لیبیا سے اٹلی جاتے ہوئے یونان کے قریب کشتی حادثے میں ڈوبنے والے پاکستانی نوجوانوں کی تفصیلات سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ تازہ ترین معلومات کے مطابق ڈوبنے والوں میں پاکستان کے ضلع گجرات کے ایک گاؤں نور جمال کے 11 نوجوانوں سمیت 47 افراد بھی شامل ہیں۔ تین دن گزر جانے کے باوجود لواحقین کا کسی سے بھی رابطہ نہیں ہوسکا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے یونان میں کشتی ڈوبنے کے حادثے میں پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کے افسوس ناک واقعے کی تحقیقات کے لیے 4 رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی بنادی ہے۔ نیشنل پولیس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل احسان صادق کمیٹی کے چیئرمین مقرر کیے گئے ہیں۔ وزارتِ خارجہ کے ایڈیشنل سیکریٹری افریقی امور جاوید احمد عمرانی، آزاد جموں و کشمیر پونچھ ریجن کے ڈی آئی جی سردار ظہیر احمد اور وزارتِ داخلہ کے جوائنٹ سیکریٹری ایف آئی اے فیصل نصیر کمیٹی کے رکن ہوں گے۔ یہ کمیٹی یونان میں کشتی ڈوبنے کے تمام حقائق جمع کرے گی، انسانی اسمگلنگ کے پہلو کی تحقیق ہوگی اور ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا۔ لیکن حکومت کب یہ بات سمجھے گی کہ یہ کام ایف آئی اے اور ائرپورٹس پر امیگریشن حکام کے غیر قانونی تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کشتی الٹ جانے کے واقعات سال میں کم و بیش پانچ چھ بار ہو ہی جاتے ہیں، ابھی حال ہی میں تین ماہ قبل ایسا حادثہ ہوا تھا۔ اب لیبیا سے یونان جانے والی کشتی یونان کے قریب سمندر میں الٹ گئی ہے جس میں متعدد پاکستانیوں کے ڈوبنے کی اطلاعات ملی ہیں۔ ڈوبنے والوں میں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے علاقے کھوئی رٹہ کے ایک ہی گاؤں بنڈلی کے 28 نوجوان بھی شامل ہیں۔گجرات کی مقامی پولیس کے مطابق تھانہ کنجاہ، تھانہ صدر گجرات، تھانہ ڈنگہ، تھانہ ککرالی، تھانہ رحمانیہ اور تھانہ بولانی کے مختلف دیہات کے نوجوان بھی اس حادثے کا شکار ہوئے ہیں۔علاقہ تھانہ کنجاہ کے جن افراد کے کشتی میں سوار ہونے کی اطلاعات ہیں ان میں گائوں گولیکی کے رہائشی عبداللہ ولد عبد العزیز، عبد اللہ ولد آفتاب احمد، مخدوم صادق ولد محمد صادق، حامد ولد محمد اکرم، اسامہ ولد محمد طارق، دائود شہزاد ولد رحم دین۔ قاسم آباد سے تعلق رکھنے والے عامر ولد یوسف، حماد ولد محمد صدیق اور خرم بٹ ولد ارشد شامل ہیں۔گاؤں ٹاہلی صاحب کے ابوذر ولد پرویز، شمشیر علی ولی محمد۔ کوٹ قطب دین کے سید عمران علی ولد سید قمر عباس، علی ولد امتیاز۔ نتھوکوٹ کے توقیر ولد صوفی محمد اسلم۔ محلہ امین آباد کے علی رضا ولد جعفر حسین۔ نارووال کے رحمان علی ولد محمد ضیا۔ گجرات کے گاؤں دیدڑ کے عثمان ظفر ولد محمد ظفر، علی سرور ولد محمد سرور، عثمان اختر ولد محمد اختر کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ بھی لیبیا سے یونان جانے والوں میں شامل تھے۔اس حادثے کا شکار ہونے والوں میں سب سے زیادہ ضلع گجرات کے گاؤں نور جمال شمالی کے نوجوان شامل ہیں، جن کی تعداد 11 بتائی جا رہی ہے۔ ان میں دو بھائی بھی شامل ہیں۔نور جمال کے عمران ولد حیات، علی حیدر ولد پلے خان، افضل حیات ولد فضل حسین، منیر ولد اسلام ٹھیکیدار، قاسم ولد طالب ٹھیکیدار، شمریز ولد احمد خاں، آفتاب ولد زاہد، میاں بوٹا ولد میاں رحمت، بابر ولد پہلو، میاں عبدالجبار ولد میاں اسماعیل اور میاں عبدالغفار ولد میاں اسماعیل۔ گاؤں دھول سرائے کے سمیع اللہ ولد شاہد اقبال، اویس ولد عبدالرزاق، علی حسن ولد ندیم حسین، اور گائوں کوٹ بیلہ کے حمزہ ولد اختر حسین سنگلا، عثمان ولد شبیر۔ گاؤں گوریاں کے شبیر احمد ولد بشیر احمد، شعیب بیگ ولد محمد شریف، اسد بیگ ولد ارشد بیگ، مرزا مبین ولد محمد حنیف۔ گائوں تہیال کے جواد اصغر ولد اصغر علی، محمد علی ولد الطاف حسین، ذیشان ولد الطاف حسین، تجمل حسین ولد مزمل حسین، عدنان ولد عارف حسین، عرفان ولد مہربان بھی لاپتا نوجوانوں میں شامل ہیں۔ نور جمال سے تعلق رکھنے والے متاثرین کے اہلِ خانہ کے مطابق ان کا یورپ جانے کی کوشش کرنے والے ان نوجوانوں سے کم و بیش ایک ہفتہ قبل لیبیا سے روانہ ہونے کے بعد رابطہ ہوا تھا۔ جب سے حادثے کی اطلاع موصول ہوئی ہے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا، جن ایجنٹس کے ذریعے انہیں بھجوایا تھا ان سب کے نمبر بند ہیں اور علاقے کے جن لوگوں کے ذریعے ایجنٹوں سے رابطہ ہوا تھا وہ بھی اپنے گھروں سے غائب ہیں۔ اس حادثے کا شکار ہونے والی کشتی میں 310 پاکستانی سوار تھے جن میں سے صرف 12 بچ سکے۔ تاہم یہ تعداد حتمی نہیں ہے۔
یونانی حکومت نے ریسکیو آپریشن بند کرکے تمام لاپتا افراد کو مُردہ قرار دے دیا۔ حادثے میں زندہ بچ جانے والوں میں 12 پاکستانیوں کی شناخت ہوگئی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ فی الحال حادثے میں ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد اور شناخت کی تصدیق نہیں کرسکتے، یونان میں پاکستانی سفیر اور عملہ ورثا اور 78 لاشوں کی شناخت کے عمل میں یونانی حکام کے ساتھ رابطے میں ہے، لاشوں کی شناخت ڈی این اے کے ذریعے ہوگی۔ کشتی حادثے میں لاپتا ہونے والے افراد کے اہلِ خانہ کو یونان میں سفارت خانے کی ہیلپ لائن پر رابطہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یونان کے ساحل پر ڈوبنے والی کشتی میں زندہ بچ جانے والے تارکین وطن نے کوسٹ گارڈز کو بتایا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو زبردستی کشتی کے نچلے حصے، جبکہ دیگر ملکوں کے شہریوں کو کشتی کے اوپر والے حصے میں رکھا گیا تھا۔
ڈوبنے والی کشتی کے بارے میں خوفناک تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ ایسے سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ یونانی کوسٹ گارڈز نے اس سانحے میں اپنے کردار کو ’’چھپا‘‘ دیا ہے۔ تقریباً 500 افراد کے لاپتا ہونے کا خدشہ ہے۔ زندہ بچ جانے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ ’’خواتین اور بچوں کو سامان رکھنے والی جگہ پر بند رکھا گیا، جبکہ پاکستانی شہریوں کو نیچے رکھا گیا تھا‘‘۔ بیانات سے معلوم ہوا ہے کہ کشتی کا انجن کشتی ڈوبنے سے پہلے خراب ہو گیا تھا، تقریباً 700 افراد کشتی میں سوار تھے، کوسٹ گارڈز کی جانب سے کشتی کو رسّی سے باندھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم یونانی حکام نے ان الزامات کو مسترد کردیا۔ حکومت کے ترجمان نے تصدیق کی کہ کشتی کو سمندر میں مستحکم کرنے کے لیے کوسٹ گارڈز کی جانب سے رسّی پھینکی گئی تھی۔یہ سوالات بھی ہو رہے ہیں کہ آیا یونانی کوسٹ گارڈز کو اس پرانی کشتی کو حادثے سے محفوظ رکھنے کے لیے مداخلت کرنی چاہیے تھی؟