی جب کوئی شکایت سننے میں آئی (’’سننا‘‘ اس لیے کہ شرکت کا اتفاق بہ طور ’’تماشائی‘‘ کے بھی ابھی تک نہیں ہوا) دل کو برابر یہی اطمینان رہتا تھا کہ بہادر یار جنگ جیسے مومن صادق کی ذات دیر سویر ان شاء اللہ ہر غلطی کی اصلاح کراکے رہے گی۔
26 اکتوبر 1941ء مقام علی گڑھ یونیورسٹی کی مجلس تاریخ و تمدن اسلامی کی دعوت پر میرا اور نواب صاحب دونوں کا بیان ہونے والا تھا۔ نوابِ سحر بیان کی خطابت بچے بچے سے خراج تحسین حاصل کیے ہوئے، اہلِ جلسہ نے غلطی اور شدید غلطی کرکے مجھ جیسے کج مج زبان کا وقت اس بلبلِ ہزار داستان کے ساتھ ہی رکھ دیا۔ وسیع اور لق و دق اسٹریچی ہال اوپر سے نیچے تک کھچا کھچ بھرا ہوا۔ سامنے جو لائوڈ اسپکر لگا ہوا تھا اس نے جواب دے دیا۔ اب بھلا میری آواز کیا پہنچتی! ایک صاحب نے کھڑے ہوکر کہہ دیا کہ ہمارا وقت خوامخواہ ضائع ہورہا ہے کچھ سنائی نہیں دیتا اور ہم تو نواب صاحب کے مشتاق ہوکر آئے ہیں۔ میں تو پہلے ہی ہٹنے پر آمادہ تھا، فوراً صدر صاحب سے معذرت کرکے ڈائس سے اترنے لگا۔ معاً نواب صاحب کھڑے ہوگئے اور گرج کر بولے ’’کوئی سنے یا نہ سنے، کوئی بیٹھے یا چلا جائے میں خود مولانا کے لیکچر کو اول سے آخر تک سنوں گا، میں تو انہی کا لیکچر سننے آیا ہوں اور جب تک وہ اپنا لیکچر ختم نہ کرلیں گے میں ہرگز ایک لفظ بولنا نہ شروع کروں گا۔‘‘
مجمع میں سناٹا چھا گیا تھا!…… ہے کہیں اس دور میں اس شرافت کی مثال؟
6 اپریل 1942ء لکھنؤ میں نواب صاحب یوم اقبال کی صدارت کرکے ندوہ میں ڈالی باغ میں، گنگا پرشاد میموریل ہال میں متعدد جلسوں میں معرکے کی تقریریں کرکے صبح کی گاڑی سے براہ دہلی حیدرآباد واپس جارہے ہیں۔ میں صبح 8 بجے ان کی قیام گاہ پر پہنچا ہوں، خیال یہ ہے کہ یہاں سے اسٹیشن تک مفصل بات چیت رہے گی۔ موٹر اسٹارٹ ہوتی ہے، ادھر نواب صاحب کی زبان دعائوں پر کھلتی ہے، سواری پر سوار ہونے کی دعا ہوگی۔ ابھی ختم ہوئی جاتی ہے لیکن یہ کیا؟ کہاں ابھی ختم ہوئی! دو سیکنڈ، چار سیکنڈ، ایک دو دعائیں… یہ سلسلہ ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتا اور دعائں زیادہ تر حدیث کی۔ یا الٰہی یہ آل انڈیا لیڈر ہیں یا حصن حصین کی قسم کی کوئی کتاب! شرم سے کٹا جارہا ہوں کہ لوگ مجھے عالم اور مفسر اور خدا معلوم کیا کیا سمجھ رہے ہیں، یہاں تو ان کی آدھی دعائیں بھی یاد نہیں۔ ان کا ورد سفر تک میں رکھنا تو خیر الگ رہا، یہاں تو یاد بھی نہیں! اب انتظار کہ نواب صاحب کا خشوع وخضوع کچھ کم ہولے تو ادھر اہلِ دنیا کی زبان کھلے۔ مگر توبہ، اس کا موقع ہی کیوں آنے لگا! دعائوں کا سلسلہ نہ ختم ہونا تھا، نہ ہوا، یہاں تک کہ اسٹیشن آگیا۔ ایک مولانا عبدالباری فرنگی محلی کو مستثنیٰ کرکے اور کسی لیڈر کو چاہے وہ آل انڈیا ہوں یا صوبہ دار، مذہبی اعمال میں مصروفیت کی ایسی مثال تو نہ اس سے قبل اپنی آنکھوں نے دیکھی تھی نہ اس کے بعد۔
کس کو لاتے ہیں بہر دفن کہ قبر
ہمہ تن چشمِ انتظار ہے آج
خوش نصیب قبر، خوش ہوکہ تجھ میں آرام پانے کے لیے اللہ کے دین کا دلبر و باہمت سپاہی آرہا ہے۔ وہ غریبوں کا سہارا تھا، بے کسوں کا والی تھا، ملت کا پشت پناہ۔ وہ ایک
امیر گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔ اور مجھ سے ان کی پہلی ملاقات جب حیدرآباد میں غالباً 1929ء میں میرے عزیز ترین دوست اور میزبان مولوی سید امین الحسن بسمل موہانی مرحوم کے مکان پر مولانا عبدالرحیم صاحب (سابق انجمن اسلامیہ والے اور حال تفسیر القرآن والے) کی وساطت سے ہوئی تھی تو میں بس اس قدر سمجھا تھا کہ ایک خوش مذاق و علم دوست نوجوان ہیں! (ان کی نفیس موٹر کی چمک دمک آج تک یاد ہے) دل و دماغ، روح و ضمیر کے یہ حیرت انگیز اور قابل صد رشک جوہر تو رفتہ رفتہ کھلے۔
حکیمِ مطلق اور احکم الحاکمین بے نیاز کی مشیت میں دم مارنے کی مجال کس کو؟ کیسے کیسے باغی وطاعی، غدار و سرکش، 80، 85 کی عمروں کے پورے عیش و عشرت کے ساتھ زندگی کے دن پورے کررہے ہیں اور یہ مطیع و فرمانبردار بندہ، دین کا سپاہی اور امت کا علَم بردار 40 سال کی عمر میں ہی واپس بلالیا جاتا ہے۔ سچ کہا اس عارف نے جس نے یہ کہا ؎
ما پر دریم دشمن و ما می کشیم دوست
کس را رسد نہ چوں و چراں درقضائے ما
روایتوں میں آیا ہے کہ خلیفۂ برحق عمر فاروقؓ نے جب عین میدانِ قتال میں خالدؓ سیف اللہ کو معزول کردیا تو ایک وجہ یہ بھی بیان فرمائی کہ لوگوں کا تکیہ حق تعالیٰ سے زیادہ خالد پر ہوچلا تھا اور یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ فتوحات جو حاصل ہورہی ہیں یہ خالدؓ کی شجاعت و تدبیر کا نتیجہ ہیں، میں اس خیال کو مٹا دینا چاہتا ہوں۔ عجب کیا جو ایک مصلحت کچھ اس طرح کی اِس جواں مرگ قائدِ ملت کی موت میں بھی ہو۔ ملت بہت زیادہ تکیہ اس بندۂ حق پر کر چلی تھی اور مشیت تکوینی کو سبق یہ دینا منظور ہوکہ جو خدائے قادر و توانا ایک بندے کے توسط سے نصرت و کامرانی پر قادر ہے، وہی اسی واسطے کے بغیر بھی اسی طرح قادر و متصرف ہے۔