وزیراعظم نریندرامودی کا دورئہ امریکہ

امریکہ اور ہندوستان مربوط علاقائی اتحاد کا مقصدچین کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور عسکری پیش بندی کے ساتھ اقتصادی پیش قدمی کا مقابلہ کرنا ہے

ہندوستانی وزیراعظم نریندرا مودی دو روزہ دورہ امریکہ مکمل کرکے مصر چلے گئے۔ 2014ء میں پردھان منتری (وزارتِ عظمیٰ) کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد سے یہ مودی جی کا پانچواں دورہ امریکہ تھا۔ وہ بارک حسین اوباما کے عہدِ صدارت میں دوبار امریکہ آئے، 2017ء اور 2019ء میں سابق صدر ٹرمپ نے اُن کی میزبانی فرمائی۔ اس کے علاوہ 2018ء میں ہند امریکہ سربراہ اجلاس سمعی و بصری رابطے پر یا Virtual ہوا۔

ہندوستان امریکہ دوستی کا نیا دور 2015ء میں سابق صدر اوباما کی ہند یاترا سے شروع ہوا جب وزیراعظم مودی نے امریکی صدر کو یوم جمہوریہ کی تقریب کے لیے خصوصی دعوت دی۔ یہ ایک بھرپور دورہ تھا جس میں ہندوستانی ثقافت کو بہت موثر طریقے سے اجاگر کیا گیا۔ بھارت میں قیام کے دوران خاتونِ اول مشل اوباما مندروں میں گئیں اور کئی جگہ انھوں نے مقامی خواتین کے ساتھ دلفریب رقص کیے۔ دورے کے اختتام پر ہندی سرنامے ”چلیں ساتھ ساتھ“ کے عنوان سے مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا۔ 2015ء کا اعلانِ دہلی محض دو ممالک کے درمیان دوستی کا عہدو پیمان نہ تھا بلکہ اسے ایشیا، بحرالکاہل اور بحرہند کے لیے امریکہ اور بھارت کا تزویراتی (اسٹرے ٹیجک) لائحہِ عمل قرار دیا گیا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ امریکہ اور ہندوستان اب ایک مربوط علاقائی اتحاد کی بنیاد ڈال چکے ہیں جس کا مقصد چین کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور عسکری پیش بندی کے ساتھ بیجنگ کی اقتصادی پیش قدمی کا مقابلہ کرنا ہے۔ افغان جنگ کے نتیجے میں سوویت یونین کی تحلیل کے بعد چین ہی امریکہ کا اصل حریف رہ گیا ہے۔ تاہم سرکاری طور پر امریکہ چین کے علاوہ ایران، کیوبا اور شمالی کوریا کو بھی اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔

صدر ٹرمپ کے دور میں مودی جی دوبار امریکہ آئے، 2019ء میں ہندوستانی وزیراعظم اور عمران خان تقریباً ایک ہی وقت امریکہ میں تھے۔ صدر ٹرمپ نے بھی ان دوروں میں مودی جی کو بے حد اہمیت دی اور 2019ء میں جناب ٹرمپ نے ہیوسٹن کے عوامی استقبالیہ میں اپنی کابینہ کے ارکان کے ساتھ شرکت کی۔

صدر بائیڈن، اوباما انتظامیہ کے نائب صدر تھے جن پر صدر اوباما کو بے حد اعتماد تھا، اور ان دونوں کے مابین اعتماد کی فضا آج بھی قائم ہے۔ صدارت سنبھالنے کے بعد صدر بائیڈن نے اوباما ٹیم کے انتھونی بلنکن، جیک سولیون اور ولیم برنس کو بالترتیب وزیرخارجہ، مشیر قومی سلامتی اور سی آئی اے کا سربراہ نامزد کردیا۔ یہ تنیوں حضرات ایشیا، بحرالکاہل اور بحرہند کے لیے بھارت امریکہ تزویراتی شراکت داری معاہدے کے مولفین و مصنفین شمار ہوتے ہیں، چنانچہ صدر بائیٖڈن کے دور میں ہند امریکہ تعلقات مزید مضبوط ہوگئے۔

اسی دوران امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور ہندوستان کے درمیان باہمی ملاقات کے فورم QUADیا معاہدہ اربع کو مزید مؤثر بنایا گیا اور مالابار مشقوں کے نام سے چاروں ملکوں کی بحریہ نے بحر انڈمان کے قریب اپنی مشترکہ طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ اب ان مشقوں میں طیارہ بردار جہاز، جوہری آبدوزیں اور دوسرے مہلک اثاثوں کی کارکردگی جانچی جاتی ہے۔

