اصلاح معاشرہ کی بنیاد

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
”انسان اپنے ساتھی کے طور طریقے پر ہوتا ہے پس تم میں سے
ہر ایک کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کررہا ہے“۔
(سنن ابی داوُد، جلد سوئم کتاب الادب :4833)

انسان کی اخلاقی و تمدنی زندگی میں جتنی خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں ان سب کی بنیادی علّت انسان کا اپنے آپ کو خودمختار (independent) اور غیرذمّہ دار (irresponsible) سمجھنا، بالفاظِ دیگر آپ اپنا الٰہ بننا ہے، یا پھر یہ ہے کہ وہ الٰہ العالمین کے سوا کسی دوسرے کو صاحب ِ امر تسلیم کرے، خواہ وہ دوسرا کوئی انسان ہو یا غیر انسان۔ یہ چیز جب تک جڑ میں موجود ہے اسلامی نظریے کی رُو سے کوئی اُوپری اصلاح، انفرادی بگاڑ یا اجتماعی خرابیوں کو دُور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ایک طرف سے خرابی کو دُور کیا جائے گا اور کسی دوسری طرف سے وہ سر نکال لے گی۔ لہٰذا، اصلاح کا آغاز اگر ہوسکتا ہے تو صرف اِسی چیز سے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو انسان کے دماغ سے خودمختاری کی ہوا کو نکالا جائے اور اسے بتایا جائے کہ ُ تو جس دنیا میں رہتا ہے، وہ درحقیقت بے بادشاہ کی سلطنت نہیں ہے، بلکہ فی الواقع اس کا ایک بادشاہ موجود ہے، اور اس کی بادشاہی نہ تیرے تسلیم کرنے کی محتاج ہے، نہ تیرے مٹائے سے مٹ سکتی ہے ، نہ تو اُس کے حدودِ سلطنت سے نکل کر کہیں جاسکتا ہے۔ اِس اَمٹ اور اَٹل واقعے کی موجودگی میں تیرا خودمختاری کا زَعم ایک احمقانہ غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے جس کا نقصان لامحالہ تیرے ہی اُوپر عائد ہوگا۔ عقل اور حقیقت پسندی (realism) کا تقاضا یہ ہے کہ سیدھی طرح اُس کے حکم کے آگے سر جھکا دے اور مطیع بندہ بن کر رہ۔

دوسری طرف اُس کو واقعے کا یہ پہلو بھی دکھا دیا جائے کہ اِس پوری کائنات میں صرف ایک ہی بادشاہ، ایک ہی مالک اور ایک ہی مختارِکار ہے۔ کسی دوسرے کو نہ یہاں حکم چلانے کا حق ہے اور نہ واقع میں کسی کا حکم چلتا ہے۔ اس لیے ُتو اس کے سوا کسی کا بندہ نہ بن، کسی کا حکم نہ مان، کسی کے آگے سر نہ جھکا۔ یہاں کوئی ’ہزہائینس‘ نہیں ہے، ’ہائینس‘ صرف ایک ہی کو زیبا ہے۔ یہاں کوئی ’ہزہولی نس‘ نہیں ہے، ’ہولی نس‘ ساری کی ساری اُسی ایک کے لیے خاص ہے۔ یہاں کوئی ’ہزلارڈشپ‘ نہیں ہے، ’لارڈشپ‘ بالکلیہ اسی ایک کا حصہ ہے۔ یہاں کوئی قانون ساز (Law Giver) نہیں ہے، قانون اُسی کا ہے اور وہی قانون بنانے کا حق دار و سزاوار ہے۔ یہاں کوئی سرکار، کوئی اَن داتا، کوئی ولی و کارساز، کوئی دعائیں سننے والا اور فریاد رس نہیں ہے۔ کسی کے پاس اقتدار کی کنجیاں نہیں ہیں۔ کسی کو برتری و فوقیت حاصل نہیں ہے۔ زمین سے آسمان تک سب بند ے ہی بندے ہیں۔ رب اور مولیٰ صرف ایک ہے۔ لہٰذا، ُتو ہر غلامی، ہر اطاعت، ہر پابندی سے انکار کر دے اور اُسی ایک کا غلام، مطیع اور پابند ِ حکم بن جا۔

