کشمیر پر تہذیبی یلغار کا آغاز

بھارت کشمیر کے مسلم کردار اور شناخت کو بدل کر دوبارہ ہندو عہد سے جوڑنا چاہتا ہے

مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست 2019ء کے یک طرفہ اور غیر قانونی فیصلے کی بلی بہت تیزی کے ساتھ تھیلے سے باہر آتی جارہی ہے۔ یہ بات تو روزِ اوّل سے واضح تھی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے کشمیر کی خصوصی شناخت اور الگ حیثیت کے خاتمے کا فیصلہ کسی وقتی اور جذباتی اُبال یا انتخابی و سیاسی ضرورت کے تحت نہیں کیا، بلکہ اس کے پیچھے برسوں کی منصوبہ بندی اور ہندوتوا مائنڈسیٹ کے تہذیبی مقاصد اور مستقبل کے عزائم ہیں۔ کشمیری قوانین اور پابندیوں کے اسپیڈ بریکر ٹوٹنے کے چند ماہ بعد ہی بھارت نے سیکڑوں نئے قوانین متعارف کرکے کشمیر میں اپنے طویل المیعاد مقاصد کی جانب پیش قدمی شروع کردی تھی جن میں کشمیریوں کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنا، ان کی زمینوں اور جائدادوں کو ہتھیانا، ان کی انڈینائزیشن کے لیے نصابِ تعلیم اور رسم الخط کو تبدیل کرنا، اور آگے چل کر ان کے مذہبی مقامات اور شہروں کے نام تبدیل کرنا شامل تھے۔ ان میں سے بہت سے مقاصد کی طرف پیش قدمی جا ری ہے اور اس کا ایک مرحلہ مسلم طالبات کے لباس پر اعتراض کا آغاز ہے۔

سری نگر کے ایک سرکاری کالج کی مسلم طالبات کی ایک وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں طالبات اس بات پر شدید احتجاج کررہی ہیں کہ کالج کی پرنسپل نے انہیں عبایا پہن کر کالج آنے سے منع کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ عبایا پہننا چاہتی ہیں تو انہیں کسی دینی مدرسے میں داخلہ لینا چاہیے۔ طالبات کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں بتایا گیا کہ اس طرح کالج کی دوسری طالبات پر اثر پڑتا ہے۔ سری نگر کے مائسیمہ کالج کی طالبات پر پابندیوں کا آغاز حقیقت میں بھارتی ہندوتوا ذہن کی اصلیت کا پتا دے رہا ہے۔

بھارت کشمیر کے مسلم کردار اور شناخت کو بدل کر دوبارہ ہندو عہد سے جوڑنا چاہتا ہے۔ 5 اگست 2019ء کے بعد بھارت کا انتہا پسند ہندو ذہن برسرِعام کشمیر کو قبل از اسلام دور کے ساتھ جوڑنے کی بات کررہا ہے۔ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ کشمیر اسلام کی آمد سے قبل ایک ہندو ریاست تھی، مسلم سلاطین نے زور زبردستی اس ریاست کا مذہب تبدیل کیا، ہندوئوں کے مقدس مقامات کو یا تو ویران کیا گیا، یا ان پر اسلامی ناموں کی تختیاں لگا لی گئیں، سلطان شہاب الدین نے طاقت کے زور پر اپنا نظریہ پھیلایا اور مندروں کو مساجد میں تبدیل کیا۔

یہ افسانوی انداز صرف حقائق کو مسخ کرنے اور کشمیر پر اپنے دعوے کو تاریخی رنگ دینے کی غرض سے اپنایا جارہا ہے۔ مستقبل قریب میں ہوٓنے والے اقدامات کو ایک جواز دینا بھی اس ذہن کا اصل مقصد ہے۔ گویا کہ ہندو ذہن قبل از اسلام کشمیر کی بازیافت کا نعرہ بلند کررہا ہے۔ پانچ اگست کے فیصلے کے درپردہ مقاصد میں یہی تصور اور سوچ شامل ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جی ٹوئنٹی ملکوں کی کانفرنس کا انعقاد اسی ذہنیت کا عکاس ہے۔ جی ٹوئنٹی دنیا کے 20 ملکوں کا ایک اقتصادی فورم ہےجس کی صدارت بھارت کے پاس ہے، اور اس موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھارت نے دنیا کو کشمیر پر گمراہ کرنے کے لیے اس فورم کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جی ٹوئنٹی کاایک اہم اجلاس بھارت میں منعقد ہورہا ہے اور بھارت نے سیاحت کے ورکنگ گروپ کے دواجلاس سری نگر اور لیہہ میں منعقد کرانے کا فیصلہ کیا۔اس کے ساتھ ایک اجلاس ارونا چل پردیش میں بھی منعقد کیا جانا ہے۔ کشمیر پر پاکستان، اور اروناچل پردیش پر چین کا مؤقف واضح ہے۔پاکستان اور چین نے بھارت کے اس اقدام کی مذمت کی اور کہا کہ متنازع علاقوں میں اس طرح کی بین الاقوامی سرگرمی عالمی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔بھارت نے اس مخالفت کے باجود اس سرگرمی کو ترک نہیں کیا۔کشمیر میں ہونے والے اجلاس میں پچاس وفود کی شرکت متوقع ہے جن کو جھیل ڈل سمیت کشمیر کے خوبصورت مقامات پر لے جایا جائے گا اوردنیا کو یہ تاثر دیا جائے گا کہ پانچ اگست کے بعد کشمیر میں امن ہے اور حالات مکمل طور پر معمول پر آچکے ہیں۔یہ الگ بات کہ اس مصنوعی امن کو قائم کرنے کے لیے کشمیر کو قبرستان بنا دیا گیا،آزادیوں کا گلا گھونٹ دیا گیا، ہزاروں افراد جیلوں میں بند ہیں اور میڈیا پابہ زنجیر ہے۔