چین عسکری لحاظ سے شاید امریکہ کا ہم پلہ نہ ہو لیکن امریکہ کی منڈیوں پر اس کا قبضہ بہت واضح ہے۔ تعمیراتی سامان ہو یا الیکٹرانکس… بڑی بڑی مشینوں سے لے کر ناخن تراش تک امریکی دکانوں میں ہر چیز میڈ اِن چائنا ہے۔امریکی رہنمائوں کا خیال ہے کہ چینی صنعت کی غیر معمولی کم لاگت اور پیداواری صلاحیت چین ترقی کا راز ہے اور یہ استعداد پیدا کیے بغیر میدانِ صنعت میں بیجنگ کا مقابلہ ممکن نہیں۔

چین کی مثالی صنعتی ترقی نے قوموں کی برادری میں اسے ایک منفرد مقام عطا کردیا ہے۔ فنی مہارت اور تجربے کی پیشکش سے چین کے دوستوں میں اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے سفارتی میدان میں بیجنگ کی کامیاب پیش قدمی بہت نمایاں ہے۔ سعودی عرب ایران مفاہمت اسی اقتصادی سفارت کاری کا نتیجہ ہے۔ تہران ریاض تعلقات سے عرب و عجم دوستی کا ایک نیا باب کھلتا دکھائی دے رہا ہے۔

اس تناظر میں نریندرا مودی امریکہ سے شراکت داری کو اپنے ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہندوستان کی تعلیم یافتہ و ہنرمند افرادی قوت کے استعمال سے پیداواری لاگت چین سے کم نہیں تو کم ازکم اس کے برابر آجائے گی جس کے بعد چینی مصنوعات اور صنعتی پیداوار کا مقابلہ کچھ مشکل نہ ہوگا۔ مودی جی امریکہ کے بڑے بڑے صنعتی اداروں خاص طور سے جدید ٹیکنالوجی فراہم کرنے والی کمپنیوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنے کارخانے ہندوستان میں لگائیں۔

یہی ہدف لے کر نریندرا مودی 21 جون کو امریکہ پہنچے۔ اپنے ڈھائی روزہ قیام کے دوران انھوں نے امریکی صدر اور خاتونِ اوّل ڈاکٹر جل بائیڈن سے انفرادی گفتگو کی۔ امریکی و ہندوستانی وفود کے درمیان ملاقاتوں کے دور چلے۔ میزبان اور خاتونِ اوّل نے مودی جی کے اعزاز میں پُرتکلف عشائیہ دیا جو سبزی اور مچھلی پر مشتمل تھا۔ ہندوستانی وزیراعظم نے امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر 75 کے قریب ارکانِ کانگریس اور سینیٹرز نے صدر بائیڈن کو ایک خط لکھا جس میں ان سے درخواست کی گئی کہ ملاقات کے دوران وہ ہندوستان میں اقلیتوں سے بدسلوکی اور انسانی حقوق کی سنگین صورتِ حال پر بات کریں۔ خط کا ذکر کیے بغیر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی صدر کے مشیرِ قومی سلامتی جیک سولیون نے کہا کہ صدربائیڈن ”اپنے دوست“ سے تمام امور پر بات تو کریں گے لیکن انھیں انسانی حقوق پر ”لیکچر“ نہیں دیا جائے گا۔ امریکی حکومت کے ترجمان نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صدر بائیڈن نے بھارتی وزیراعظم سے ملاقاتوں میں انہیں ”کسی تلخی کے بغیر“ احترام کے ساتھ آزادیِ صحافت، مذہبی آزادیوں اور دیگر امور پر امریکہ کے تحفظات سے آگاہ کیا۔

دوسری طرف ”انقلابی لڑکیوں“ نے ہندوستانی وزیراعظم کے کانگریس سے خطاب کا بائیکاٹ کیا۔ احتجاج کرنے والے 6 سیاہ فام ارکان میں دونوں مسلم خواتین فلسطینی نژاد رشیدہ طلیب اور صومالی نژاد الحان عمر شامل تھیں۔ واحد مرد رکن جمال بومن کا تعلق نیویارک سے ہے۔ محترمہ کوری بش، رشیدہ طلیب، الحان عمر اور جمال بومن نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ جہاں تک انسانی حقوق کا تعلق ہے تو اس باب میں عمل الفاظ سے زیادہ اہم ہے۔ وزیراعظم مودی کو مشترکہ خطاب کا نادر اعزاز دے کر امریکی کانگریس نے دنیا بھر کی مذہبی اقلیتوں اور صحافیوں کے بااعتماد وکیل بننے کا موقع کھودیا ہے۔

