ایک بہترین مربی ومعلم کی رحلت
یہ نظام قدرت ہے کہ اِس دنیا میں جو بھی آیا، جانے ہی کے لیے آیا۔ کل ہمیں بھی یہاں سے لوٹ جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اِس دنیا کے مسافر خانے میں رہنے کی ہر ایک کے لیے ایک میعاد مقرر کررکھی ہے، اب کسی کے ٹھیرنے کی میعاد مختصر ہے تو کسی کی زیادہ، لیکن بہرحال یہاں سے جانا ہے۔ وہ حکیم اور برتر ذات ہے جس نے آسمان و زمین بنائے۔ گزشتہ تین چار سالوں سے جس طرح لوگ اس دنیا سے کوچ کررہے ہیں، کیا بوڑھا کیا جوان، کیا دوست کیا ہم جولی…. بلاوا آتا ہے تو آنا فاناً دنیا چھوڑ جاتے ہیں۔
آج مورخہ 16 جون نماز جمعہ سے پہلے خبر آئی ہے کہ ہمارے مشفق مولانا محمد اسلام قاسمی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ آپ کا اس دنیا سے جانا کوئی اچانک نہیں تھا، کوئی ایک عشرہ پہلے آپ پر فالج کا حملہ ہوا تھا، اور پھر یہ حملہ کئی بار ہوا، جس نے اعضاء و جوارح کو بڑی حد تک شل کرکے رکھ دیا تھا، اور اس کے زیراثر زبان بھی آگئی تھی، جو اب پہلے جیسی واضح بات کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھی۔ اللہ نے مومنانہ صفات سے نوازا تھا۔ آپ نے زندگی میں مایوسی کو داخل ہونے نہیں دیا، ہمیشہ راضی برضا رہے۔ جب تک جسم میں رمق باقی رہی، حوصلوں کو ہمیشہ بلند رکھا، اور اپنی زندگی کے لمحے لمحے کو دین کی سربلندی اور قال اللہ اور قال الرسولؐؐ کی امانت آئندہ نسل تک پہنچانے میں صرف کیا، اور جب تک اٹھنے بیٹھنے کی سکت جسم میں باقی رہی، مسندِ حدیث کو سجائے رکھا۔ صحیح مسلم کا درس آپ کا محبوب ترین درس تھا، جس دن اس کا ناغہ ہوتا تھا اُس دن پژمرگی چھا جاتی تھی۔ آخری دو چار سال بڑے امتحان میں گزرے، جب وقفے وقفے سے دل کے دورے بھی پڑتے رہے، اور آئی سی یو میں داخلے کی ضرورت پیش آتی رہی۔ آخر بلاوا آہی آگیا، اور زندگی کا تھکا ہارا مسافر دائمی سفر پر روانہ ہوگیا۔
مولانا مرحوم سے ہماری بالمشافہ ملاقات 5 دسمبر 2020ء کو دیوبند میں ہوئی تھی۔ یہ ملاقات پہلی بھی تھی آخری بھی۔ ملاقات بھی چند لمحوں کی، جو تشنگی مزید بڑھاگئی۔ اس ملاقات کے چند لمحے صدیوں کو سموئے ہوئے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس میں اپنائیت کا جو احساس ہوا وہ زندگی میں ہمیں خال خال ہی نظر آیا۔ آپ بیمار اور کمزور تھے، لیکن زحمت اٹھاکر صرف اِس ناچیز کی ملاقات کے لیے تشریف لائے تھے۔ ایسی ٹوٹ کر چاہنے والی شخصیت سے اب تک ملاقات سے محرومی کا ہمیں بھی شدید احساس ہوا۔ وہ اِس ایک گم نام کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ آپ سے ملاقات کا تو پچیس سال سے اشتیاق تھا، حضرت مولانا محمد سالم قاسمی علیہ الرحمۃ نے آج سے ربع صدی پیشتر دبئی کا جب سفر کیا تھا تو آپ کا فون نمبر یہ کہہ کردیا تھا کہ یہ ہمارے تعلق والے ہیں، وہ نمبر آج تک ڈائری میں محفوظ ہے، کئی بار کویت جانا ہوا، لیکن اس دوران دبئی میںکبھی ٹھیرنے کا موقعہ نہیں آیا، اب مولانا سے دوبارہ ملاقات کی حسرت دل میں ہی رہ گئی اور آپ آخری سفر پر روانہ ہوگئے، اللہ نے اگر قسمت میں رکھا تو آئندہ وہیں ملاقات ہوگی،لیکن کیا ہم وہاں پہنچ بھی پائیں گے؟