عابد حسین قریشی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدے سے ریٹائر ہوئے، وہ پاکستان کی عدلیہ میں ایک قابلِ عزت اور عظیم شخصیت ہیں۔ انہوں نے تقریباً چالیس سال سروس کے دوران کیے گئے فیصلوں اور اپنے حالاتِ زندگی کے بارے میں ایک زبردست کتاب تحریر کی ہے جو عدل کے ایوانوں میں اصلاحات کے لیے اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ عابد حسین قریشی اپنی کتاب ’’عدل بیتی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ذرا چشم تصور سے دیکھتا ہوں تو اپنی قسمت پر نازاں ہوتا ہوں کہ کیسے کیسے عظیم لوگوں سے اکتسابِ فیض کیا۔ پرنسپل شیخ امتیاز علی قانونِ شہادت پڑھا رہے ہیں تو معروف فوجداری وکیل اعجاز بٹالوی ضابطۂ فوج داری، اور اعلیٰ روایات کے امین عابد حسن منٹو لا آف ٹارٹس (ٹارٹ کا مطلب ہر وہ چیز ہے، جو قانون کی نظر میں غلط ہے اور اس کے تدارک کی ضرورت ہے) پڑھا رہے ہیں۔ انھی دنوں پُرجوش نوجوان ڈاکٹر طاہرالقادری اسلامک لا پڑھاتے تھے۔ ضابطۂ دیوانی کے لیے جسٹس عامر رضا خان (ضابطۂ دیوانی قانون کی تشریح کے مشہور مصنف) سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔‘‘
عدل کے ایوانوں میں اصلاحات کے دعوے داروں کو اس کتاب سے استفادہ کرنا چاہیے، ہمارے عدالتی نظام کی اصلاح کے لیے یہ کتاب اکسیر ثابت ہوگی۔ مصنف نے پنجاب کے طول و عرض میں خدمات سر انجام دی ہیں اور اس کے جغرافیہ سے بہ خوبی واقف ہیں۔ وہ اپنے ماتحت کو اچھا انسان سمجھتے تھے اور اگر فرائض کی ادائیگی کے دوران کوئی کمی بیشی ہوجاتی تو خود نائب قاصد سے معافی مانگنے میں بھی عار محسوس نہ کرتے۔ کتاب کے آخری باب ’’حاصلِ زندگی‘‘ میں مصنف نے کئی اقوالِ زریں مرتب کیے ہیں جن میں قیمتی جملے یہ ہیں: ٭خدائی تقسیم پر راضی رہنا ہی حقِ بندگی ادا کرنا ہے۔ اس کی تقسیم سے اختلاف کرنا حسد کو جنم دیتا ہے۔ ٭جوں جوں انسان کی عقل پختہ ہوتی جاتی ہے، اس کی گفتگو مختصر اور بامعنی ہوتی جاتی ہے۔ ٭اپنی اولاد کے لیے بہت سارا مال و اسباب اکٹھا نہ کرو کیوں کہ اگر لائق ہوگی تو خود بنالے گی، اور اگر نالائق ہوئی تو سب ضائع کردے گی، البتہ ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے، تاکہ آپ کے جانے کے بعد آپ کا نام زندہ رہے۔
’’عدل بیتی‘‘ پر مختصف دانشوروں، شعبۂ صحافت اور ادب کی نامور شخصیات اور بے شمار وکلا اور جج صاحبان کے نہایت فصیح و بلیغ، پُراثر اور دل کش تبصرے آئے۔ یہ Reviews اتنے زیادہ اور بھرپور ہیں کہ الگ کتاب کی اشاعت کے متقاضی ہیں۔ ایک سال سے بھی کم مدت میں عدل بیتی کا دوسرا ایڈیشن شائع ہونا مصنف کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ بعداز ریٹائرمنٹ کچھ لکھنے لکھانے کا کام شروع کیا جس میں عدل بیتی کے بعد ایک اور کتاب زیر تدوین ہے۔ زندگی میں ایک ایسا مرحلہ بھی آتا ہے جب آپ اُن نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو عطا کی ہوں، واپس اس کی مخلوق کی خدمت میں لوٹاتے ہیں۔ یہی زندگی ہے اور یہی حاصلِ زندگی۔ نبی پاکؐ کا فرمانِ عالی شان ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف حکمت و دانائی سرچشمہ ہے۔ مثالی حالات میں کام کرنا کوئی بہادری نہیں ہوتی۔ مشکل اور کٹھن حالات میں بلاخوف و خطر انصاف کرنا اور پھر دلیری سے انصاف کرنا جواں مردی ہے۔ عدل بیتی سے یہی جذبہ جھلکتا ہے۔