کشمیر جس طرح اپنے قدرتی حسن،فطری نظاروں، آب وہوا اور تہذیب وثقافت کے لحاظ سے منفرد اور دنیا کی کئی تہذیبوں کا مجموعہ ہے، اسی طرح اِس خطے میں اسلام کی آمد اور فروغ کی داستان بھی منفرد ہے۔ بنیادی طور پر درمیان میں گھرے رہنے اور دنیا سے الگ تھلگ ہونے کے جغرافیائی محلِ وقوع نے اس خطے کے مجموعی مزاج کو اپنی دنیا میں گم کسی درویش ِ خدامست کی طرح صوفیانہ بنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قادرِ مطلق کے قرب کے متلاشی صوفیوں، رشیوں، سنتوں، سادھوؤں اور بھشکوئوں نے اسے اپنا مسکن بنایا۔ اسلام بھی اس خطے میں دبے پائوں ترکستان کے ایک صوفی بزرگ عبدالرحمان بلبل شاہ کے ذریعے آیا، اور پھر سب سے پہلے کشمیر کا بودھ بادشاہ رینچن شاہ، بلبل شاہ کے تیرِ نظر کا شکار ہوا۔ اسلام خاموشی سے بادشاہِ وقت کے دروازئہ دل پر دستک دے کر نہاں خانہ دل کا مکین بن گیا۔ کشمیر کے بادشاہ رینچن شاہ نے عبدالرحمان بلبل شاہ کی تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا اور اُن کا اسلامی نام صدرالدین شاہ رکھا گیا۔ بادشاہِ وقت کے اسلام قبول کرنے سے وقت کی ہوائوں کا رخ ہی بدل گیا۔ اسلام اعلیٰ ترین ایوان کا مذہب بن گیا، اور یوں کشمیر میں شاہ میری سلطنت کے ساتھ ہی مسلم عہد کا آغاز ہوگیا۔ وہ کشمیر کا پہلا نومسلم بادشاہ تھا جس نے طاقت اور ترغیب و تحریص کے بجائے باہر سے آنے والے ایک صوفی منش درویش کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔

اکشمیر میں اسلام کی آمد اور عروج سے پہلے تین تہذیبوں کے ادوار گزر چکے تھے جن میں ہندومت، بودھ مت اور شیو مت شامل ہیں۔کشمیر میں لوگ جن بزرگانِ دین کے اخلاق سے متاثر ہوکر دائرئہ اسلام میں داخل ہوئے اُن میں سب سے نمایاں سید عبدالرحمان بلبل شاہ ہیں جن کے ہاتھ پر 720 ء میں حاکمِ وقت نے اسلام قبول کرکے حالات کی کایا ہی پلٹ دی۔ عبدالرحمان بلبل شاہ وسط ایشیا کے حکمرانوں کے اقدامات سے تنگ آکر ایک بڑے قافلے کے ہمراہ ترکستان سے کشمیر آئے تھے۔ کشمیر کی سرزمین اُس وقت ہندومت کے ذات پات کے نظام میں جکڑی ہوئی تھی اور لوگ بھی انسانیت کی تفریق کے اس نظام سے تنگ تھے۔انہوں نے مساواتِ انسانی کے تصور پر قائم اور کاربند اسلام کو متبادل کے طور پر پیش کیا جسے ہندو معاشرے نے قبول کیا۔ اب چونکہ ریاست کے سربراہ نے اسلام قبول کرلیا تھا اس لیے کشمیر میں اسلام کی پیش رفت زیادہ تیز رفتاری سے جاری رہی۔

اس ساری داستان کو نئے انداز سے پیش کیا جارہا ہے اور پرانے کشمیر کی بازیافت کے نام پر مسلمانوں کو دفاعی پوزیشن مین دھکیلا جانے لگا ہے تاکہ وہ بھارت کی نوآبادیاتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج نہ کریں۔ یہ وہی تکنیک ہے جو بابری مسجد اور متھرا کی مساجد کے حوالے سے اپنائی گئی تھی۔ ایک بیانیہ گھڑ کر پھیلایا گیا اور بعد میں بابری مسجد کی بنیادوں میں رام کی جنم بھومی کے آثار تو نہ ملے مگر اس گواہی سے پہلے ہی انتہا پسند ہندو اپنے مقاصد حاصل کرچکے تھے(باقی صفحہ 33پر)

انتہا پسند ہندوؤں کی کشمیر پر یہ تہذیبی یلغار کسی بڑے حادثے اور تباہی کا اشارہ ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ اس وقت بھارت کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں۔ آئے روز کسی نہ کسی مسلمان راہنما اور عام شہری کی جائداد کو بے نامی اور غیر قانونی قرار دے کر بحق سرکار ضبط کرکے تجاوزات کے سلسلے کو آگے بڑھایا جا رہا ہے، جس سے کشمیریوں کی زمین گھٹتی اور بھارت کے براہِ راست کنٹرول والی زمین کا دائرہ بڑھتا اور پھیلتا جارہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر 1940-50ء کے زمانے کے فلسطین کی تاریخ نظروں میں گھوم جاتی ہے جو ماہ وسال کی طویل گردش میں ایک دائرے سے نقطہ بن کر رہ گیا ہے، اور ایک نقطہ بڑے دائرے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