ہم جو گنہگار ٹھیرے، مولانا تو اس وقت صدیقین وصالحین کے جلو میں ہوں گے اِن شاء اللہ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ مولاناسے کہنے سننے کی بہت سی باتیں تھیں، یہ باتیں ہفتوں ساتھ رہتے تب بھی ختم نہ ہوپاتیں، ان کی شاخیں اور کونپلیں نکل آتیں۔ انسان کو زندگی میں کئی ایسے دوست احباب کی ضرورت ہوتی ہے جن سے دل کی بات کہہ سکے، دکھ درد بیان کرسکے، وہ باتیں کہہ سکے جو ہرایک سے کہہ نہیں سکتا۔ مرحوم کچھ ایسے ہی دوست اور رفیق بن سکتے تھے، لیکن ہم تو دیوبند، نائطی کہاوت کے مطابق گھوڑے کی پیٹھ پر سوار گئےتھے،ہمیں پیٹھ سے اترنے کا موقع ہی نہیں ملاتھا۔
مولانا کو اللہ تعالیٰ نے بہت ساری خوبیوں سے نوازا تھا، ایک تو یہ کہ ان کی نظر مستقبل پر رہتی تھی، انہیں ماضی کے حصار میں اسیر رہنا پسند نہیں تھا، کسی سے انہیں تکلیف پہنچی ہو تو انہوں نے دل میں اس کا گھاؤ نہیں پالا، انتقام اور نفرت کا جذبہ نہیں رکھا۔ زندگی میں کئی لوگوں سے انہیں بہت اذیتیں پہنچیں، لیکن انہوں نے انہیں دل میں ترازو بننے نہیں دیا، پہیّے کو پیچھے کی طرف گھمانے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے لوگوں کے نیک کاموں کو یاد رکھا، قابلِ تعریف کاموں کی انہوں نے بھرپور انداز میں ستائش کی، اور اپنے دل کے زخموں کو کریدنے کے بجائے ان پر پھایا رکھنا ضروری سمجھا۔
مولانا سے ہمارے تعارف کی تجدید 2016ء میں علم وکتاب واٹس ایپ گروپ سے ہوئی تھی۔ ویسے یہ گروپ ابتدا میں مدارسِ دینیہ کے وابستگان میں کتب بینی کا ذوق اور ادب کے فروغ کے لیے بنا تھا، لیکن جب گنگوہ سے مولانا مفتی ساجد کھجناوری وابستہ ہوگئے تو یہ اہلِ علم کی ایک موقر بزم بن گیا، قوس قزح کے رنگوں کی طرح مختلف طبیعتوں اور مزاج کے اہلِ علم کو انہوں نے اس بزم سے ملا دیا۔ مولانا محمد اسلام قاسمی علیہ الرحمۃ انہی سابقین اولین میں تھے۔ اس ناچیز کی مشکل یہ رہی ہے کہ الٹے سیدھے کچھ لکھ تو دیتے ہیں، لیکن خاکہ بنانا یا فرمائش پر کوئی ڈھنگ کا مضمون لکھنا آج تک نہیں آیا۔ کوئی تحریک ہوتی ہے تو پھر چند سطریں برجستہ نکل آتی ہیں، لوگ شکایت بھی کرتے ہیں کہ جب ضرورت پڑتی ہے تو سُستی دکھاتے ہو، اور وقت گزرنے کے بعد لکھتے ہو۔ علم و کتاب گروپ کے آغاز میں عرصے تک ہم نے اس میں کچھ نہیں لکھا تھا، خود کو صوتیات اور مضامین پوسٹ کرنے تک محدود رکھا، لیکن کبھی کسی تحریک سے کچھ جملے نکلے اور مرحوم کی ان پر نظر پڑی تو انہوں نے اسے دانتوں سے پکڑ لیا اور لگے ہمت افزائی کرنے۔ خردوں کی ہمت افزائی کرنے والی ایسی شخصیات ہمیں شاذ ونادر نظر آتی ہیں۔ چاہے فیس بک ہو یا واٹس ایپ… جب تک آپ کی انگلیاں کی بورڈ پر چلنے کے قابل رہیں، شاید ہماری کوئی پوسٹ نہیں بچی جس پر آپ نے اپنے تاثرات سے ہمت نہ بڑھائی ہو۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں، جو شخصیت ساز ہوتے ہیں، یہ ہمارے اداروں اور تعلیم گاہوں کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ ہوتے ہیں، حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے بقول یہ کانِ نمک ہیں، ان کی قدر کرو۔