مشترکہ اخباری کانفرنس کے دوران بھی یہ بات چھڑی جب وال اسٹریٹ جرنل کی نمائندہ محترمہ سبرینہ صدیقی نے پوچھا ”آپ اور آپ کی حکومت اپنے ملک میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کو بہتر بنانے اور اظہارِ رائے کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے کیا اقدامات کررہی ہے؟“ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد نریندرا جی بولے ”ہماری حکومت کا بنیادی اصول ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس“ ہے۔ ہم ایک جمہوریت ہیں۔ ہندوستان اور امریکہ دونوں کے ڈی این اے میں جمہوریت ہے۔ جمہوریت ہماری روح میں ہے اور یہ ہمارے آئین میں لکھا گیا ہے۔ لہٰذا ذات پات، مسلک یا مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ ہمارے بنیادی اصول ہیں، جو اس بات کی بنیاد ہیں کہ ہم کس طرح کام کرتے ہیں اور ہم ہندوستان میں اپنی زندگی کیسے گزارتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے فراہم کردہ فوائد اُن تمام لوگوں کے لیے قابلِ رسائی ہیں جو ان فوائد کے مستحق ہیں۔“

اس جواب پر ہر طرف ایک طنز آمیز خاموشی تھی کہ ابھی 4 اپریل ہی کی تو بات ہے کہ ریاست منی پور میں یہودیوں کے قدیم قبیلے بنو مناثہ پر انتہاپسندوں نے حملہ کیا اور مناثیوں کے 210 مکان نذرآتش کردیے گئے۔ بلوائیوں نےدومعبد (Synagogues) جلاڈالے اور ظالموں نے توریت کو بھی نہیں بخشا۔ اس ہنگامے میں ایک یہودی ہلاک ہوگیا جبکہ 10 افراد لاپتا ہیں۔ اس لرزہ خیر واردات پر اسرائیل سے باہر ”دریافت“ ہونے والے گمشدہ اور پسماندہ یہودیوں کے مفادات کی دیکھ بھال اور ان کی اسرائیل واپسی کی حوصلہ افزائی کے لیے کام کرنے والی تنظیم Shavei Israel نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر خارجہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے بھارتی ہم منصب سے بات کرکے منی پور کے مناثیوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔

امریکی کانگریس سے اپنے خطاب میں بھارتی وزیراعظم نے کہا کہ یہ دور جنگ کا نہیں بلکہ ڈائیلاگ اور سفارت کاری کا ہے۔ اب سے کچھ سال قبل جب میں نے امریکی کانگریس سے خطاب کیا تھا تو بھارت دنیا کی دسویں بڑی معیشت تھی، اور آج وہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔ اس صدی کے آغاز پر امریکہ اور بھارت میں اس شعبے میں تعاون بہت ہی کم تھا لیکن آج امریکہ بھارت کا سب سے بڑا دفاعی شراکت دار ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور امریکہ خام مال کی زنجیر فراہمی (سپلائی چین) برقرار رکھنے میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔

وزیراعظم مودی کے دورے کا سب سے اہم مرحلہ ٹیکنالوجی کمپنی کے سربراہان سے ملاقات تھی۔ گفتگو کے دوران صدر بائیٖڈن بھی موجود تھے۔ اس نشست میں ایپل کے ٹِم کوک، مائیکروسافٹ کے ستی تادیلا، اوپن آئی ٹی (Chat GPT) کے سام آلٹمین، گوگل کے سُندر پچائی، مائیکرون کے سنجے مہوترا، اڈوبی کے شنتا نارائن، معروف ہندوستانی صنعت کار مکیش انبانی اور جنرل الیکٹرک (GE)کے سربراہ کے علاوہ کئی اہم کاروباری شخصیات نے شرکت کی۔