یہ تمام اصلاحات کی جڑ اور بنیاد ہے۔ اسی بنیاد پر انفرادی سیرت اور اجتماعی نظام کی پوری عمارت اُدھڑ کر ازسرِنو ایک نئے نقشے پر بنتی ہے اور سارے مسائل جو انسانی زندگی میں آدم ؑ سے لے کر اب تک پیدا ہوئے اور اب سے قیامت تک پیدا ہوں گے، اِسی بنیاد پر ایک نئے طریقے سے حل ہوتے ہیں۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس بنیادی اصلاح کی دعوت کو بغیر کسی سابق تیاری اور بغیر کسی تمہیدی کارروائی کے براہِ راست پیش کر دیا۔ انھوں نے اس دعوت کی منزل تک پہنچنے کے لیے کوئی [ایسا] راستہ اختیار نہ کیا کہ پہلے کچھ سیاسی یا سوشل طرز کا کام کر کے لوگوں میں اثر پیدا کیا جائے، پھر اس اثر سے کام لے کر کچھ حاکمانہ اختیارات حاصل کیے جائیں، پھر ان اختیارات سے کام لے کر رفتہ رفتہ لوگوں کو چلاتے ہوئے اِس مقام تک لے آئیں۔ یہ سب کچھ، کچھ نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک شخص اُٹھا، اور اُس نے لا الٰہ الا اللہ کا اعلان کر دیا۔ اِس سے کم کسی چیز پر ایک لمحے کے لیے بھی اس کی نظر نہ ٹھیری۔ دراصل اسلامی تحریک کا طریق کار ہی یہی ہے۔ وہ اثر یا وہ نفوذ و اقتدار جو دوسرے ذرائع سے پیدا کیا جائے، اِس اصلاح کے کام میں کچھ بھی مددگار نہیں۔ جو لوگ لا الٰہ الا اللہ کے سوا کسی اور بنیاد پر آپ کا ساتھ دیتے رہے ہوں وہ اِس بنیاد پر تعمیرجدید کرنے میں آپ کے کسی کام نہیں آسکتے۔ اِس کام میں تو وہی لوگ مفید ہوسکتے ہیں جو آپ کی طرف لا الٰہ الا اللہ کی آواز سن کر ہی آئیں۔ اِسی چیز میں ان کے لیے کشش ہو، اِسی حقیقت کو وہ زندگی کی بنیاد بنائیں اور اِسی اساس پر وہ کام کرنے کے لیے اُٹھیں۔ لہٰذا ،اسلامی تحریک کو چلانے کے لیے جس خاص قسم کے تدبر اور حکمت عملی کی ضرورت ہے، اس کا تقاضا ہی یہی ہے کہ کسی تمہید کے بغیر کام کا آغاز اِسی دعوتِ توحید سے کیا جائے۔

توحید کا یہ تصور محض ایک مذہبی عقیدہ نہیں ہے، جیساکہ میں ابھی عرض کرچکا ہوں۔ اِس سے اجتماعی زندگی کا وہ پورا نظام جو انسان کی خودمختاری، یا غیراللہ کی حاکمیت و اُلوہیت کی بنیاد پر بناہو، جڑ بنیاد سے اُکھڑ جاتا ہے اور ایک دوسری اساس پر نئی عمارت تیار ہوتی ہے۔ آج دنیا آپ کے مؤذن کو اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ کی صدا بلند کرتے ہوئے اِس لیے ٹھنڈے پیٹوں سن لیتی ہے کہ نہ پکارنے والا جانتا ہے کہ کیا پکا ررہا ہوں، نہ سننے والوں کو اس میں کوئی معنی اور کوئی مقصد نظر آتا ہے، لیکن اگر یہ معلوم ہوجائے کہ اِس اعلان کا مقصد یہ ہے، اور اعلان کرنے والا جان بوجھ کر اِس بات کا اعلان کر رہا ہے کہ میرا کوئی بادشاہ یا فرماں روا نہیں ہے، کوئی حکومت میں تسلیم نہیں کرتا، کسی قانون کو مَیں نہیں مانتا، کسی عدالت کے حدودو اختیارات (jurisdiction) مجھ تک نہیں پہنچتے، کسی کا حکم میرے لیے حکم نہیں ہے، کوئی رواج اور کوئی رسم مجھے تسلیم نہیں، کسی کے امتیازی حقوق، کسی کی ریاست، کسی کا تقدس، کسی کے اختیارات مَیں نہیں مانتا، ایک اللہ کے سوا میں سب کا باغی اور سب سے منحرف ہوں، تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس صدا کو کہیں بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ آپ خواہ کسی سے لڑنے جائیں یا نہ جائیں، دنیا خود آپ سے لڑنے آجائے گی۔ یہ آواز بلند کرتے ہی آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ یکایک زمین و آسمان آپ کے دشمن ہوگئے ہیں اور ہر طرف آپ کے لیے سانپ، بچھو اور درند ے ہی درندے ہیں۔

یہی صورت اُس وقت پیش آئی جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آواز بلند کی۔ پکارنے والے نے جان کر پکارا تھا اور سننے والے سمجھتے تھے کہ کیا پکار رہا ہے، اس لیے جس جس پر جس پہلو سے بھی اِس پکار کی ضرب پڑتی تھی وہ اِس کو دبانے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔ پجاریوں کو اپنی برہمنیت و پاپائیت کا خطرہ اس میں نظر آیا۔ رئیسوں کو اپنی ریاست کا ، ساہوکاروں کو اپنی ساہوکاری کا، نسل پرستوں کو اپنے نسلی تفوق (racial superiority) کا، قوم پرستوں کو اپنی قومیت کا، اجداد پرستوں کو اپنے باپ دادا کے مورثی طریقے کا، غرض ہر بت کے پرستار کو اپنے بت کے ٹوٹنے کا خطرہ اسی ایک آواز میں محسوس ہوا۔ اس لیے اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃٌ، وہ سب جو آپس میں لڑا کرتے تھے، اس نئی تحریک سے لڑنے کے لیے ایک ہوگئے۔( تحریکِ آزادیِ ہند اور مسلمان، دوم، ص ۱۷۹-۱۸۲)