صاحب زادہ ابن الحسن عباسی مرحوم جو علم وکتاب گروپ کے رکن رکین تھے، انہوں نے اپنی رحلت سے قبل مجلہ النخیل کے مطالعہ نمبر کا ڈول ڈالا تھا، آپ کی رحلت کے بعد عزیزی مولوی بشارت نواز نے ناتجربہ کاری کے باوجود جب اس منصوبے کو مکمل کرنے کا تہیہ کرلیا تو جن شخصیات نے ان کی مسلسل ہمت افزائی کی اور قابل قدر مضامین کی فراہمی میں بھرپور ساتھ دیا ان میں مولانا کا نام سرفہرست ہے۔ مولوی بشارت اس ناچیز سے اپنی محسن کتابوں کے سلسلے میں مضمون لکھنے کی فرمائش کرکے جب تنگ آگئے تو مولانا کو پیچھے لگادیا، اور ہمیں بھی آپ کو انکار کرتے ہوئے حیا سی آگئی اور ہار مان لی۔ بعض نزاکتوں کی وجہ سے محسن کتابوں والا مضمون تو چھوڑ دیا، البتہ ”مطالعہ کتب کیوں اور کس طرح؟“ کے عنوان سے ایک مضمون لکھنا نصیب ہوا۔ اب شاید یہ مولانا کی محبتوں اور توجہات کا اثر تھا کہ قارئین کو یہ پسند بھی آگیا۔ ایسے مشفقین کو ہم اب کہاں تلاش کریں؟ یہی تو وہ لوگ ہیں جن سے نسلیں پروان چڑھ کر معاشرے اور سماج کے لیے مفید بننے کے قابل بنتی ہیں۔
آپنے دارالعلوم دیوبند سے دورۂ حدیث کی تکمیل (1971ء) میں کی تھی، جس کے بعد تکمیل ادب عربی، عربی و اردو خوش نویسی اور دارالافتاء کے شعبے سے فراغت حاصل کی اور دارالعلوم دیوبند ہی میں ملازمت سے منسلک ہوگئے۔ 1976 ء مطابق 1396ھ میں دارالعلوم دیوبند سے پندرہ روزہ عربی رسالے ”الداعی“ کا اجراء ہوا، اس کی ادارت حضرت مولانا وحید الزماں کیرانویؒ کے سپرد تھی، انھوں نے دو معاون طلب کیے، دوسرے معاون کے طور پر آپ کا تقرر ہوا، اور یہ ملازمت 1982ء تک جاری رہی۔ دارالعلوم میں ہنگامے اور قضیہ نامرضیہ کے بعد آپ نے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب علیہ الرحمۃ کے ساتھ وقف دارالعلوم دیوبند سے وابستگی اختیار کرلی تھی۔ ”الداعی“ میں ملازمت کے دوران ہی انگریزی سیکھی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہائی اسکول اور پری یونیورسٹی کے امتحانات پاس کیے، اور 1990ء میں آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے اردو کی تکمیل کی۔
آپ کی تعلیمی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو آپ کے اساتذہ و مشائخ میں اساطینِ علم، علماء و اکابر کا ایک ایسا طبقہ ملتا ہے جن کی مثال پھر نظر نہیں آئی۔ کئی دہائیوں سے علومِ نبوت کے ایسے جلیل القدر مسند نشین ناپید نظر آرہے ہیں، آپ نے دیوبند کے سند حدیث شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی کے شاگردِ رشید محدثِ زمانہ حضرت مولانا فخرالدین مراد آبادیؒ سے بخاری شریف کا درس حاصل کیا، امام النحو علامہ صدیق کشمیریؒ سے شرح جامی پڑھی، اور عربی کے شیخ الادب حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی سے عربی زبان و ادب کا شعور لیا، جو آپ کی امتیازی شناخت کا عنوان بن گیا۔ ترجمان مسلک دیوبند حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب علیہ الرحمۃ مہتمم دارالعلوم دیوبند کے درس و افادات سے مستفید ہونے کا بھی آپ کو شرف ملا، اور عالمِ عرب کے معروف محدث، فقیہ و مصنف شیخ عبدالفتاح ابوغدہ سے علمی استفادہ اور سندِ حدیث آپ کے لیے باعثِ افتخار بنے رہے۔ اس طرح آپ نے حضرت مولانا مفتی ٘محمودالحسن گنگوہیؒ اور حضرت مولانا مفتی نظام الدینؒ سے افتاء اور مولانا اشتیاق احمد دیوبندیؒ سے خطاطی کی مشق کی۔
