مقبوضہ کشمیر میں قیدیوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کے حوالے سے ایک اہم رپورٹ منظرعام آئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی جیلوں میں محبوس سیاسی قیدیوں کے حالات قابلِ رحم ہیں، ان میں اکثر لوگ صحت کے مسائل کا سامنا کررہے ہیں اور اس کی وجہ ناقص غذائیں، علاج کی ناکافی سہولیات، ذہنی تعذیب اور نفسیاتی ٹارچر کے مختلف طریقے ہیں۔ اس وقت جیلوں میں سڑنے والے سیاسی اسیروں میں 1990ء کی دہائی کے مقبول کشمیری راہنما جنہیں ایمنسٹی انٹرنیشنل ضمیر کا قیدی قرار دے چکی ہے، شامل ہیں۔ محمد یاسین ملک، نعیم خان، آسیہ اندرابی، قاسم فکتو، مسرت عالم بٹ، انسانی حقوق کے علَم بردار خرم پرویز سمیت درجنوں معروف ناموں کے علاوہ ہزاروں افراد جیلوں میں محبوس ہیں۔ محمد اشرف صحرائی اور الطاف احمد شاہ جیسے قدآور راہنما جیلوں میں ہی انتقال کرگئے ہیں اور انہیں علاج کی سہولیات فراہم کرنے سے صاف انکار کیا جاتا رہا۔ محمد یاسین ملک ایسے قیدی ہیں جن کی قید سے بھارتی حکام کی تشفی نہیں ہورہی اور وہ انہیں سزائے موت دلوانے پر بضد ہیں۔ سید صلاح الدین کے بیٹے بھی اب قیدیوں میں شامل ہوچکے ہیں۔ اہلِ خانہ کو قیدیوں سے ملاقات کے لیے سو جتن کرنا پڑتے ہیں۔ عام شکایات ہیں کہ جیل حکام رشوت لے کر قیدیوں سے ملاقات کراتے ہیں۔ اب ہر کشمیری پر یو اے پی اے کا قانون لاگو کرنا معمول بن گیا ہے۔ یہ سیدھا سادہ غداری اور بغاوت کا قانون ہے جس کے تحت جرم ثابت ہونے کی سزا موت اور عمر قید ہوسکتی ہے۔
کشمیری عوام اور قید و بند کا جنم جنم کا ساتھ ہے۔ 1947ء کے بعد ہی جن کشمیریوں نے بھارت کے قبضے کو قبول کرنے سے انکار کیا بھارت نے انہیں عتاب کے طور پر جیلوں میں ڈال دیا۔ یہ جیلیں صرف قید رکھنے کے لیے قائم نہیں تھیں بلکہ ان سے عقوبت خانوں کا کام بھی لیا جاتا تھا۔ کشمیریوں کے اعصاب توڑنے کے لیے جیلوں کو نازی جرمنی کے انداز میں استعمال کرنا بھارت کی حکمت عملی رہی ہے۔ 1970ء کی دہائی میں ایک معروف سیاسی کارکن غلام محمد بُلہ کو جیل میں اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا کہ وہ اپنے حواس ہی کھو بیٹھا اور بعد میں بارہ مولہ کی گلیوں میں عالمِ دیوانگی میں پاکستان پاکستان پکارتا ہوا نظر آتا تھا۔
1990ء کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں تو ہزاروں افراد کو جیلوں میں ڈال دیا گیا اور ان قیدیوں کو آزادی کے راستے سے ہٹانے اور ان کے اعصاب توڑنے کے لیے ہر قسم کے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے رہے۔ ان میں بہت سے قیدیوں کو اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ عملی زندگی میں دوبارہ کچھ کرنے کے قابل نہ رہے۔ ان میں سے سیکڑوں قیدیوں کو جسمانی تشدد اور سیکڑوں کو ذہنی تشدد کا نشانہ بنا کر جرمِ آزادی کی سزا دی جاتی رہی۔ ان میں بڑے اور قدآور سیاسی راہنما بھی شامل تھے اور عام سیاسی کارکن بھی، نوجوان لڑکے بھی اور اسّی سالہ بزرگ اور خواتین بھی۔ ان میں سے کئی قیدیوں نے اپنے حالات مضامین اور کتابی شکل میں بیان بھی کیے۔ تحریکِ آزادی کے سربرآوردہ راہنما سید علی گیلانی کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب ’’رودادِقفس‘‘ اس حوالے سے بہت سے روح فرسا واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ قیدیوں کے ساتھ نوّے کی دہائی میں ہونے والے سلوک کی ایک کہانی کے ساتھ ساتھ ادبی شاہکار ہے۔ انجم زمرودہ حبیب کی کتاب ’’قیدی نمبر ایک سو‘‘بھی تہاڑ جیل میں بیتنے والے ان کے تاریک دنوں کی کہانی ہے کہ کس طرح سیاسی قیدیوں کو عادی مجرموں کے ساتھ رکھ کر ذہنی اذیتیں دی جاتی تھیں، ان میں قتل کے مجرم اور منشیات کے عادی قیدی بھی شامل تھے۔کشمیر کےمعروف صحافی افتخار گیلانی کے تہاڑ جیل میں بیتے شب و روز کی کہانی ’’مائی ڈیز اِن پرزن‘‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ اس میں بھی کشمیری قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کی داستان بیان کی گئی ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ بعد میں ”تہاڑ جیل میں میرے شب و روز“ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔
سیاسی قیدیوں نے کوئی جرم نہیں کیا ہوتا، وہ مجرموں اور عام قیدیوں سے الگ سلوک کے حق دار ہوتے ہیں، مگر بھارت نے کشمیری قیدیوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ کشمیری قیدیوں کے جنازے بھی جیلوں میں اُٹھتے رہے۔ محمد اشرف صحرائی اس کی زندہ مثال ہیں۔ 74 سالہ محمد اشرف صحرائی جو کئی عارضوں میں مبتلا تھے، آخر میں کورونا کا شکار ہوئے، مگر بھارتی حکام اُن کی موت کا نظارہ کرتے رہے اور انہیں عارضی طور پر بھی رہائی نہیں دی گئی اور نہ ہی ان کے اہلِ خانہ کو تیمارداری کی اجازت ملی۔ یوں قید کی حالت میں ان کا انتقال ہوا۔ محمد مقبول بٹ اور افضل گورو کو جیلوں میں پھانسی دی گئی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان کے جنازے بھی ورثا کے حوالے نہیں کیے گئے۔ کشمیری قیدیوں کو پیرول پر رہائی کا حق بھی نہیں دیا گیا۔ حریت راہنما ایاز اکبر تہاڑ جیل میں عرصہ دراز سے بند ہیں، ان کی شریکِ حیات کینسر جیسے موذی مرض سے انتقال کرگئیں، ان کے والد کورونا کے باعث انتقال کرگئے مگر بھارتی حکام نے انہیں ان جنازوں میں شرکت کے لیے پیرول پر رہائی نہیں دی۔ ایسے بہت سے واقعات ہیں جب بھارت نے انسانی اور عالمی اصولوں اور اقدار کو پیروں تلے روند دیا۔ آج بھی کشمیر کی جیلوں میں سیکڑوں قیدی سڑ رہے ہیں، ان کے انسانی حقوق کا احترام کیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں قیدیوں کے حقوق دیے جارہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے قیدی جو ظالمانہ قوانین کے تحت بند ہیں یہ جان چکے ہیں کہ ان کا مقدر پھانسی کا پھندا ہے یا تمام عمر جیل میں سڑنا، کیونکہ بھارت میں کشمیر کی حد تک کوئی قانون اور آئین نہیں رہا۔ یہاں انسانی حقوق کی بات کرنے والے خرم پرویز خود ایک ایسی قید بھگت رہے ہیں جس میں وہ یا تو تمام عمر جیل میں گزاریں گے یا پھر کسی روز خاموشی سے پھانسی گھاٹ کی نذر ہوجائیں گے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارت کے ان رویوں پر خاموش ہیں۔ دنیا بھر میں قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اور این جی اوز موجود ہیں مگر بھارت کے خوف یا کسی مصلحت کے تحت یہ تنظیمیں کشمیر کی طرف سے آنکھیں بند کیے بیٹھی ہیں۔