جنرل الیکٹرک F414انجن ہندوستان میں بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جی ای کے یہ انجن بوئنگ کے تیار کردہ Fسیرز جنگی طیاروں کے علاوہ جنوبی کوریا کے KF21 اور سوئیڈن کے Saab JAS 39لڑاکا طیاروں میں استعمال ہوتے ہیں۔ مائیکرون کم لاگت ہندوستانی افرادی قوت سے فائدہ اٹھانے کے لیے نیم موصل پتریاں (Semi-Conductor Chips) بھارت میں بنانے کی خواہش مند ہے۔ مودی جی کے گزشتہ دورہ امریکہ میں اسی نوعیت کی بات کوال کام (Qualcom)کے سربراہ کرسٹینو امون (Cristiano Amon)نے کی تھی۔ یہ سب باتیں اب تک صرف مفاہمت کی یادداشت (MOU)تک محدود ہیں، لیکن اگر نیم موصل پتری اور جنرل الیکٹرک کے انجن سازی منصوبے عملی شکل اختیار کرگئے تو ہندوستان میں روزگار کے ایک لاکھ سے زیادہ نئے مواقع پیدا ہونے کا امکان ہے۔

مصر روانگی سے پہلے ہندوستانی وزیراعظم نے جمعہ کو ایمزون کے سربراہ اینڈی جیسی سے ملاقات کی۔ گفتگو کے دوران ایمزون کے سربراہ نے اگلے سات برسوں کے دوران ہندوستان میں 15 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا جس سے 20 لاکھ ہندوستانیوں کو روزگار ملے گا۔

امریکی کارپوریٹ دنیا کی قیادت و سیادت پر ہندوستانی نژاد ماہرین چھائے ہوئے ہیں۔ مائیکروسافٹ، گوگل، مائیکرون، اور اڈوبی کے سربراہ وہ ہندوستانی ہیں جو نوعمری میں امریکہ آئے اور امریکی شہریت اختیار کرلینے کے بعد بھی یہ لوگ ذہنی اعتبار سے بھارت ہی کو مادرِ وطن سمجھتے ہیں۔ امریکہ کی نائب صدر کملا دیوی ہیرس کی والدہ شریمتی شیمالہ کپلان 19 برس کی عمر میں ہندوستان سے آئیں اور بھارت کے بارے میں آنجہانی کپلان صاحبہ کے بیان کردہ قصے کہانی امریکی نائب صدر بہت شوق سے بیان کرتی ہیں۔ ان عوامل کی بنا پر امریکہ کی اشرافیہ اور اعلیٰ کاروباری طبقے میں ہندوستان کے لیے دوستی و خیرسگالی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔

دورے کے اختتام پر جو طویل مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے وہ دراصل امریکہ اور ہندوستان کے درمیان الفت کی آفاقی منزلوں کی جانب نئے سفر کا عزم ہے۔ امریکہ ہند رومانس کے اس نئے موڑ سے بھارت کے دونوں پڑوسی یعنی چین اور پاکستان کی تشویش غیر منطقی نہیں۔ پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف نے نیوزویک سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی جانب سے بھارت کے ساتھ شراکت داری کو فروغ دینے سے اسلام آباد کو کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن ملاقاتوں کے دوران صدر بائیڈن کی بدن بولی (Body language) سے اندازہ ہوتا ہے کہ مثالی دوستی، عسکری ہم آہنگی اور معاشی تعاون کی حد سے آگے بڑھ کر امریکہ بہادر ہندوستان کو علاقے کی ایک فیصلہ کن طاقت بنانے کا تہیہ کرچکے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ زمین اور گہرے سمندروں سے لے کر فضا اور خلا ہر جگہ دلی و واشنگٹن اب ایک جان دو قالب ہوں گے۔

مشترکہ اعلامیے میں علاقائی دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کو جو ”انتباہی نصیحت“ کی گئی ہے اس پر اسلام آباد کا اشتعال بجا تو ہے لیکن ہمارے خیال میں یہ نکتہ اب بہت زیادہ اہم نہیں رہا۔ تجدیدِ عشق اور وارفتگیِ عہد و پیمان سے زمینی حقائق کا جو نیا نقشہ ابھر رہا ہے اس کے مطابق معاملہ صرف برصغیر یا بحرِ جنوبی چین، بحر ہند اور جزیرہ انڈمان و مالابار کے ساحلوں تک محدود نہیں، بلکہ اب وسط و جنوبی ایشیا سے لے کر شمالی افریقہ، خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ تک بھارت اور امریکہ کی تزویراتی شراکت داری ہوگی اور دہشت گردی کی امریکی تعریف سابق صدر بش بہت دوٹوک و غیر مبہم انداز میں 22 سال پہلے کرچکے ہیں کہ ”جو ہمارے ساتھ نہیں وہ دہشت گردوں کا ساتھی و اتحادی ہے“۔