تعلیم وتربیت اور علم وادب کے اس مقام تک آپ ایک دو روز میں نہیں پہنچے تھے، بلکہ آپ نے اس کے لیے وہی سفر کیا تھا جو وسائلِ سفر نے بیل گاڑی سے ہوائی جہاز تک پہنچنے کے لیے کیا تھا۔
آپ کی پیدائش مورخہ 16 فروری1954ء (موضع راجہ بھیٹا، ضلع دمکا، جامتاڑا، جھارکنڈ) میں ہوئی تھی، یہ خالص مسلم آبادی تھی، اور علاقے کی بڑی بستی شمار ہوتی تھی۔ جس معاشرے میں آپ نے آنکھیں کھولی تھیں، اس میں تعلیمی پستی کا یہ حال تھا کہ آپ کے خاندان میں دادا مرحوم کے ایک بھتیجے نے اتنا پڑھ لیا تھا کہ وہ اٹک اٹک کر قرآن شریف پڑھ لیا کرتے تھے، ان کے سوا سب لکھنے، پڑھنے سے ناآشنا تھے۔ اس لیے جب آپ کی عمر چار، پانچ سال کی ہوئی تو گھر والوں نے بچے کو اپنی ضرورت اور فہم کے مطابق گھر کی بکریاں چَرانے کی تربیت دینے کی کوشش شروع کردی، مگر اللہ مسبب الاسباب اور مقلب القلوب ہے، آپ کی والدہ نے کہہ دیا کہ میرا بیٹا تعلیم حاصل کرے گا۔ نقارخانے میں طوطی کی آواز…. اس عظیم خاتون کی اس بات کا مذاق اڑایا گیا، آخر بچہ پڑھے گا کہاں؟ اور کس سے؟ گاؤں میں نہ کوئی اسکول، نہ صاحب مکتب اور نہ کچی مسجد میں متعین امام صاحب!!
قریب تین کلومیٹر دور ایک بہت چھوٹا گاؤں غیر مسلم آبادی پر مشتمل تھا رام پور، وہاں مڈل اسکول جاری تھا۔ ایسے وقت میں ایک مولوی صاحب مسلمان گاؤں والوں کے اصرار پر بچوں کو دینیات پڑھانے کے لیے مقیم ہوگئے تھے، اس طرح مکتب کی ابتدا ہوگئی۔ اسی مکتب میں آپ کی نانی نے آپ کو ”قاعدہ بغدادی“ دے کر بٹھا دیا۔ یہاں مولوی حاجی لقمان مرحوم نے آپ کی بسم اللہ خوانی کی۔ مرحوم فارسی کے بڑے ماہر استاد تھے، مگر تجوید ومخارج پر ان کی دسترس واجبی سی تھی۔ یہاں آپ قاعدہ بغدادی، عم پارہ اور اردو قاعدے پڑھ کر قرآن شریف ناظرہ کی جماعت میں شامل ہوگئے تھے۔ قرآن شریف مکمل ہوا، اردو کی پہلی اور دوسری کتاب ختم ہوئی، دینی تعلیم کے رسالے کے چند حصے ختم کیے۔
اب درجہ فارسی میں داخلے کا وقت تھا۔ واضح رہے کہ اس پورے خطے میں تقریباً سو کلومیٹر کے رقبے میں کوئی دینی مدرسہ نہیں تھا۔ ضلع ہزار باغ کے ایک شہر گریڈیہہ میں ”جامعہ حسینیہ“ نام کا ایک مدرسہ جاری تھا، یہاں حضرت شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنیؒ کے قدم پڑنے کے بعد اس ادارے کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ایک وقت میں مفتی بلال احمدؒ وقاری شوکتؒ (بھاگلپور)، حضرت مولانا افتخار صاحب اعظمیؒ، حضرت علامہ عثمان غنیؒ (سابق شیخ الحدیث مظاہر علوم وقف سہارن پور)، حضرت مولانا عبدالحق اعظمیؒ (سابق محدث کبیر و نائب شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند) اور حضرت مولانا قاری محمد ایوب مظاہریؒ قاضی شریعت ضلع گریڈیہہ جیسے اساتذہ و اکابر علماء کی تدریسی خدمات اسے حاصل رہی تھیں۔ 1962ء میں اس مدرسے میں مولانا کا داخلہ ہوا۔
یہاں سے آپ نے مدرسہ حسینیہ، چلمل، ضلع بیگو سرائے کا رخ کیا، لیکن جب معلوم ہوا کہ یہاں سے علامہ عثمان غنیؒ جیسے جید اساتذہ نکل چکے ہیں تو پھر اپنے وطن سے قریب تر علاقے کے اشرف المدارس کلٹی (بردوان۔ بنگال) کی طرف 1964ء میں توجہ ہوئی۔ یہاں آپ کو حضرت مولانا عبدالرشید رانی ساگری رحمۃ اللہ علیہ جیسے عارف باللہ کا فیض نصیب ہوا۔
1967ء میں آپ نے مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور میں داخلہ لیا جہاں شرح جامی کی جماعت میں آپ کو داخلہ ملا، یہاں آپ کو علامہ صدیق احمد کشمیریؒ سے شرح ملاجامی پڑھنے کا موقع ملا۔ مولانا کشمیریؒ نے پچاس سال تک نحو کی یہ مشکل کتاب پڑھائی تھی، اور آپ کو بجا طور پر امام الںحو کہا جاتا تھا۔ مولانا اسلام صاحب نے علامہ کے شرح ملا جامی کے درسی افادات کو قلمبند کیا تھا، اور جب آپ کو شرح جامی پڑھانے کا موقع ملا تو سالہاسال تک آپ کو اس کی عبارتیں ازبر رہی تھیں۔ یہاں آپ نے مولانا مفتی عبدالقیوم مظاہریؒ سے کنزالدقائق پڑھی۔ مفتی صاحب قریبی دور کے اہل اللہ میں تھے، اور حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ کے خلیفہ مجاز تھے۔ مظاہر علوم میں اختلافات رونما ہوئے تو دل برداشتہ ہوکر علیحدگی اختیار کی اور یکسوئی سے حضرت رائے پوری کی خانقاہ کے کاموں کو سنبھال لیا تھا۔
1968ء میں آپ کا داخلہ دارالعلوم دیوبند میں ہوا۔ اس وقت تک دارالعلوم کے نصابِ تعلیم میں جماعت بندی نہیں ہوئی تھی۔ یہاں آپ کا داخلہ مختصر المعانی، شرح وقایہ اور مقامات حریری کی جماعت میں ہوا، اور یہیں سے داخلے کے چار سال بعد آپ نے دورہ حدیث مکمل کیا۔ دارالعلوم میں آپ کی تعلیم کی ترتیب اس طرح تھی:
داخلہ: 1968ء۔فراغت ودورہ حدیث: 1971ء ۔ تکمیل ادب عربی: 1972ء۔تکمیل کتابت(اردو عربی خطاطی): 1973ء۔تکمیل افتاء نویسی: 1975ء۔
یہاں آپ نے چالیس سال سے زیادہ عرصہ طالبانِ علومِ نبوت کی خدمت میں گزارا، اور آپ کے سامنے ہزاروں تشنگانِ علم نے اپنے زانوئے تلمذ تہ کیے- آپ نے کئی کتابیں بھی یادگار چھوڑیں جن میں سے چند کے نام یہ ہیں:
”دارالعلوم کی ایک صدی کا علمی سفرنامہ“، ”دارالعلوم دیوبند اور حکیم الاسلام قاری محمد طیب“، ”مقالات حکیم الاسلام“، ”خانوادۂ قاسمی اور دارالعلوم دیوبند“، ”درخشاں ستارے: میرے اساتذہ، میری درسگاہیں“، ”رمضان المبارک: فضائل ومسائل“، ”زکوٰۃ و صدقات: اہمیت و فوائد“، ”متعلقاتِ قرآن اور تفاسیر“، ”ضمیمہ المنجد عربی اردو“، ”جمع الفضائل شرح اردو شمائل ترمذی“، ”منہاج الابرار شرح اردو مشکوٰۃ الآثار“، ”جدید عربی میں خط لکھیے.. عربی اردو“،”القراۃ الراشدہ“ ترجمہ اردو،ترجمہ ”مفید الطالبین“
طویل بیماری نے آپ کو توبہ و رجوعِ الی اللہ کا خوب موقع دیا، اور جب اس دنیا سے گئے تو جسم گناہوں کی آلائشوں سے پاک تھا۔ پوری زندگی قال اللہ وقال الرسولؐ کی صدائیں بلند کرنے میں گزاری۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت کرے، اور اعلیٰ علیین میں مقام عطا کرے۔ آمین۔